محمد شاہ
محمد شاہ، المعروف محمد شاہ رنگیلا، روشن اختر، نصیر الدین شاہ، مغلیہ سلطنت کا چودھواں بادشاہ (پیدائش: 17 اگست 1702ء— وفات: 26 اپریل 1748ء)۔ محمد شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد قیادت اور سیاسی ابتری کے بحران میں طویل المدت بادشاہ گذرا ہے۔
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 17 اگست 1702ء فتح پور سیکری |
||||||
وفات | 26 اپریل 1748ء (46 سال) لال قلعہ ، دہلی |
||||||
زوجہ | قدسیہ بیگم | ||||||
اولاد | احمد شاہ بہادر ، حضرت بیگم | ||||||
والد | خجستہ اختر جہاں شاہ | ||||||
خاندان | تیموری خاندان ، مغل خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
مغل شہنشاہ (12 ) | |||||||
برسر عہدہ 27 ستمبر 1719 – 26 اپریل 1748 |
|||||||
| |||||||
دیگر معلومات | |||||||
پیشہ | خطاط | ||||||
درستی - ترمیم |
مغل حکمران | |
ظہیر الدین محمد بابر | 1526–1530 |
نصیر الدین محمد ہمایوں | 1530–1540 1555–1556 |
جلال الدین اکبر | 1556–1605 |
نورالدین جہانگیر | 1605–1627 |
شہریار مرزا (اصلی) | 1627–1628 |
شاہجہان | 1628–1658 |
اورنگزیب عالمگیر | 1658–1707 |
محمد اعظم شاہ (برائے نام) | 1707 |
بہادر شاہ اول | 1707–1712 |
جہاں دار شاہ | 1712–1713 |
فرخ سیر | 1713–1719 |
رفیع الدرجات | 1719 |
شاہجہان ثانی | 1719 |
محمد شاہ | 1719–1748 |
احمد شاہ بہادر | 1748–1754 |
عالمگیر ثانی | 1754–1759 |
شاہجہان ثالث (برائے نام) | 1759–1760 |
شاہ عالم ثانی | 1760–1806 |
[[بیدار بخت محمود شاہ بہادر] (برائے نام) | 1788 |
اکبر شاہ ثانی | 1806–1837 |
بہادر شاہ ظفر | 1837–1857 |
برطانیہ نے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ کیا |
عیش کوشی
ترمیممحمد شاہ رنگیلا نے اپنی مدتِ حکومت کا زیادہ تر وقت عیش و نشاط پرستی میں گزارا۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کا پہیا جو اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے چلنا شروع ہو چکا تھا اس کا سد باب محمد شاہ کے 27 سالہ طویل دور میں کیا جا سکتا تھا، مگر بدقسمی کہ بادشاہ کی عیش پسندی اور بے فکری کے سبب نظم و نسق کی ذمہ داری وزراء کے کاندھوں پر تھی، جن کی سیاسی چشمک نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار کر رکھا تھا۔ نظام الملک آصف جاہ نے جو ایک مخلص امیر تھا حالات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر وہ بھی مایوس ہو کر دکن واپس چلا گیا۔[1] مرہٹوں اور سکھوں کی بغاوت جسے اورنگ زیب عالمگیر نے کچل کر رکھ دیا تھا دوبارہ سر اٹھانے لگیں تھیں لیکن محمد شاہ ان سے بے خبر عیش و طرب میں وقت گزارتا رہا۔
نادر شاہ کا حملہ
ترمیمجب محمد شاہ کو نادر شاہ کے حملہ کی اطلاع ملی تو اس نے نہایت بدحواسی میں زوجہ بہادر شاہ (حضرت مہر پرور) سے مشورہ طلب کیا۔ حادثہ نادر شاہی کے معاصر مولف نے اس معمر خاتون کے جواب کو محفوظ رکھا ہے جو صحیح ترین تجزیے پر مبنی ہے، ملاحظہ ہو:
