نووا سکوشیا (Nova Scotia)، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو کینیڈا کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اٹلانٹک کینیڈا کا یہ سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا صوبہ ہے۔ اس کا دار الخلافہ ہیلی فیکس ہے جو علاقے کا اہم معاشی مرکز ہے۔ نووا سکوشیا کینیڈا کا دوسرے نمبر پر سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ اس کا کل رقبہ 55287 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی کل آبادی 935962 افراد ہے۔ یہ کینیڈا کا چوتھا کم آبادی والااور دوسرا گنجان ترین آباد صوبہ بھی ہے۔ نووا سکوشیا کی معیشت کا انحصار قدرتی ذرائع پر ہے تاہم بیسویں صدی کے دوران اس میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ ماہی گیری، کان کنی، جنگلات اور زراعت آج بھی اہم ہیں تاہم سیاحت، ٹیکنالوجی، فلم، موسیقی اور فنانس جیسے شعبے بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

نووا سکوشیا

صوبے میں میکماق قوم کے کئی علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ قوم سارے میری ٹائم صوبوں، مین، نیو فاؤنڈ لینڈ اور گاسپی جزیرہ نما پر قابض تھی۔ نووا سکوشیا پر اس وقت بھی میکماق لوگ موجو د تھے جب یورپی لوگ یہاں آباد ہونے آئے۔ 1604 میں یہاں پورٹ رائل پر فلوریڈا کے شمال میں فرانسیسی کالونی قائم ہوئی جسے اب اکاڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1713 سے 1760 کے درمیان برطانیہ نے اس علاقے پر قبضہ کر لیااور ہیلی فیکس کو 1749 میں صدر مقام بنایا۔ 1867 میں نووا سکوشیا کینیڈا کے الحاق کے بانی ارکان میں سے ایک بنا۔ دیگر اراکین میں نیو برنزوک اور کینیڈا کا صوبہ شامل ہیں۔ کینیڈا کا صوبہ درحقیقت موجودہ دور کے کوبیک اور اونٹاریو پر مشتمل تھا۔

جغرافیہ

ترمیم

صوبے کی مین لینڈ نووا سکوشیا کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جس کے اطراف میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ یہاں بے شمار خلیجیں بھی موجود ہیں۔ نووا سکوشیا میں کسی بھی جگہ سمندر 67 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں۔ کیپ بریٹن آئی لینڈ جو نوواسکوشیا کی مین لینڈ سے شمال مشرق میں ہے، بھی صوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح سیبل آئی لینڈ جو جہاز توڑنے کی صنعت کا مرکز ہے، صوبے کے جنوبی ساحل سے 175 کلومیٹر دور ہے۔ نووا سکوشیا رقبے کے اعتبار سے کینیڈا کا دوسرا چھوٹا صوبہ ہے۔ نووا سکوشیا کو کینیڈا کا انتہائی جنوبی صوبہ بھی کہتے ہیں۔

موسم

ترمیم

نووا سکوشیا معتدل آب و ہوا والی جگہ پر موجود ہے۔ چونکہ صوبہ تقریباً ہر طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے،اس کا موسم میری ٹائم بجائے کانٹی نینٹل ہے۔ کانٹی نینٹل آب و ہوا میں درجہ حرارت کی شدت کو سمندر معتدل بناتا رہتا ہے۔

نووا سکوشیا کے موسم پر سمندر کا گہرا اثر ہے اور صوبے میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر بھی سمندر کی شکل بنی ہوئی ہے۔ یہاں موسم سرما نسبتاً سرد اور گرمیاں گرم تر ہوتی ہیں۔ صوبے کے اطراف یعنی شمال میں سینٹ لارنس کی خلیج، مغرب میں خلیج فنڈی اور جنوب اور مشرق میں بحر اوقیانوس ہیں۔

جنوب میں 140 سینٹی میٹر اور دیگر حصوں میں سالانہ بارش 100 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ نووا سکوشیا میں دھند بھی کثرت سے پڑتی ہے اور دار الخلافہ ہیلی فیکس میں سالانہ 196 دن اور یار ماؤتھ میں سالانہ 191 دن دھند کی نظر ہوتے ہیں۔

