نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی

نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور کی اہم جامعہ ہے جو تعلیم کے مختلف شعبہ جات میں منفرد تعلیم کے لیے شہرت رکھتی ہے۔

نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں ایک گول میز کیس اسٹڈی پیش کشی مقابلے کا منظر

جامعہ کی نمایاں کار کردگی

ترمیم
  • ینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے طالب علم البرٹ ژانگ نے ایک ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو مریضوں کی فزیوتھراپی کرنے کے علاوہ مساج پارلر میں آنے والوں کو مشینی مساج کی سہولت بھی دے سکتا ہے۔ سنگاپور میں تیار کیا گیا یہ روبوٹ جس کا نام ’’ایکسپرٹ مینی پیولیٹیو آٹومیشن‘‘ اور مخفف ’’ایما‘‘ (EMMA) ہے، ایک عدد روبوٹ بازو پر مشتمل ہے جسے خصوصی کمپیوٹر سے مربوط کیا گیا ہے۔ ’’ایما‘‘ کو ایک ٹرالی پر رکھا جاتا ہے جب کہ اس کے روبوٹ بازو کا اگلا حصہ، فزیوتھراپی اور مساج کرنے والے خصوصی ساز و سامان سے لیس ہے۔ اس میں تھری ڈی فلم بنانے والا کیمرا بھی نصب ہے جو بستر پر لیٹے ہوئے فرد کی لمحہ بہ لمحہ پوزیشن سے کمپیوٹر کو خبردار کرتا رہتا ہے۔ بازو کے اگلے حصے میں سینسرز بھی موجود ہیں جو دباؤ میں کمی بیشی کو محسوس کرسکتے ہیں، اسے انسان کی جانب سے صرف اتنی ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح کا مساج کرنا ہے جس کے بعد باقی تمام کام یہ خود سنبھال لیتا ہے۔
  • اسی جامعہ کی تحقیق ایک جریدے میں شائع ہوئی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ شہروں میں تیزی سے ہونے والی آباد کاری کے سبب زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ زیرِ زمین پانی کے بہت زیادہ استعمال کے حوالے سے تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وجہ سے شہروں کو تیزی سے زمین کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو سمندر میں ہونے والے اضافے کے سبب پہلے ہی کم ہو رہی ہے[1] اور زمینی خطے پانی سے کافی قریب ہو رہے ہیں اور یہ مسئلہ خاص طور پر ایشیا میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔
  • ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا اور نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگاپور کے ماہرین نے مکئی کی باقیات سے ایسی ماحول دوست تھیلیاں تیار کی ہیں جو شفاف ہونے کے ساتھ پائیدار بھی ہیں اور ان میں رکھے گئے پھل اور سبزیاں ایک ہفتے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ پلاسٹک جسی دکھائی دینے والی یہ تھیلیاں استعمال کے کچھ عرصے بعد خود بخود بے ضرر مادوں میں تحلیل ہوجاتی ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب نہیں بنتیں۔ ان تھیلیوں کو ’الیکٹرو اسپننگ‘ طریقے کی مدد سے بنایا گیا اور اس کے لیے مکئی سے ایتھنول بنانے کے بعد بچ جانے والے مادے ’زین‘ کے علاوہ نشاستہ اور دوسرے قدرتی پولیمرز پر مشتمل ریشے (فائبرز) بھی استعمال کیے گئے ہیں۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم