وفاقی شرعی عدالت پاکستان
وفاقی شرعی عدالت پاکستان 8 (آٹھ) مسلمان منصفین پر مشتمل ہوتی ہے جس میں منصف اعظم (Chief Justice) بھی شامل ہیں۔ یہ تمام منصفین صدر پاکستان کی منظوری سے تعینات کیے جاتے ہیں جو پاکستان کی عدالت عظمٰی یا کسی بھی صوبائی عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس منصفین میں سے منتخب کیے جانے ضروری ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے موجودہ منصف اعظم جناب جسٹس ریاض احمد خان ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے 8 منصفین میں سے 3 کا علوم اسلامیہ و شریعت کا عالم ہونا ضروری ہے جن کو اسلامی قوانین و شریعت میں انتہائی درجہ کی مہارت حاصل ہو۔ اس عدالت کے تمام منصفین 3 سال کے عرصہ کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی منصف کا دور تعیناتی صدر پاکستان کی صوابدید پر بڑھایا جا سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت پاکستان اپنے طور پر، کسی بھی شہری یا حکومت پاکستان (وفاقی و صوبائی) کی درخواست پر کسی بھی قانون کو جانچنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ دائرہ اختیار اس نکتہ کی وضاحت کے لیے میسر ہے کہ کوئی بھی زیر غور یا لاگو قانون،شریعت اسلامی کے منافی تو نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف درخواست پاکستان کی عدالت عظمٰی کے ا پلیٹ بینچ کے دفتر میں دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ بینچ 3 مسلمان منصفین پر مشتمل ہوتا ہے جو عدالت عظمٰی کے حاضر سروس منصفین ہوتے ہیں اور ان 3 منصفین میں سے 2 کا اسلامی علوم و شریعت کا عالم ہونا لازمی ہے۔ ان مصنفین کی تعیناتی بھی صدر پاکستان کی منظوری سے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی لاگو یا زیر غور قانون شریعت اسلامی کے منافی قرار پایا جائے تو حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ اس قانون میں مناسب تبدیلی مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں (بالا اور زیریں) سے اسلامی شریعت کے عین مطابق منظور کروائے اور انتظامیہ ترمیم شدہ اسلامی شریعت کے عین مطابق قانون کو لاگو کرنے کی پابند ہو گی۔
اس عدالت کے دائرہ اختیار میں فوجداری مقدمات کی سماعت بھی شامل ہے جو حدود کے زمرے میں آتے ہوں۔ اس عدالت کا فیصلہ کسی بھی صوبائی عدالت عالیہ کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ حدود سے متعلق کسی بھی مقدمے کی سماعت و پیروی کے لیے یہ عدالت اپنے ملازمین متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔
1980ء میں جب یہ عدالت قائم کی گئی تھی، تب سے یہ عدالت کئی بار تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے اور کئی مواقع پر متنازع بھی رہی ہے۔ اس وقت کی فوجی حکومت میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے دعویٰ میں یہ عدالت آٹھویں ترمیم کے ذریعہ قائم کی گئی تھی۔ مخالفین کے مطابق یہ عدالت متوازی طور پر قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے جو مملکت پاکستان کی اعلٰی عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، یہاں تک کہ یہ عدالت پارلیمان کی خود مختاری پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس عدالت میں مصنفین کی تعیناتی کا طریقہ کار اور مصنفین کی مدت ملازمت بھی اکثر مخالفانہ بحث کا مرکز رہی ہے۔ تنقید کاروں کے مطابق اس عدالت کی بنیاد اور طریقہ تعیناتی کسی بھی صورت میں آزاد عدلیہ کی نشانی نہیں ہے اور اس عدالت کے تحت ہونے والے فیصلوں پر وفاق کے کلیدی عہدے دار اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں یہ عدالت وفاق کے لیے عدالت عظمٰی میں ناپسندیدہ منصفین کو بہلانے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی فیصلے جو اس عدالت کے زیر اہتمام کیے گئے، اسلامی مساوات، انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ سے اہم تھے ابھی تک تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کی تنظیمیں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں کئی مقدمات کے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھا چکی ہیں۔ فوجی حکومت میں تشکیل دی جانے والی یہ عدالت بلاشبہ کئی طرح سے متنازع رخ اختیار کر چکی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس عدالت پر کئی اعتراضات کیے گئے، اگر اس کے بنیادی ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں کی جائیں تو بلاشبہ یہ اسلامی قوانین کی پاسداری کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس طور کئی زاویوں سے عدالت کے دائرہ اختیار اور تعیناتی کے عمل کو جانچے جانے کی گنجائش موجود ہے۔
ایک مدیر کی رائے میں یہ مضمون کچھ نقطہ ہائے نظر سے غیر متوازن ہے ۔
براہِ کرم نظر انداز کردہ نقطہ نظر پر معلومات کا اضافہ کر کے مضمون کو بہتر بنائیں یا مضمون کے تبادلہ خیال صفحہ پر رائے دیں۔ |