سالانہ اوسط درجہ حرارت کچھ ایسے ہوتے ہیں

  • بہار، 1 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ
  • گرما، 14 سے 39 ڈگری سینٹی گریڈ
  • خزاں، 5 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ
  • سرما، منفی 21 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ

نووا سکوشیا پر سمندر کے اثر کی وجہ سے یہ صوبہ کینیڈا کا گرم ترین صوبہ ہے۔ نووا سکوشیا میں زیادہ شدید درجہ حرارت نہ ہونے، تاخیر سے اور لمبی گرمیاں، اکثر ابر آلود موسم، سمندری دھند اور روز بروز بدلتا موسم کا موسم بہت بدلتا رہتا ہے۔ نووا سکوشیا کے موسم کی درج ذیل چار وجوہات ہو سکتی ہیں

  • مغربی ہواؤں کا اثر
  • تین مختلف ہوائی نظاموں کا ملاپ جو مشرقی ساحل پر ہوتا ہے
  • نووا سکوشیا کا محل وقوع جو مشرق کی طرف چلنے والی ہواؤں کے راستے میں ہے
  • سمندر کا اثر

چونکہ نووا سکوشیا بحر اوقیانوس کے بالکل ساتھ ہی ہے اس لیے یہاں استوائی طوفان اور ہری کین گرمیوں اور خزاں میں آتے رہتے ہیں۔ 1871 سے اب تک یہاں تقریباً ہر چار سال میں ایک طوفان ضرور آیا ہے۔ آخری بار یہاں درجہ دو کا طوفان ہری کین جوان ستمبر 2003 میں آیا تھا۔ آخری استوائی طوفان نوئل 2007 میں آیا تھا۔

تاریخ

ترمیم

تقریباً 11 ہزار سال قبل پیلو انڈین لوگوں نے موجودہ دور کی نووا سکوشیا کے علاقے میں سکونت اختیار کی۔ آرچیاک انڈین لوگ یہاں ایک ہزار سے 5 ہزار سال قبل تک آبا د رہے۔ میکماق جو یہاں اس صوبے اور پورے ملک کے آبائی قبائل ہیں، ان لوگوں کے براہ راست وارث ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وائی کنگ بحری قزاق یہاں کچھ عرصہ آباد رہے تاہم اس بارے کم ہی ثبوت ملتے ہیں۔ اس بارے تاریخ دان بھی متفق نہیں۔ شمالی امریکا میں وائی کنگ لوگوں کی مصدقہ آبادی صرف لانس آوکس کے سبزہ زاروں میں تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وائی کنگ لوگ اس جگہ کو کرسٹوفر کولمبس سے بھی 500 سال قبل دریافت کر چکے تھے۔

1497 میں اطالوی مہم جو جان کابوٹ یہاں موجودہ دور کے کیپ بریٹن کا چکر لگا چکا تھا تاہم اس کے لنگر انداز ہونے کی جگہ کے بارے کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ نووا سکوشیا میں پہلی یورپی آبادی 1604 میں قائم ہوئی۔ اسی سال فرانسیسیوں نے پیرے ڈگوا سیور ڈی مونٹس کی قیادت میں اکاڈیا کا پہلا دار الخلافہ پورٹ رائل پر بنایا۔ یہ جگہ اناپولس بیسن کے منبع پر ہے۔ فرانسیسی مچھیروں نے کانسو میں اسی سال اپنی آبادی قائم کی۔ 1620 میں پلائی ماؤتھ کونسل فار نیو انگلینڈ نے کنگ جیمز اول برائے انگلینڈ اور ششم آف سکاٹس نے یہ اعلا ن کیا کہ اکاڈیا کا سارا ساحل اور بحر اوقیانوس کی کالونیاں جو چیساپیک بے کے جنوب میں تھیں، سب کی سب نیو انگلینڈ ہیں۔ سکاٹش لوگوں کی پہلی آبادی کا تحریری ثبوت یہ بتاتا ہے کہ یہ لوگ یہاں 1621 میں براعظم شمالی امریکا میں آباد ہوئے۔ 29 ستمبر 1621 کو کالونی کا چارٹر آف فاؤنڈیشن جیمز چہارم نے ویلم الیگزینڈر جو پہلے ارل آف سٹرلنگ تھے، کو پیش کیا۔ 1622 میں اولین آبادکار سکاٹ لینڈ سے روانہ ہوئے۔ ہنر مند افراد کی کمی کے باعث یہ آبادکاری ناکام ہو گئی اور 1624 میں جیمز چہارم نے ایک اور نیا اعلان جاری کیا۔ اس اعلان کی منظوری کے لیے ولیم الیگزیندر کی خدمت میں یا تو چھ پوری طرح سے مسلح اور تندرست و توانا مزدور پیش کیے جاتے یا پھر تین سو مرک کی ادائیگی کافی رہتی۔ چھ ماہ تک کسی نے بھی جیمز کی پیش کش کو قبول نہیں کیا حتٰی کہ جیمز کو خود سے لوگوں کو جانے پر مجبور کرنا پڑا۔