"شخصی کہ از ایام طفولیت عمر در صحبتِ زنان بسر کردہ باشد، از او در میدان نبرد چہ دلیری می تواند شد؟ و صریح می دانند کہ جمیع امرایان بنا بر بے خبری و سستی عمل شما ملک پادشاہی را متصرت شدہ، خزانہ و جواہر بے شمار جمع کردہ اند و ہیچ کس تابیع و حکم والا نیست، شما ہمیں چہار دیواری قلعہ ارک را سلطنت خود تصور فرمودہ سیر باغات وصحبت اوباش غنیمت شمردہ، از مملک محروسہ، مطلق بے خبر ہستید۔" [2]
کردار
ترمیماس کا اصل نام روشن اختر تھا‘ وہ شاہ جہاں حجستہ اختر کا بیٹا اور شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا‘سید برادران نے اسے جیل سے رہا کرایا اور 17 ستمبر 1719ء کو تخت پر بٹھا دیا‘ اس نے اپنے لیے ناصر الدین محمد شاہ کا لقب پسند کیا لیکن تاریخ نے اسے محمد شاہ رنگیلا کا نام دے دیا‘محمد شاہ رنگیلا ایک عیش طبع غیر متوازن شخص تھا‘ چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا تھا اور رقص و سرود اور فحاشی و عریانی کا دل دادہ تھا‘ وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے خبط میں بھی مبتلا تھا‘ وہ ایک ایسا پارہ صفت انسان تھا جو اچانک کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا تھا اور جب چاہتا وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا۔ وہ اکثر دربار میں ننگا آ جاتا تھا اور درباری بھی اس کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری میں کپڑے اتار دیتے تھے‘ وہ بعض اوقات جوش اقتدارمیں دربار میں سرے عام پیشاب کر دیتا تھا اور تمام معزز وزراء‘ دلی کے شرفاء اور اس وقت کے علما اور فضلا واہ واہ کہہ کر بادشاہ سلامت کی تعریف کرتے تھے‘ وہ بیٹھے بیٹھے حکم دیتا تھا کل تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور فلاں فلاں وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھیں گے اور وزراء اور درباریوں کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ وہ دربار میں آتا تھا اور اعلان کردیتا تھا جیل میں بند تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جائے اور اتنی ہی تعداد کے برابر مزید لوگ جیل میں ڈال دیے جائیں‘ بادشاہ کے حکم پر سپاہی شہروں میں نکلتے تھے اور انھیں راستے میں جوبھی شخص ملتا تھا وہ اسے پکڑ کر جیل میں پھینک دیتے تھے‘ وہ وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا‘ وہ روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا تھا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا تھا اور اگلے ہی دن یہ وزارتیں اور یہ خلعتیں واپس لے لی جاتی تھیں‘ وہ طوائفوں کے ساتھ دربار میں آتا تھا اور ان کی ٹانگوں‘ بازوؤں اور پیٹ پر لیٹ کر کاروبار سلطنت چلاتا تھا‘ وہ قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا تھا اور اس کا حکم تھا ہندوستان کی ہر خوبصورت عورت بادشاہ کی امانت ہے اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس کی گردن مار دی جائے گی اور اس نے اپنے دور میں اپنے عزیز ترین گھوڑے کو وزیر مملکت کا سٹیٹ دے دیا اور یہ گھوڑا شاہی خلعت پہن کر وزراء کے ساتھ بیٹھتا تھا‘ محمد شاہ رنگیلا کثرت سے شراب نوشی کے باعث 26 اپریل 1748ء کو انتقال کر گیا
جنگ کرنال اور دہلی کی بربادی
