نظم معرا جسے غیر مقفی نظم، بلا قافیہ نظم یا بلینک ورس بھی کہا جاتا ہے، اس شاعری کو کہتے ہیں جس میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یورپ اور بالخصوص انگریزی شاعری میں اس کا رواج رہا ہے۔ ابتدا میں اردو میں اس طرز شاعری کو غلط سمجھا گیا لیکن بعد میں اس کا چلن عام ہو گیا۔

اردو میں نظم معرا ترمیم

اردو میں نظم معرا کی روایت انگریزی شاعری سے منتقل ہوئی، شروع میں اسے "غیر مقفی نظم" کہا جاتا تھا لیکن بعد میں عبد الحلیم شرر نے مولوی عبد الحق کے مشورے سے "نظم معرا" کی اصطلاح استعمال کی جو اب مقبول ہے۔ انگریزی شاعری میں نظم معرا کی جو مخصوص بحر ہے اردو میں اس کی پیروی ممکن نہیں۔ اس لیے صرف قافیہ کی آزادی کو ہی قبول کیا گیا۔ اس طرح اردو میں نظم معرا ایسی شعری صنف ہے جس میں ارکان کی تعداد برابر ہوتی ہے یعنی نظم کے تمام مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے لیکن قافیہ و ردیف کی پابندی نہیں ہوتی۔[1]

محمد حسین آزاد کی "جغرافیہ طبعی کی پہیلی" سے نظم معرا کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

ہنگامہ ہستی کو
گر غور سے دیکھو تم
ہر خشک و تر عالم
صنعت کے تلاطم میں
جو خاک کا زرّہ ہے
یا پانی کا قطرہ ہے
حکمت کا مرقع ہے
جس پر قلمِ قدرت
انداز سے ہے جاری
اور کرتا ہے گلکاری
ایک رنگ کے آتا ہے
سو رنگ دکھاتا ہے

مغرب میں نظم معرا ترمیم

بیشتر مغربی ناقدین سنجیدہ موضوعات کے لیے مقفی شاعری کی بجائے معرا نظم کو بہتر سمجھتے ہیں۔ نیز مغربی شعرا کی بڑی تعداد نے اپنی شاہکار نظموں کے لیے معرا شاعری ہی کو پسند کیا۔ ولیم شیکسپیئر نے شروع میں جو ڈرامے لکھے ان میں مقفی شاعری کی پابندی کی لیکن اپنے شاہکار ڈراموں مثلاً ہیملٹ میں اس نے معرا شاعری کو ترجیح دی ہے۔ جان ملٹن نے اپنی شاہکار نظم "فردوس گم شدہ" کو معرا نظم میں ڈھالا، اسی طرح ولیم ورڈزورتھ نے بھی اپنی نظموں میں اسی کی پابندی کی۔ جان کیٹس نے ابتدا میں مقفی شاعری کی پیروی کی لیکن بعد ازاں معرا شاعری ہی کو اختیار کیا۔ نیز انگریزی ادب کی طویل ترین نظمیں مثلاً ایڈون اتھرسٹون کی "نینوا کا زوال" یا جان فشیٹ کی "شاہ الفرڈ" معرا نظم میں لکھی گئی ہیں۔ موخر الذکر نظم ایک لاکھ تیس ہزار سطروں پر مشتمل ہے۔[2]

مزید دیکھیے ترمیم

پابند نظم

حوالہ جات ترمیم