وفد بنو مرہ
وفد بنو مرہ 9ھ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔
اس وفد میں بنی مرہ بن قیس کے تیرہ آدمی مدینہ آئے تھے۔ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آئے۔ ان کا سردار حارث بن عوف بھی اس وفد میں شامل تھا جو دور جاہلیت میں عظیم شہسواروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان سب لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں اسلام قبول کیا اور کہا یارسول ا للہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم بھی آپ کی قوم اور خاندان سے ہیں ہم لوگ لوی بن غالب کے خاندان سے ہیں تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبسم فرمایا وفد نے اپنے علاقے میں قحط کی شکایت اور باران رحمت کی دعا کے لیے درخواست پیش کی۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لفظوں کے ساتھ دعا مانگی کہ اَللّٰھُمَّ اسْقِھِمُ الْغَیْثَ (اے اﷲ! ان لوگوں کو بارش سے سیراب فرما دے) جب یہ واپس اپنے گھروں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی دن اور اسی وقت بارش ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی جس کا ذکرحجۃ الوداع کے موقع پر انھوں نے کیا کہ ہمارے اونٹ ریوڑ موٹے تازے ہو گئے جب سے آپ نے دعا کی ہے اور علاقہ سرسبز و شاداب ہو گیا۔[1]
پھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلال حبشی رضی اللّٰہ عنہ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر شخص کو دس دس اوقیہ چاندی اور چار چار سو درہم انعام اور تحفہ کے طور پر عطا کریں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سردار حارث بن عوف کو بارہ اوقیہ چاندی کا شاہانہ عطیہ مرحمت فرمایا۔ ان کے طلب کرنے پر دو آدمی دین سکھانے کے لیے ان کے ساتھ روانہ کیے
جب یہ لوگ مدینہ سے اپنے وطن پہنچے تو پتا چلا کہ ٹھیک اسی وقت ان کے شہروں میں بارش ہوئی تھی جس وقت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کی درخواست پر مدینہ میں بارش کے لیے دعا مانگی تھی۔[2]