علی قلی خان والہ داغستانی (1712ء-1756ء) مغل دربار کے فارسی شاعر تھے۔ یہداغستان کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اجداد صفوی بادشاہوں کے تحت اعلیٰ منصبوں پر فائز تھے۔ ان کے والد، محمد علی خان، فوجی فرماندِہ تھے، جو والہ داغستانی کو چار سال کی عمر میں یتیم چھوڑ کر عالمِ بالا کی جانب چل پڑے۔ والہ داغستانی کی پیدائش شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانے میں اصفہان میں ہوئی تھی اور ان کی ابتدائی زندگی محمود خان افغان کے اصفہان پر قبضے (1722ء) کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی انتشارات کے درمیان گذری۔ اپنی رشتے دار منگیتر خدیجہ کی محمود خان کے غلام سے جبری شادی ہونے اور نادر شاہ کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ہندوستان آنے پر مجبور ہو گئے۔ خدیجہ کو مزید مصائب دیکھنے پڑے اور وہ والہ سے جڑنے آ رہی تھی کہ راستے میں انتقال کر گئی۔ اُس کے اس افسوس ناک انجام نے والہ کی شاعری پر گہرا اثر چھوڑا۔ جب والہ داغستانی 1734ء میںلاہور پہنچے تو یہاں ان کی ملاقات صوفی شاعر شاہ فقیراللہ عارفین اور میر غلام علی آزاد بلگرامی سے ہوئی۔ آزاد بلگرامی کا بعد میں والہ داغستانی کے صمیمی ترین دوستوں میں شمار ہوا۔ وہ بلگرامی کے ساتھ دہلی آئے، جہاں اُن کی ملاقات مغل بادشاہ محمد شاہ سے ہوئی، جس نے انھیں ظفر جنگ کے خطاب اور چار ہزاری منصب سے نوازا۔ وہ اپنی وفات تک مغل دربار سے وابستہ رہے۔ انھوں نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان کے ادبی ذوق کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہندوستان کے فارسی شعرا کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے علی حزین کی ہندوستانی فارسی شعرا پر کی گئی تنقید کی مذمت کی۔ والہ داغستانی کا دیوان 1157ھ میں مکمل ہوا تھا۔ انھوں نے لطیف غزلیں کہی ہیں، لیکن ان کی شہرت کا سبب بنیادی طور پر ان کا تذکرہ ریاض الشعراء ہے، جس میں انھوں نے حروف تہجی کی ترتیب سے 2500 شعرا کا حال درج کیا ہے اور آخر میں خاتمے کے طور پر خودنوشت سوانحِ عمری بھی لکھی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک ترکی دیوان بھی موجود ہے۔ بالآخر 1756ء میں ان کا شاہ جہاں آباد میں انتقال ہو گیا۔

حوالہ جات

ترمیم

انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا

لغت نامۂ دہخدا