بنو المنتفق کا وفد بارگا رسالت میں حاضر ہوا یہ عامر بن صعصعہ کی قبیلے کی شاخ ہے بنو عامر کے بانی کا نام المنتفق تھا
عاصم بن لقیط بن صبرہ، لقلیط بن صبرہ فرماتے ہیں کہ میں بنی منتفق کی طرف سے یا بنی منتفق کے وفد میں حضور اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا تھا پھر پوری حدیث بیان کی[1]
ابورزین عقیلی کا نام لقیط بن عامر ہے بعض جگہوں پر اس وفد کا نام وفد ابو رزین لقیط بن عامر العقیلی بھی تحریر ہے[2] عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اپنے ساتھی نھیک بن عاصم بن مالک کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف روانہ ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو رجب کا مہینہ ختم ہو چکا تھا اور اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تھے اس کے بعد آپ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو میں نے چار دن تک اپنی آواز تم سے مخفی رکھی اب میں تمھیں سناتا ہوں کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جسے اس کی قوم نے بھیجا ہو لوگ مجھ سے کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمارے متعلق بتاؤ کہ ہم آئے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمانے لگے کہ ہو سکتا ہے کہ اس آنے والے کو اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے وساوس و خیالات یا اس کے ساتھی یا گمراہوں کا ٹولہ شیطان غافل کر دے یاد رکھو مجھ سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا تو تم بتاؤ کہ کیا میں نے تم تک دین کی دعوت پہنچا دی ہے لوگو میری بات سنو تاکہ تم زندگی پاؤ اور بیٹھ جاؤ۔ چنانچہ لوگ بیٹھ گئے لیکن میں اور میرا ساتھی کھڑے رہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر جب ہم پر پڑی اور آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے پاس کتنا علم غیب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسکرا کر اپنا سر ہلایا اور آپ سمجھ گئے کہ میں یہ سوال ان لوگوں کی وجہ سے پوچھ رہا ہوں جن کی سوچ بہت پست ہوتی ہے اور فرمایا کہ تمھارے رب نے غیب کی پانچ کنجیاں صرف اپنے پاس ہی رکھی ہیں اور انھیں ان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یہ کہہ کر آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ پانچ چیزیں کون سی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا موت کا علم اللہ کو ہے کہ تم میں سے کون کب مرے گا لیکن تم نہیں جانتے۔ رحم مادر میں پڑنے والے قطرے کا علم اسی کے پاس ہے تم نہیں جانتے۔ آئندہ آنے والے کل کا علم اور یہ کہ کل تم کیا کھاؤ گے اسی کے پاس تم اسے نہیں جانتے۔ بارش کے دن کا علم اسی کے پاس ہے کہ جب تم عاجز اور خوف زدہ ہوجاتے ہو تو وہ تم پر بارش برساتا ہے اور ہنستا ہے اور جانتا ہے کہ تمھارا غیر قریب ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو پروردگار ہنستا ہے وہ خیر سے محروم کبھی نہیں کر سکتا۔ قیامت کا علم۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ لوگوں کو جن باتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور جو آپ کے علم میں ہیں وہ ہمیں بھی سکھا دیجیے کیونکہ ہم ان لوگوں میں سے کوئی بھی ہماری بات کو سچا سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا تعلق قبیلہ مذحج سے ہے جو ہم پر حکمران ہیں اور قبیلہ خثعم سے ہے جس کے ساتھ ہمارا موالات کا تعلق ہے اور اس قبیلے سے جس میں سے ہم ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ عرصہ تک تم اسی طرح رہو گے پھر تمھارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے پردہ فرما جائیں گے۔ پھر تم کچھ عرصہ گذارو گے پھر ایک چنگھاڑی کی آواز آئے گی جو زمین کی پشت پر کسی شخص کو جیتا نہ چھوڑے گی اور وہ فرشتے جو تیرے رب کے ساتھ ہوں گے۔ پھر تیرا پروردگار زمین پر چکر لگائے گا جبکہ شہر خالی ہو چکے ہوں گے پھر وہ عرش سے آسمانوں پر سے بارش برسائے گا اور زمین پر کسی نامقتول کی قتل گاہ اور کسی مردے کی قبر ایسی نہ رہے گی جو شق نہ ہو جائے اور ہر شخص سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا پروردگار فرمائیں گے کہ اسے اسی حالت میں روک لو جس میں وہ ہے وہ کہے گا پروردگار ماضی کا ایک دن مل جائے جب کہ وہ ایک طویل زندگی گذارچکا ہوگا اور یہی سمجھ رہا ہوگا کہ اپنے گھروالوں سے باتیں کر رہا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جب ہوائیں اور بوسیدگی اور درندے ہمیں ریزہ ریزہ کرچکے ہوں گے تو اس کے بعد پروردگار ہمیں کیونکہ جمع کرے گا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کی دوسری نعمتوں میں تمھارے ساتھ اس کی مثال بیان کرتا ہوں یہ زمین ایسی ہے جہاں تم گئے وہ بالکل بنجر اور ویران ہے تم اسے دیکھ کر کہتے ہو کہ یہ کبھی آباد نہیں ہو سکتی پھر پروردگار اس پر بارش برساتا ہے اور کچھ عرصہ بعد تمھارا دوبارہ اسی زمین پر گذر ہوتا ہے تو وہ لہلہا رہی ہوتی ہیں تمھارے معبود کی قسم وہ زمین میں نباتات کے مادے رکھنے سے زیادہ پانی سے انھیں جمع کرنے پر قدرت رکھتا ہے چنانچہ وہ اپنی قبروں سے نکل آئیں گے تم اپنے رب کو دیکھو گے اور وہ تمھیں دیکھیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم سارے زمین والے مل کر اس ایک ذات کو اور وہ ایک ذات ہم سب کو کیسے دیکھ سکے گی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کی دوسری نعمتوں میں تمھارے سامنے اس کی مثال بیان کرتا ہوں چاند اور سورج اس کی بہت چھوٹی سی علامت ہے تم آن واحد انھیں دیکھ سکتے ہو اور وہ تمھیں دیکھ سکتے ہیں تمھیں ان کو دیکھنے میں کسی قسم کی کوئی مشقت نہیں ہوتی تمھارے معبود کی قسم وہ بغیرمشقت کے تمھارے چاند وسورج کو ان کے تمھارے دیکھنے سے زیادہ اس بات پر قادر ہے کہ تم اسے اور وہ تمھیں دیکھ سکے۔ میں نے پوچھا کہ یارسول اللہ جب ہم اپنے پروردگار سے ملیں گے تو وہ ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرے گا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمھیں اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تمھارے اعمال نامے اس کے سامنے کھلے پڑے ہوں گے اور اس پر تمھاری کوئی بات مخفی نہ ہوگی پروردگار پانی کا ایک قطرہ لے کرتم پر اس کا چھینٹا مارے گا اور تم میں سے کسی شخص سے بھی اس کا قطرہ خطا نہیں جائے مسلمان کے چہرے پر تو وہ قطرہ سفید رنگ کا نشان چھوڑ جائے گا اور کافر کے چہرے پر سیاہ نقطے کا نشان بنادے گا اس کے بعد تمھارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روانہ ہوں گے ان کے پیچھے پیچھے نیک لوگ چل رہے ہوں گے اور وہ آگ کے ایک پل پر چلیں گے اور چنگاریوں کو اپنے پاؤں تلے روندیں گے پھر تم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوض پر انتہائی پیاسے آؤ گے کہ اس سے قبل میں نے اتنا پیاسا کسی کہ نہ دیکھا ہوگا تمھارے معبود کی قسم تم میں سے جو بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھائے گا اس پر پانی کا ایک پیالہ آجائے گا جو اسے پیشاب، پاخانہ اور ہرقسم کی گندگیوں سے پاک کر دے گا سورج اور چاند کو قید کر دیا جائے گا اور تم ان میں سے کسی کو نہ دیکھ سکو گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ تو پھر ہم کس کی روشنی میں دیکھیں گے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اپنی اسی بینائی کی روشنی میں جواب تمھارے پاس ہے اس وقت سورج طلوع نہیں ہوا تھا ایک ایسے دن میں جب زمین پر روشنی ہو اور پہاڑ نظر آ رہے ہوں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ہمیں نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ کس طرح دیا جائے گا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ثواب اور ایک گناہ کا اسی کے برابر وبال ہوگا الاّ یہ کہ وہ معاف فرما دے میں نے پوچھا یا رسول اللہ جنت اور جہنم کے بارے میں کچھ بتائیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جہنم کے سات دروازے ہیں اور ہر دو دروازوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ سوار ان دونوں کے درمیان ستر سال تک چلتا رہے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور ہر دو دروازوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ سوار ان دونوں کے درمیان ستر سال تک چلتا رہے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ جنت میں ہمیں کون کون سی نعمتیں ملیں گی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا خالص شہد کی نہریں، شراب کی نہریں جن سے سر درد نہ ہوگا اور نہ کوئی باعث ندامت حرکت سرزد ہوگی ایسے دودھ کی نہریں جن کا ذائقہ کبھی خراب نہ ہو اور ایسے پانی کی نہریں جو کبھی بدبودار نہ ہو وہ میوے جو تم جانتے ہو اور اس سے بھی بہتر اور پاکیزہ بیویاں میں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا وہ بیویاں جو ہمیں ملیں گی نیک ہوں گی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نیکوں کے لیے نیک بیویاں ہی ہوں گی اور تم ان سے اور وہ تم سے اسی طرح لذت حاصل کریں گی جیسے دنیا میں تم ایک دوسرے سے لذت حاصل کرتے ہو البتہ وہاں توالد کا سلسلہ نہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اس چیز کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ ہم کہاں جائیں جنت میں یا جہنم میں اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا پھر میں نے عرض کیا کہ میں کس شرط پر آپ سے بیعت کرو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دست مبارک پھیلا کر فرمایا نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے مشرکین کو دور کرنے اور اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ کرنے شرط پر میں نے عرض کیا ہمیں مشرق مغرب کے درمیان بھی کچھ حقوق حاصل ہوں گے اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور یہ خیال فرمایا کہ شاید میں کوئی ایسی شرط لگانے والا ہوں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری نہیں کرسکتے تو میں نے عرض کیا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم جہاں چاہیں جا سکتے ہیں اور ہر آدمی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہاتھ پھیلا کر فرمایا تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ تم جہاں چاہو جا سکتے ہو اور تمھارے جرم کا ذمہ دار صرف تم ہی ہو اس کے بعد لوگ واپس چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمھارے معبود کی قسم یہ دونوں آدمی دنیا اور آخرت میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے ہیں یہ سن کر بنو بکر کے ایک صاحب کعب بن خداریہ سے کہنے لگے کہ یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بنومنتفق ہیں تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ پلٹ آیا اور پوچھا یا رسول اللہ زمانہ جاہلیت میں فوت ہوجانے والوں کے لیے بھی کوئی خیر ہے اس پر قریش کا ایک آدمی کہنے لگا کہ واللہ تمھارا باپ منتفق جہنم میں ہے یہ سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے میرے والد کے متعلق سب لوگوں کے سامنے جو کہا ہے اس سے میری کھال چہرے اور گوشت میں کسی نے آگ لگا دی ہے میں نے سوچا کہ یہ کہہ دوں یا رسول اللہ آپ کے والد کہاں ہیں لیکن پھر میں نے ایک مختصر جملہ سوچ کر کہا یا رسول اللہ آپ کے اہل خانہ کہاں ہیں فرمایا میرے اہل خانہ کا بھی یہی حکم ہے واللہ تم جس مشرک عامر یا قریشی کی قبر پر جاؤ تو اسے یہ کہہ دو کہ مجھے تمھارے پاس محمد نے بھیجا ہے جو تمھیں تمھارے اس برے حال پر تمھیں خوش خبری دیتے ہیں کہ تمھیں تمھارے چہرے اور پیٹ کے بل جہنم میں گھسیٹا جا رہا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے جب کہ وہ انھیں اعمال کو نیکی گردانتے تھے اور وہ اپنے آپ کو نیکوکار ہی سمجھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ہر ساتویں امت کے آخر میں ایک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھیجا ہے جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے ان کی اطاعت کی وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 582
  2. الأغصان الندیہ شرح الخلاصۃ البہیہ بترتيب احداث السيرۃ النبویہ مؤلف: ابو اسماء محمد بن طہ ناشر: دار ابن حزم، القاهرة
  3. مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 2022