نسائی تاریخ سے مراد عورت کے نقطہ نظر سے تاریخ کو ازسرنو پڑھنا ہے۔ یہ تاریخ نسائیت کی طرح نہیں ہے، جو نسائیت کی تحریک کی اصل اور ارتقا کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ خواتین کی تاریخ سے بھی مختلف ہے، جو تاریخی واقعات میں خواتین کے کردار پر مرکوز ہے۔ نسائی تاریخ کا ہدف خواتین ادیبوں، فنکاروں، فلاسفروں، وغیرہ کی دوبارہ دریافت کے ذریعے تاریخ کا نسائی نقطہ نظر تلاش کرنا اور اس کو سامنے لانا ہے، تاکہ ماضی میں خواتین کے کردار اور انتخاب کی اہمیت کی بازیافت اور اس کو اجاگر کیا جاسکے۔[1][2][3] نسائی تاریخ، ایک تنقیدی نسائی نظر ڈالتے ہوئے، تاریخی تجزیے کے تمام پہلوؤں میں صنف کو شامل کرنے کے لیے تاریخ کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جِل میتھیوز بیان کرتا ہے، اس تبدیلی کا مقصد سیاسی ہے: تاریخی نظم و ضبط کے ان طریقوں کو چیلنج کرنا جس نے خواتین کو زدوکوب کیا اور مظلوم بنایا اور ایسا طرز عمل تشکیل دینا جس سے خواتین کو خود مختاری اور خود تعریف طے کرنے کی اجازت دینا شامل ہے۔

نسائی تاریخ دو خاص مسائل جن کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ ہیں؛ خواتین کو تاریخی اور فلسفیانہ روایت سے باہر رکھتے ہوئے ان میں نسائی یا خواتین کی منفی خصوصیات کا موجود ہونا؛ البتہ، حقوق نسواں کی تاریخ کا تعلق صرف صنف کے معاملات سے ہی نہیں، بلکہ تاریخ کو ایک اور جامع اور متوازن انداز میں سمجھنے سے ہے۔[4]

اوجھل ہونے جانے والی عورت نسائی تعلیمی تحقیق کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ خواتین کی تاریخ اور ادب پر کی جانے والی تحقیق سے نظر انداز شدہ ثقافت کا ایک بہت بڑا ورثہ ملتا ہے۔[5][6]

تاریخ نگاری

ترمیم

نسائی تاریخ نگاری، نسائی تاریخ کا ایک اور قابل ذکر پہلو ہے۔ ایک اہم نسائی ماہر تاریخ نگاری مصنف اور محقق جوڈتھ ایم بینیٹ ہیں۔ ان کی کتاب میں، تاریخ کے معاملات: پدر شاہی اور نسائیت کا چیلنج (History Matters: Patriarchy and the Challenge of Feminism)، بینیٹ تحقیق کی اہمیت پر لکھتے ہیں، بینیٹ ایک "پدرشاہی (قوت) سے توازن (اثر کی یکسانی)" (patriarchal equilibrium) کے مطالعہ کی اہمیت پر لکھتے ہیں۔[7] شیرل گلن نسائی تاریخ نگاری کی اہمیت پر بھی لکھتی ہیں، فصاحت و بلاغت کی تاریخ میں خواتین (یا روایتی طور پر کوئی بھی گروہ جو کو بنیادی حقوق سے دور رکھا گيا) کو تحریر کرنا، تب، اخلاقی اور فکری طور پر ذمہ دار کا اظہار ہو سکتا ہے جو خاموشی توڑنے کے لیے ان اوجھل یاداشتوں کو متاثر کرتا ہے، غیر موجد کو چیلنج کرتا ہے اور عوامی زندگی میں خواتین کے تعاون پر زور دیتا ہے۔[8] نسائی تاریخ کا یہ پہلو ان تاریخی تحریروں کا معائنہ کرتا ہے جنھیں عام طور پر معیاری سمجھا جاتا ہے اور انھیں ایک نسائی حقوق کی نظر کے تحت نئی شکل دیتا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Cain, William E.، ed. Making Feminist History: The Literary Scholarship of Sandra M. Gilbert and Susan Gubar (Garland Publications, 1994)
  2. Laslitt, Barbara, Ruth-Ellen B. Joeres, Mary Jo Maynes, Evelyn Brooks Higginbotham, and Jeanne Barker-Nunn, ed. History and Theory: Feminist Research, Debates, Contestations (University of Chicago Press, 1997)
  3. Lerner, Gerda, The Majority Finds Its Past: Placing Women in History (Oxford University Press, 1981)
  4. "Pedersen, Susan. "The Future of Feminist History""۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اکتوبر 2014 
  5. Spender, Dale. Invisible woman: The schooling scandal. Writers & Readers. London 1982
  6. Spender, Dale. Women of ideas – and what men have done to them from Aphra Behn to Adrienne Rich. Routledge & Kegan Paul. London 1982
  7. Judith Bennett (2009)۔ History Matters: Patriarchy and the Challenge of Feminism 
  8. Cheryl Glenn (2000)۔ "Truth, Lies, and Method: Revisiting Feminist Historiography"۔ College English۔ 62 (3): 387–389۔ JSTOR 378937۔ doi:10.2307/378937 

بیرونی روابط

ترمیم