وفد بنو سعد بن بکر
وفد بنو سعد بن بکر 9ھ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔
بنو سعد بن بکر قبیلے نے ضمام بن ثعلبہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ضمام مضبوط جلد سرخ و زرد رنگ اور بالوں کی دو چوٹیوں والے شخص تھے۔ اسی وجہ سے عام طور پر اسے وفد ضمام بن ثعلبہ لکھا جاتا ہے
ضمام بن ثعلبہ بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آئے اورکہا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے لیے پیغام رساں کی حیثیت سے ہوں جو پیچھے رہ گئے ہیں، اس لیے انھیں بھی وفد میں شمار کیا گیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں ہم نے ضمام بن ثعلبہ کے وفد سے اٖفضل وفد کے بارے میں نہیں سنا[1]
انس بن مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص اونٹ پر (سوار) آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں (لا کر) بٹھلایا اور اس کے پیر باندھ دیے پھر اس نے صحابہ سے پوچھا کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ہیں! اور (اس وقت) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کے درمیان تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، تو ہم لوگوں نے کہا کہ یہ صاف رنگ کے آدمی جو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں (انہی کا نام نامی محمد ہے) پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبد المطلب کے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہو (میں موجود ہوں) اس نے آپ سے کہا کہ میں آپ سے (کچھ) پوچھنا چاہتا ہوں اور پوچھنے میں آپ پر سختی کروں گا، آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناراض نہ ہوں آپ نے فرمایا کہ جو تیری سمجھ میں آئے، پوچھ، وہ بولا کہ میں آپ کو آپ سے پہلے تمام لوگوں کے پروردگار کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیں) کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ) بتائیے کہ کیا دن رات میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مال داروں سے لیں اور اسے ہمارے فقیروں پر تقسیم کریں، تو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے، اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس (شریعت) پر ایمان لایا جو آپ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کا قاصد ہوں اور میں ضمام بن ثعلبہ ہوں (قبیلہ! سعد بن بکر کے بھائیوں میں سے )۔[2]
قبیلہ سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو اپنا سفیر بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بھیجا اور وہ مسلمان ہو گئے، پھر وہ واپس اپنی قوم کے پاس گئے، تو سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ واپس جا کر سب سے پہلا جملہ جو انھوں نے اپنی زبان سے ادا کیا، وہ یہ تھا کہ لات اور عزیٰ ( کس قدر) برے ہیں۔ لوگوں نے جب ضمام کی زبان سے یہ سنا تو کہنے لگے، اے ضمام ! ( بزرگوں کی گستاخی سے ) رک جا اور برص اور کوڑھ کی بیماریوں سے بچ اور بچ ( کہ کہیں بزرگوں کی گستاخی سے ) تو پاگل نہ ہو جائے ! یہ سن کر ضمام نے اپنی قوم سے کہا، ہلاکت ہو تمھارے لیے ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ دونوں ( مل کر بھی) نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ کچھ سنوار سکتے ہیں، (سنو!) اللہ عز و جل نے ایک رسول بھیجا ہے اور اس پر ایک کتاب اتاری ہے، جن جہالتوں اور گمراہیوں میں تم پڑے ہو، اس کتاب کے ساتھ وہ تمھیں ان سے بچاتا ہے۔[3]