1627 میں لوگوں کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور زیادہ لوگ نووا سکوشیا جانے کے لیے تیار ہونے لگے۔ تاہم 1627 میں فرانس اور انگلینڈ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ فرانسیسیوں نے دوبارہ سے پورٹ رائل پر اپنی آبادی دوبارہ قائم کی۔ بعد ازاں اسی سال سکاٹش اور انگریز فوج نے اکٹھا ہو کر فرانسیسی آبادی کو تہس نہس کر دیا اور انھیں نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ 1629 میں پورٹ رائل پر پہلی سکاٹش آبادی قائم ہوئی۔ کالونی کے چارٹر نے قانونی طور پر نووا سکوشیا کو سکاٹ لینڈ کے مین لینڈ کا حصہ قرار دیا۔ تاہم 1631 میں کنگ چارلس اول کے ماتحت سوزا کی ٹریٹی ہوئی جس نے نووا سکوشیا کو واپس فرانس کے حوالے کر دیا۔ سکاٹش لوگوں کو چارلس نے کالونی مستحکم ہونے سے قبل ہی اسے خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ فرانسیسیوں نے میکماق اور دیگر قبائل کے علاقوں کا قبضہ سنبھال لیا۔

1654 میں کنگ لوئز چودہ آف فرانس نے نواب کولس ڈینی کو اکاڈیا کا گورنر مقرر کر کے اسے تمام ضبط شدہ زمینیں اور وہاں موجود معدنیات کے حقوق بھی دے دیے۔ کنگ ولیم کی جنگ کے دوران برطانویوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا لیکن برطانیہ نے جنگ کے اختتام پر ریسوک کی ٹریٹی کے تحت یہ علاقہ دوبارہ فرانس کے حوالے کر دیا۔ ملکہ این کی جنگ کے دوران یہ علاقہ برطانیہ کی وفادار فوج کے قبضے میں لے لیا اور اس پر اٹرچٹ کی 1713 کی ٹریٹی کے تحت قبضہ برقرار رکھا۔ فرانس نے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ اور کیپ برٹن آئی لینڈ کا قبضہ سنبھالے رکھا اور لوئیز برگ پر قلعہ بھی بنایا تاکہ سمندر سے آنے والے کیوبک کے راستے کا نظم و نسق سنبھالا جا سکے۔ امریکی کالونی کے دستوں نے اس پر قبضہ کیا تاہم برطانیہ نے اسے پھر فرانس کے حوالے کر دیا۔ مگر 1755 کی فرنچ اینڈ انڈین جنگ کے دوران یہ علاقہ پھر اپنے قبضے میں لے لیا۔

1713 میں نووا سکوشیا کی مین لینڈ برطانوی کالونی بنی۔ اگرچہ سیموئل وچ کے اکتوبر 1710 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکا۔ برطانوی افسروں کو اکاڈیا کی آبادی کی اکثریت پر اعتراض تھا جو فرانسیسی نژاد اور رومن کیتھولک تھی۔ یہ لوگ کنگ جارج کو یا برطانوی بادشاہت کو سچے دل سے نہیں مانتے تھے۔ ہیلی فیکس کو دار الخلافہ بنائے جانے کے باوجود یہاں اکاڈین کی اکثریت باقی رہی۔ تاہم یہاں بیرونی پروٹسٹنٹ بھی لونن برگ سے 1753 میں ادھر منتقل ہوئے۔ ان نئے لوگوں کی تعداد میں کچھ فرانسیسی اور سوئس تھے تاہم جرمنوں کی اکثریت تھی۔ 1755 میں برطانیہ نے بارہ ہزار اکاڈین کو زبردستی بے دخل کر دیا۔ اس واقعے کو عظیم انخلا کہا جاتا ہے۔

