نیپال میں سماجی تحفظ کے اقدامات ملوکیت کے دور سے ہی رائج تھے۔ حکومت نیپال معمر، معذور اور بیوہ طبقوں کے سماجی تحفظ کے لیے کئی اقدامات اٹھا چکی ہے جو نیپال کی بادشاہت کے دستور کے مطابق تھے۔[1]

2006ء کا عبوری دستور

ترمیم

2006ء کے عبوری دستور کے مطابق مملکت تعلیم، صحت، یتیموں کے سماجی تحفظ، بے سہارا عورتوں، معمر، اپاہج اور معذور اشخاص کے معاملوں میں ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو گا جس سے کہ ان کی حفاظت اور بھلائی یقینی بنائی جا سکے۔[1]

مزدور قانون میں ترمیم

ترمیم

مزدور قانون 1992ء (پہلی ترمیم) قانون 1998ء میں ملازمت اور حفاظتی خدمات کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مزدور قانون کی دفعہ 2 کی رو سے ایک تجارتی مالک پر لازم ہے کہ وہ ملازمت کا خط مہیا کرے، جب کوئی کام کرنے والا کسی ایسے عہدے میں مصروف ہے جو تیارکردہ ملازمت کی درجہ بندی کے دائرے میں آتا ہو۔ ملازمت دینے میں نیپالی شہریوں کو اولیت دی جانی چاہیے۔

  • اس قانون میں یہ شامل تھا کہ کام کرنے والا اور ملازم دائمی طور مقرر ہو سکتا ہے اگر اس کی خدمات کا ایک سال مکمل ہو گیا ہو، جس کا سبب قابلیت، اخلاص، باضابطگی، کام کے لیے محتاط رویہ اور پابندی کا ہونا ہے۔ ایک ملازمت کا خط فراہم کیا جانا چاہیے جس میں اس عہدے کا تذکرہ ہونا چاہیے جہاں ملازم برسرخدمت ہو اور خدمت گزاری کے احوال بھی مذکور ہونا چاہیے۔
  • اس قانون کی رو سے مستقل کام کرنے والوں کی خدمات منسوخ نہیں ہو سکتے اگر مناسب طریقے کا استعمل نہ کیا جا ئے۔ تاہم قانون کی رو سے کوئی بھی کام کرنے والا یا ملازم جو 55 سال مکمل کرے، ناگزیر طور پر وظیفے پر بھیجا جا سکتا ہے۔
  • کوئی بھی کام کرنے والا یا ملازم کسی بھی دن آٹھ گھنٹے سے زیادہ یا فی ہفتہ 48 گھنٹے یا زیادہ کام نہیں کرے گا اور انھیں ہر ہفتہ ایک تعطیل ضرور ملے گی۔
  • یہ ہر تجارتی مالک کی ذمے داری ہو گی کہ وہ کام کرنے والوں کو یا ملازموں کو اجرت اقل ترین اجرت طے کرنے والی کمیٹی (Minimum Remuneration Fixation Committee) کے تعین کے مطابق ادا کرے۔

بڑے پیمانے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور سماجی تحفظ کی اسکیموں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ چھوٹے پیمانے اور گھریلوں صنعتوں کے مزدور ان فوائد سے محروم ہیں۔ مگر سماجی تحفظ کے سب سے زیادہ فراہم کرنے والے عوامی شعبے کی صنعتیں ہیں۔ تاہم نقصانات کی وجہ سے زیادہ تر عوامی شعبے کی صنعتوں کو حکومت بند کر چکی ہے۔ اس کی وجہ سے صنعتی شعبوں کے کئی ملازم بے روزگار ہو چکے ہیں۔ نجی شعبے کی ایک چھوٹی سی تعداد سماجی تحفظ حاصل کر چکی ہے۔ ہمہ قومی کمپنیاں (ایم این سی) زیادہ اجرت کے ساتھ سماجی اجرت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مگر ہڑتال اور عدم حفاظتی ماحول کی وجہ سے یہ صنعتیں بھی تذبذب کا شکار ہو چکی ہیں۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ Ved Raj Acharya, "Social Security for Industrial Labour in Nepal", International Journal of Marketing Management, Vol 6, No. 2, December 2016, PP.99-105.Published by Research Science Press (India), New Delhi.