ترمیم1738 میں نادر شاہ نے قندھار پر قبضہ کر کے ہوتکی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ میر وایس ہوتک نے 1709 میں صفوی سلطنت کو شکست دے کر قندھار میں ہوتکی سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1738 نادر شاہ حملہ تک قائم رہی۔ قندھار پر نادر شاہی قبضہ کے بعد افغان باغیوں کی حوالگی کے مطالبے اور اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر نادر شاہ کابل کو فتح کرتا ہوا دہلی کی جانب بڑھنا شروع ہوا۔ محمد شاہ اور نادر شاہ کے درمیان میں جنگ 1739ء میں کرنال کے مقام پر ہوئی جو دلی کے شمال میں تقریباً 110 کلومیٹر پر واقع ہے۔ محمد شاہ کی 100،000 سے زائد فوج نادر شاہ کی 55000 فوج کا مقابلہ نہ کر سکی۔ ایک بات جو اہم تھی وہ یہ کہ نادر شاہ کی فوج جدید توپوں، بندوقوں اور زمبورک (ایک طرح کی کم وزن توپ جسے اونٹوں پر لگا کر داغا جا سکتا ہے) سے لیس تھی جو کم وزن اور آسانی سے منتقل و نسب کی جا سکتی تھیں۔ جبکہ محمد شاہ کی فوج کے ہتیار بھاری بھرکم اور پرانی طرز کے تھے جن کی کثرت نادر شاہ کی چست اور منظم فوجی اقدام کے مقابل بے سود ثابت ہوئی۔ بھاری بھرکم ہتیار اور غیر منظم فوج اگر کثیر ہو تو وہ چست اور متحرک فوج کا آسانی سے نشانہ بن جاتی ہے۔ جنگ کرنال میں بھی یہی ہوا اور محمد شاہ کو اس کی ناتجربہ کاری اور کمزور جنگی حکمت عملی کے سبب شکت فاش ہوئی۔ محمد شاہ گرفتا ہو کر نادر شاہ کے ساتھ دلی میں داخل ہوا، اب مغل خزانوں کی چابی نادر شاہ کے ہاتھ تھی۔ اہلیان شہر کی بغاوت اور نادری فوجیوں کے قتل کے واقع پر نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا اور دلی میں لوٹ مار اور غارت گری شروع ہوئی۔ نادر شاہ جب دلی سے لوٹا تو اس کے ہمراہ بیش بہا دولت تھی، دریائے نور، کوہِ نور، تختِ طاؤس ہزاروں ہاتھی اور جنگی گھوڑے اور جواہرات اس میں شامل تھے۔ جو مال و جواہر اس کے ہاتھ لگا اس کی قیمت کروڑوں کے قریب بتائی جاتی ہے، اس کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نادر شاہ نے اپنی سلطنت میں 3 سال تک ٹیکس وصول نہ کیا۔ نادر شاہ کے ہاتھوں مغل سلطنت کو شکست کے بعد پھر سنبھلنے کا موقع نہیں ملا، بتدریج حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔
افسوس کہ سلطنت مغلیہ کے جانشین اس قدر نا اہل اور کند ذہن ہو چکے تھے کہ اس شکست سے زرا بھی سبق نہ سیکھا چہ جائیکہ ملک کا نظم و نسق سنبھالتے۔ نیز یہ کہ مغل امرا کی سیاسی کشمکش نے بھی سلطنت کو خاصہ نقصان پہنچایا، ان کی ذاتی مفاد و خود غرضی پر مبنی گروہبندیوں نے رہی سہی کسر بھی نہ چھوڑی لحٰذا بادشاہوں کی کم عقلی اور بے خبری کا فائدہ رزیل اور کم ظرف لوگ شاہی دربار میں مصائب و امرا کی جگہ پاتے رہے اور مخلص اور قابل امرا بے اثر ہوتے چلے گئے۔
وارد تہرانی نے لکھا ہے کہ محمد شاہ اپنے ستائیس سالوں میں سوائے سیر و شکار کے دہلی سے باہر نہیں نکلا۔[3] اورنگ زیب نے جن خلاف شریعت رسوم کو ختم کر دیا تھا ان بے پروا بادشاہوں کے دور میں پھر شروع ہو گئی تھیں۔
حوالہ جات
ترمیمماقبل | مغل شہنشاہ 1719–1748 |
مابعد |