اسی وقت ہی تاج برطانیہ نے اس طرح زمین تقیسم کرنا شروع کی جس سے یہاں کی تجارت کی اکثریت برطانیہ کے ساتھ ہی ہو۔ مثلاً جون 1764 میں بورڈ آف ٹریڈ نے شاہی وفاداروں کو بڑی مقدار میں زمینیں عطا کیں۔ ان میں تھامس پاونل، رچرڈ اوسوالڈ، ہمفرے براڈ سٹریٹ، جان وینٹ ورتھ، تھامس تھوروٹن اور لندن کے بیرسٹر لیوٹ بلیک بورن شامل ہیں۔ دو سال بعد 1766 میں لیوٹ بلیک بورن کے گھر ایک ملاقات میں ڈیوک آف رٹلینڈ کے مشیر، اوسوالڈ اور اس کے دوست جیمز گرانٹ جو ان کی نووا سکوشیا میں ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا تاکہ وہ برطانوی مشرقی فلوریڈا پر اپنی توجہ مرکوز کر سکیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ کالونی کی حدود بدلتی رہیں۔ نووا سکوشیا کو 1754 میں سپریم کورٹ ملی جس کے لیے جوناتھن بیلچر کو تعنیات کیا گیا۔ 1758 میں اپنی قانون ساز اسمبلی بھی دی گئی۔ 1763 میں کیپ بریٹن آئی لینڈ نووا سکوشیا کا حصہ بن گیا۔ 1769 میں سینٹ جانز آئی لینڈ جو موجودہ دور کا پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ ہے، الگ کالونی بن گیا۔ سن بری کی کاؤنٹی کو 1765 میں بنایا گیا اور اس میں موجودہ دور کی تمام نیو برنزوک اور مشرقی مین پینوبسکاٹ دریا تک بھی اس کا حصہ بنائی گئیں۔ 1784 میں کالونی کا مغربی بڑا حصہ الگ کر کے اسے نیو برنزوک کا صوبہ بنا دیا گیا۔ مین والا حصہ نئی امریکی ریاست میسا چوسٹس کو ملا۔ کیپ بریٹین کو 1784 میں الگ کالونی بنایا گیا تاکہ اسے نووا سکوشیا کو 1820 میں واپس کیا جا سکے۔

نصف سے زیادہ نوواکوشین لوگوں کے آبا و اجداد یہاں اکاڈین لوگوں کے انخلاٗ کے دوران آئے۔ 1759 سے 1768 تک 8000 کاشتکاروں نے گورنر چارلس لارنس کی یہاں آباد ہونے کی درخواست کو قبول کیا۔ کئی سال بعد امریکا کے ہاتھوں برطانیہ کی شکست کے بعد تیس ہزار ٹوری یعنی برطانوی وفادار امریکا سے ہجرت کر کے ادھر آباد ہوئے۔ ان دنوں نووا سکوشیا کینیڈا کے میری ٹائم علاقوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چودہ ہزار نیو برنزوک گئے اور سولہ ہزار موجودہ دور کی نووا سکوشیا کو اپنا نیا گھر بنانے میں لگ گئے۔ ان میں سے تین ہزار افراد سیاہ فام بھی تھے جن میں سے ایک تہائی جلد ہی 1792 میں سیرالیون چلے گئے۔ یہ لوگ فری ٹاؤن کے اصل آباد کار بن گئے۔ ان لوگوں کی روانگی کمیٹی فار ریلیف آف دی بلیک پوور کے تحت ہوئی۔ ہائی لینڈ سکاٹس جو گیلک بولتے تھے، کیپ بریٹن اور دیگر مغربی حصوں میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران ہجرت کر کے آئے۔ ان میں سے ایک ہزار افراد السٹر سکاٹ تھے جو وسطی نووا سکوشیا میں آباد ہوئے اور ہزار سے زیادہ کسان مہاجرین جو یارکشائر اور نارتھمبر لینڈ سے 1772 اور 1775 کے دوران یہاں آئے۔

