نظریۂ ارتقا

متواتر نسلوں کے دوران حیاتیاتی آبادی کی وراثتی خصوصیات میں تبدیلی

ارتقا (evolution) سے مراد علم حیاتیات میں ایک ایسے نظریے سے لی جاتی ہے جس کے تحت تمام جاندار اجسام، ماضی میں رہنے والے کسی ایک ہی جدِ امجد یا مورث (ancestor) کی ترمیم شدہ اشکال ہیں۔[1] ان ترامیم سے بنیادی طور پر مراد وراثی مادے میں ہونے والی ترامیم کی لی جاتی ہے؛ یعنی وراثوں میں ہونے والی ایسی تبدیلیاں کہ جو ایک جاندار کی گذشتہ سے اگلی نسل کے درمیان واقع ہوں۔ چونکہ وراثے ہی لحمیات تیار کرتے ہیں جو کسی بھی جاندار کی طرزظاہری (phenotype) پر براہ راست اثر پیدا کرنے والے سالمات ہیں۔ گو چند نسلوں کے مابین، وراثی مادے میں ہونے والی یہ ترامیم بہت ہی قلیل اور ناقابلِ شناخت ہوتی ہیں لیکن ارتقا کے نظریات دانوں کے مطابق یہ ترامیم عرصۂ دراز گذرجانے پر مجتمع ہوکر طرز ظاہری پر نمایاں اثر پیدا کرتی ہیں اور جاندار کی جسمانی ساخت تبدیل کر کہ نئی انواع وجود میں لانے کا سبب بن سکتی ہیں اور یہ عمل جس میں نئی انواع نمودار ہوتی ہیں انتواع (speciation) کہلاتا ہے۔ ارتقا دانوں کے نزدیک نامیات (organisms) کے مابین پائی جانے والی ساختی مماثلت اس بات کی توثیق ہے کہ تمام انواع (یعنی تمام اقسام کے موجودہ جاندار) ایک نسبِ مشترک (common descent) سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ابتدائی سطور میں آیا کہ جد امجد سے شروع ہوکر نسل در نسل منتقل ہونے والی ان تبدیلیوں میں اہم کردار وراثی مادے یعنی genes کی ترامیم کا سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے اس نسبِ مشترک کے تصور کو تالابِ وراثہ (gene pool) کی اصطلاح سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے[2]

انسانی ارتقا.

لوئی ہیتھ لیبر (Louise Heath Leber) نے کہا ہے کہ ارتقا کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ گھر کا سب سے بڑا کمرہ ہے:

There's always room for improvement. It's the biggest room in the house

یہ بھی پڑھیں

ترمیم

نظریہ ارتقا کے مخالف سائنسدان

حوالہ جات

ترمیم
  1. Icons of evolution By Jonathan Wells ISBN 0-89526-200-2 ایک آن لائن کتب فروش پر
  2. Futuyma, Douglas J. (2005). Evolution. Sunderland, Massachusetts: Sinauer Associates, Inc. ISBN 0-87893-187-2
*