وائل بن حجر الحضرمی 10ھ میں بطور وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے آکر عرض کی میں اسلام اور ہجرت کے شوق میں مسلمان ہوا ہوں آپ نے ان کے لیے دعا کی اور سر پر ہاتھ پھیرااور قوم کا سردار بنایا
وائل بن حجر جب آئے تو ندا کی گئی "الصلوۃ جامعہ"تاکہ لوگ جمع ہو جائیں
"وائل ابن حجر حضرمی ہیں۔ حضرموت کے شمار کردہ رئیسوں میں سے ہیں۔ جب یہ اپنے قبیلے کی طرف سے ایلچی بن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے اپنی چارد مبارک زمین پر بچھا دی اور ان کو اس پر بٹھایا۔ پھر انھوں نے اسلام قبول کیا۔[1] جب واپس ہونے لگے تو رسول اللہ نے ایک فرمان لکھ دیا
یہ فرمان محمد نبی کی جانب سے وائل بن حجر شاہ حضرموت کے لیے ہے کہ تم اسلام لائے جو زمینیں اور قلعے تمھارے قبضے میں ہیں وہ میں نے تمھیں دے دیے تم سے دس میں سے ایک حصہ لیا جائگا جس میں صاحب عدل غور کریگا میں نے تمھارے لیے یہ شرط کی ہے اس میں کمی نہ کرنا جب تک کہ دین قائم ہے اور نبی و مومنین اس کے مددگار ہیں۔
معاویہ بن سفیان کو حکم دیا کہ انھیں حرہ میں کسی مکان میں ٹھہرائیں وہ ان کے ساتھ پیادہ روانہ ہوئے جبکہ وہ اونٹ پر سوار تھے معاویہ نے انھیں کہا کہ اپنا جوتا مجھے دیں میں پہن لوں وہ کہنے لگے اہل یمن کو خبر نہ پہنچے کہ رعیت نے بادشاہ کا جوتا پہنا تمھارے پہننے کے بعد میں اسے نہیں پہن سکتا،انھوں نے ساتھ بیٹھنے کو کہا تو کہنے لگے تم بادشاہوں کے ہم نشینوں میں سے نہیں ہو،جب انھوں نے کہا کہ گرمی کی شدت میرے پاؤں جلاتی ہے تو کہنے لگے میرے اونٹ کے سائے میں چل سکتے ہو میں اسے آہستہ چلاتا ہوں یہی شرف تمھارے لیے کافی ہے۔ واپسی پر معاویہ نے رسول اللہ کو واقعہ بتایا تو فرمایا ان میں ابھی جاہلیت کا حصہ باقی ہے[2]

سوید بن حنظلہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے کے ارادہ سے نکلے ہمارے ساتھ وائل بن حجر بھی تھے۔ راستے میں ان کے ایک دشمن نے ان کو روک لیا پس لوگوں نے جھوٹی قسم کھانے کو برا جانا لیکن میں نے قسم کھالی کہ یہ میرے بھائی ہیں تو اس نے ان کو چھوڑ دیا۔ جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے تو میں نے سارا واقعہ آپ کے گوش گزار کیا اور عرض کیا کہ میرے ساتھیوں نے جھوٹی قسم کو برا تصور کرتے ہوئے قسم نہ کھائی لیکن میں نے قسم کھالی کہ یہ میرے بھائی ہیں (حالانکہ نسب کے لحاظ سے یہ میرے بھائی نہیں ہیں) آپ نے فرمایا تو نے سچ ہی کہا ہے کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔[3] وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس حال میں کہ میرے سر کے بال لمبے تھے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ دیوانگی ہے دیوانگی ہے۔ وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں واپس لوٹا اور اپنے لمبے بالوں کو کاٹ ڈالا۔ پھر اگلے روز میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو فرمایا کہ بیشک میں نے تمھیں ان بالوں کی وجہ سے عیب نہیں لگایا تھا۔ اور یہ بال جو اب رکھے ہوئے ہیں زیادہ اچھے ہیں۔
وائل بن حجر اسی علاقے کے قدیم شاہی خاندان کے ایک فرد تھے ان کے والد وہاں کے بادشاہ تھے۔ یہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت سن کر اپنے ملک کے ایک وفد کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لیے حضرموت سے روانہ ہوئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں ان کی آمد سے پیشتر صحابہ کو مطلع کر دیا تھا اور (وھو بقیۃ ابناء الملوک) (اور وہ شاہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں) کے ذریعے انکا تعارف کرایا تھا پھر جب وہ مدینہ پہنچے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی حیثیت کے مطابق ان کا استقبال کیا انھیں اپنے قریب بٹھایا اور ان کے لیے اپنی مبارک چادر بچھا دی اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حضرموت کے علاقہ کا حاکم مقرر فرمایا اور وہاں کی کچھ زمین انھیں بطور جاگیر عطاء فرمائی۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 761
  2. طبقات ابن سعد حصہ دوم،صفحہ ،93 محمد بن سعد ،نفیس اکیڈمی کراچی
  3. سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1487
  4. مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 217