نووا سکوشیا برطانوی شمالی امریکا اور برطانوی سلطنت کی پہلی نو آبادی تھی جسے خود مختار حکومت جنوری فروری 1848 میں دی گئی۔ اسے یہ درجہ جوزف ہوئے کی کوششوں سے ملا۔ 1867 میں الحاق کے حامی پریمئر چارلس ٹپر نے نووا سکوشیا اور نیو برنزوک کو کینیڈا کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

1868 کے انتخابات میں الحاق کی مخالف جماعت نے وفاقی سطح پر 19 میں سے 18 اور صوبائی سطح پر 38 میں سے 36 نشستیں جیتیں۔ سات سال تک ولیم آنند اور جوزف ہوئے نے برطانوی شاہی خاندان سے نووا سکوشیا کی کینیڈا سے علیحدگی کی لاحاصل کوششیں جاری رکھیں۔ حکومت الحاق کی سختی سے مخالفت کرتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ الحاق کا مقصد محض کینیڈا کے صوبے پر اپنا تسلط جمائے رکھنے کی برطانوی کوشش ہے:

'۔۔۔ (الحاق کی) سکیم کا مقصد بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ (نووا سکوشیا کے ) لوگوں کو خود مختار حکومت سے، ان کے حقوق سے، آزادی، خود مختاری، ان کی آمدنیوں سے ،تجارت اور ٹیکسوں کے حقوق لوٹ کر انھیں ایسی وفاقی مقننہ کے حوالے کرنا ہے جس پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہوگا اور جہاں ان کی نمائندی کرنے والا کوئی نہیں، انھیں ان کی بے انتہا ماہی گیری، ریلوں اور دیگر اثاثوں سے محروم کیا جائے گا اور وہ ایک خوش، آزاد اور خود مختار صوبے کی بجائے کینیڈا کا محض ایک صوبہ بن کر رہ جائیں گے۔'

-یہ تقریر حکومت نے تاج برطانیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔

1868 میں نووا سکوشیا کے ہاؤس آف اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں انھوں نے الحاق کی مخالفت کی۔ 1880 کی دہائی کی یہ مخالفت اب کھلم کھلا شروع ہو چکی تھی اور 1920 کی دہائی میں میری ٹائم کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی۔ کچھ علاقوں میں نووا سکوشیا کے جھنڈے ڈومینن ڈے پر سرنگوں رہے۔

آبادی

ترمیم

2001 کے کینیڈا کی مردم شماری کے تحت یہاں سب سے زیادہ تعداد سکاٹش لوگوں کی ہے جو انتیس اعشاریہ تین فیصد تھے۔ انگریز لوگ اٹھائیس اعشاریہ ایک فیصد، آئرش انیس اعشاریہ نو، فرانسیسی سولہ اعشاریہ سات، جرمن دس فیصد، ولندیزی یعنی ڈچ تین اعشاریہ نو فیصد، قدیم اقوام تین اعشاریہ دو فیصد، ویلش ایک اعشاریہ چار فیصد، اطالوی ایک اعشاریہ تین فیصد، اکاڈین ایک اعشاریہ دو فیصد تھے۔ سینتالیس اعشاریہ چار فیصد لوگوں نے خود کو کینیڈین ظاہر کیا۔

زبانیں

ترمیم

2006 کی کینیڈا کی مردم شماری کے تحت یہاں کی کل آبادی 913462 افراد تھی۔ ان میں سے 899270 افراد نے ایک زبان کو مادری کہا۔ نتائج کے مطابق انگریزی والے افراد کل تعداد کا بانوے اعشاریہ تریپن فیصد تھے۔ فرانسیسی زبان کو تین اعشاریہ باسٹھ فیصد افراد نے چنا۔ عربی، میکماق، جرمن، چینی، ولندیزی، پولش، ہسپانوی، یونانی، اطالوی، کورین اور گیلک زبانوں میں سے ہر ایک کو بولنے والے افراد کی تعداد ایک ایک فیصد سے کم تھی۔

