نیت
نیت نماز کا پہلا رکن ہے۔ اس کا مطلب ارادہ ہے جس میں آپ کہتے یا سوچتے ہیں کہ آپ کون سی اور کتنی رکعت کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کا مقصد شاید یہ ہے کہ انسان کو بعینہ معلوم ہو کہ ہو کیا کر رہا ہے اور اس کی توجہ نماز کی طرف مبذول ہو جائے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِءٍ مَانَوٰی اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے ليے وہ ہے، جو اس نے نیت کی۔ اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم اور دیگر محدثین نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔
- نيت دل کے پکے ارادہ کو کہتے ہيں، محض جاننا نيت نہيں، تا وقت يہ کہ ارادہ نہ ہو۔
- نیت میں زبان کا اعتبار نہیں، یعنی اگر دل میں مثلاً ظہر کا قصد کیا اور زبان سے لفظ عصر نکلا، ظہر کی نماز ہو گئی۔
- نیت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اگر اس وقت کوئی پوچھے، کون سی نماز پڑھتا ہے؟ تو فوراً بلا تأمل بتا دے، اگر حالت ایسی ہے کہ سوچ کر بتائے گا، تو نماز نہ ہوگی۔
- نماز پڑھتے وقت زبان سے نیت کی ادائيگي بدعت ہے چاہے وہ نماز تراویح ہویا کوئي اورنماز ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو اللہ اکبر کہہ کرنماز شروع کرتے اوراس سے پہلے کچھ بھی نہيں کہتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل قطعی طور پر کبھی بھی زبان سے نیت کی ادائيگي نہیں فرمائي ، اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اللہ تعالی کے لیے فلاں نماز ، اورقبلہ رخ ہوکر ، چار رکعات ، بطو امام یا پیچھے اس امام کے ، ادا کرتا ہوں اور نہ ہی کبھی یہ کہا کہ میں نماز قضاء یا ادا یا فرضي اوریا نفلی ادا کرتا ہوں ۔
یہ دس بدعات ہیں جونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ ہی منقول ہیں ، نہ تو صحیح سند کے ساتھ اور نہ ہی کسی ضعیف سند کے ساتھ ، بلکہ کسی مرسل سند میں ان الفاظ میں سے کوئي ایک لفظ بھی ثابت نہيں ۔
بلکہ نہ تو یہ کسی صحابی سے ثابت ہے اور نہ ہی تابعین کرام میں سے کسی نے اسے مستحسن قرار دیا ہے اورنہ ہی آئمہ اربعہ میں سے کسی امام نے اسے کہنے کا کہا ہے ۔
دیکھیں کتاب : زاد المعاد لابن قیم ( 1 / 201 ) /ref>