وحشی بن حرب
وحشی بن حرب صحابی غزوہ احد میں رسول اللہ کے چچا حمزہ بن عبد المطلب کو شہید کیا۔
وحشی بن حرب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 7ویں صدی جزیرہ نما عرب |
وفات | 660ء کی دہائی جزیرہ نما عرب |
شہریت | خلافت راشدہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | جنگجو |
شعبۂ عمل | نیزہ بازی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد ، فتنۂ ارتداد کی جنگیں |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیموحشی نام ،ابو وہمہ کنیت، نسلاً حبشی اور جبیر بن مطعم کے غلام تھے۔
حمزہ کا قتل
ترمیمجنگِ بدر میں حمزہ نے جبیر بن مطعم کے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا، اس لیے جبیر کو اس کے انتقام کی بڑی فکر تھی،جب احد کی تیاریاں شروع ہوئیں تو جبیر نے وحشی سے کہا کہ اگر تم چچا کے انتقام میں حمزہ کو قتل کردو تو تم آزاد ہو،آزادی کا نام سنکر وحشی فوراً تیار ہو گیا، میدان جنگ میں جب صف آرائی ہوئی اور مشرکین کی طرف سے "سباع" نے مبارز طلبی کی تو حمزہ اس کے مقابلہ کو نکلے اورایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا،وحشی ایک چٹان کی آڑ میں گھات میں بیٹھا ہوا تھا، جیسے ہی حمزہ"سباع" کو قتل کرکے ادھر سے گذرے اس نے نیزہ سے ایسا وار کیا کہ نیزہ ناف کے پار اتر گیا اور حمزہ اسی جگہ شہید ہو گئے۔[1]
اسلام
ترمیمآنحضرتﷺ کو چچا کی شہادت کا بڑا قلق تھا، اس لیے وحشی اشتہاری مجرم ہو گیا اورجب مکہ فتح ہو گیا تو اس نے طائف میں پناہ لی،جب طائف کا وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں جانے لگا تو لوگوں نے وحشی سے کہا تم بھی وفد کے ساتھ چلے جاؤ،کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سفراء کے ساتھ بُرا برتاؤ نہیں کرتے، لوگوں کے کہنے سے وحشی ساتھ ہو گیااور مدینہ پہنچ کر دفعۃً کلمہ پڑھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے سامنے آگیا۔[2] حمزہ رسول اللہ ﷺ کے بڑے محبوب چچا تھے، آپ پر ان کی شہادت کا نہایت شدید اثر تھا،لیکن وحشی اولاً سفیر کی حیثیت سے اورپھر مسلمان ہوکر آئے تھے، اس لیے ان کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں ہو سکتا تھا، تاہم آپ نے ان کے چہرہ پر نظر ڈالنا گوارا نہ کیا وحشی سے پوچھا تم ہی نے حمزہ کو شہید کیا تھا، انہو ں نے محجوب ہو کر عرض کیا آپ نے جو سنا ہے صحیح ہے، آپ نے فرمایا اگر ہو سکے تو تم اپنا چہرہ مجھے نہ دکھلاؤ وحشی تعمیل ارشاد میں فوراً ہٹ گئے۔[1]
حسن تلافی
ترمیمحمزہ کی شہادت کا جرم وحشی کے دل پر ایسا زخم تھا جو انھیں چین لینے نہیں دیتا تھا اور وہ قبولِ اسلام کے بعد سے برابر اس کی تلافی کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،خوش قسمتی سے بہت جلد ان کو اس کا موقع مل گیا،آنحضرتﷺکی وفات کے بعد جب مشہور مدعیِ نبوت مسیلمہ کذاب کا فتنہ اٹھا تو وحشی نے کہا اب وقت ہے کہ میں مسیلمہ کو قتل کرکے حمزہ کے خون کا کفارہ ادا کردوں؛چنانچہ وہی نیزہ جس سے حمزہ کو شہید کیا تھا،لے کر مسیلمہ کے مقابلہ میں جانے والی مہم کے ساتھ ہو گئے [2] اور میدان جنگ میں پہنچ کر مسیلمہ کی تاک میں لگے رہے،وہ ایک دیوار کے سوراخ کے پار نظر آیا ،انھوں نے نیزہ تان کر اس کے سینہ پر ایسا وار کیا کہ نیزہ سینہ کے پار ہو گیا ،جو کچھ کمی رہ گئی اس کو ایک انصاری نے بڑھ کر پورا کر دیا <ref name="بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ" اس طرح وحشی نے اسلام کے بہت بڑے دشمن کا خاتمہ کرکے حمزہ کا خون بہا ادا کر دیا۔