مذہب

ترمیم

2001 کی مردم شماری کے تحت یہاں رومن کیتھولک افراد کی تعداد کل آبادی کا 37 فیصد ہے۔ یونائٹڈ چرچ آف کینیڈا کے مانے والے سولہ فیصد جبکہ اینگلیکن چرف آف کینیڈا کو تیرہ فیصد افراد مانتے ہیں۔

معیشت

ترمیم

نووا سکوشیا کی معیشت میں روایتی طور پر زیادہ تر حصہ قدرتی ذرائع کا ہے تاہم اب اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔

نووا سکوشیا میں قدرتی ذرائع بکثرت موجود ہیں۔ سکوشین شیلف میں مچھلیوں کی بے انتہا تعداد ہے۔17ویں صدی میں فرانسیسیوں کی طرف سے ترویج دیے جانے کے بعد سے ماہی گیری یہاں صوبے کی معیشت کا اہم ستون تھی۔ 20ویں صدی کے اختتام پر حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑے جانے کی بنا پر اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1992 میں کاڈ مچھلی کی تعداد میں انتہائی کمی اور شکار پر پابندی کی وجہ سے یہاں 20000 ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔

2005 میں فی کس آمدنی 31344 ڈالر سالانہ تھی جو کینیڈا کی اوسط فی کس آمدنی سے تقریباً تین ہزار ڈالر کم اور کینیڈا کے امیر ترین صوبے یعنی البرٹا سے نصف تھی۔

کان کنی یہاں کی اہم صنعت ہے اور یہاں جپسم، نمک اور بیریٹ نکلتا ہے۔ 1991 سے اب تک گہرے سمندر میں تیل اور گیس بھی معیشت کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ زراعت اب بھی صوبے کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ نووا سکوشیا کے وسط میں لمبر اور کاغذ کی صنعتیں بھی ملازمتوں کے لیے اہم ہیں۔

نووا سکوشیا کی سیاحت کی صنعت میں 6500 براہ راست اور 40000 بالواسطہ ملازمتیں ہیں۔

حکومت اور سیاست

ترمیم

نووا سکوشیا کی حکومت پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ اس کی یک ایوانی مقننہ باون اراکین پر مشتمل ہے۔ اسے نووا سکوشیا ہاؤس آف اسمبلی کہا جاتا ہے۔ کینیڈا کی سربراہ ملکہ الزبتھ دوم نووا سکوشیا کی ایگزیکٹو کونسل کی بھی سربراہ ہیں۔ یہ کونسل صوبائی حکومت کی کابینہ کا کام کرتی ہے۔ ملکہ کی ذمہ داریاں ان کی جگہ لیفٹینٹ گورنر سر انجام دیتا ہے۔ حکومت کا سربارہ پریمئر روڈنی میک ڈونلڈ ہیں جنھوں نے 22 فروری 2006 کو عہدہ سنبھالا۔ ہیلی فیکس میں مقننہ اور لیفٹینٹ گورنر کے دفاتر ہیں۔

صوبائی آمدنی کا بڑا حصہ افرادی اور تجارتی سطح پر لگائے گئے ٹیکس ہیں۔ تمباکو اور شراب پر بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اٹلانٹک لاٹری کارپوریشن میں بھی صوبے کے حصص ہیں اور تیل اور گیس کی رائلٹی سے بھی معقول آمدنی ہوتی ہے۔ 2006 اور 2007 کے مالی سال کے لیے صوبے کا بجٹ چھ اعشاریہ نو ارب ڈالر تھا جس میں اندازہً سات کروڑ بیس لاکھ کی رقم اخراجات سے زیادہ تھی۔ وفاق سے ملنے والی آمدنی ایک ارب اڑتیس کروڑ پچاسی لاکھ ڈالر ہے جو صوبائی آمدنی کا بیس فیصد ہے۔ اگرچہ کئی سالوں سے نووا سکوشیا کا بجٹ مناسب ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ سے کل بجٹ کا خسارہ یا قرضہ جات اب بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ نتیجتاً کل آمدنی کا بارہ فیصد حصہ ان قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ صوبے کو وفاقی جی ایس ٹی میں سے ایچ ایس ٹی کا حصہ ملتا ہے۔

نووا سکوشیا میں تین بار ایسی حکومتیں بنی ہیں جو دیگر پارٹیوں کی حمایت سے اکثریت حاصل کرسکی تھیں۔ اس کی وجہ نووا سکوشیا میں انتخابی حلقوں کی کچھ اس طرح سے تقسیم ہے کہ کسی ایک جماعت کے لیے اکثریت حاصل کرنا کافی مشکل ہے۔ نووا سکوشیا مین لینڈ کے دیہات پروگریسو کنزرویٹو جبکہ ہیلی فیکس کی میونسپلٹی کی تمام تر حمایت نیو ڈیمو کریٹس کے پاس ہے۔ کیپ بریٹن زیادہ تر لبرل کو ووٹ دیتاہے تاہم چند یاک پروگریسو کنزرویٹو اور نیو ڈیمو کریٹ بھی چنے جا سکتے ہیں۔ اس طرح تین مختلف جماعتوں کو تقریباً یکساں ووٹ ملتے ہیں۔

پچھلے انتخابات 13 جون 2006 کو ہوئے تھے جن میں پروگریسو کنزرویٹو کو 23، نیو ڈیمو کریٹ کو 20 اور لبرل کو 9 نشستیں ملیں۔

نووا سکوشیا میں اب کوئی بھی ان کارپوریٹڈ شہر نہیں، انھیں 1996 میں ریجنل میونسپلٹی بنا دیا گیا ہے۔ ہیلی فیکس جو صوبائی دار الخلافہ ہے، اب ہیلی فیکس ریجنل میونسپلٹی بن گیا ہے اسی طرح صوبے کا دوسرا بڑا شہر ڈار ماؤتھ ہے۔ سڈنی کا پرانا شہر اب کیپ بریٹن ریجنل میونسپلٹی کا حصہ ہے۔

2004 میں ہاؤس آف اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری دی تاکہ ٹرکس اینڈ کایکوس کے کیریبئن جزائر اگر کینیڈا سے الحاق کرنے کے خواہش مند ہوں تو انھیں قبول کیا جا سکے۔

تعلیم

ترمیم

وزیر تعلیم صوبے میں تعلیم کی فراہمی کا ذمہ دار ہوتا ہے جیسا کہ تعلیمی ایکٹ اور اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ اسکولوں سے متعلق ایکٹوں میں بیان کیا گیا ہے۔ وزیر اور محکمہ تعلیم کے اختیارات کو گورنر ان کونسل ریگولیشن کے تحت کنٹرول کیے جاتے ہیں۔

نووا سکوشیا میں بچوں کے لیے 450 سے زائد اسکول ہیں۔ پبلک اسکول بارہویں جماعت تک تعلیم دیتے ہیں۔ صوبے میں کچھ پرائیوٹ اسکول بھی ہیں۔ تعلیم عامہ سات علاقائی ریجنل اسکول مہیا کرتے ہیں جو انگریزی اور فرانسیسی میں تعلیم کے ذمہ دار ہیں۔ نووا سکوشیا کمیونٹی کالج کے صوبے میں تیرہ کیمپس ہیں۔ کمیونٹی کالج تربیت اور تعلیم پر زور دیتا ہے اور اسے 1988 میں صوبے کے دیگر ووکیشنل اسکولوں کو اس میں ضم کر کے بنایا گیا۔ صوبے میں بارہ یونیورسٹیاں اور کالج ہیں جنمیں ڈلہوزی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کنگز کالج، سینٹ میری یونیورسٹی ہیلی فیکس، ماؤنٹ سینٹ ونسنٹ یونیورسٹی، نووا سکوشیا کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن، اکاڈیا یونیورسٹی، یونیورسٹی سینٹ اینے، سینٹ فرانکس زایور یونیورسٹی، نووا سکوشیا زرعی کالج، کیپ بریٹن یونیورسٹی اور اٹلانٹک اسکول آف تھیولوجی شامل ہیں۔