وائل بن حجر
وائل بن حجر صحابی رسول تھے۔
وائل بن حجر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
شہریت | خلافت راشدہ |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ صفین |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیموائل بن حجر بن ربیعہ بن وائل بن یعمر حضرمی، صحابی ہیں، حضرموت، یمن کے اقیال سے تھے، ان کے والد وہاں کے بادشاہ تھے، رسول اللہ کی خدمت میں ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مدینہ آنے کی بشارت کئی دن پہلے دے چکے تھے۔ چنانچہ اپنے اصحاب سے فرمایا: "تمھارے پاس دور کا سفر کر کے حضرموت سے وائل بن حجر آئیں گے، اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر، وہ بادشاہوں کی اولاد میں سے ہیں"۔ جب وہ رسول خدا کے سامنے آئے، رسول اللہ نے ان کا استقبال کیا اور اپنے قریب کیا، پھر اپنی چادر بچھائی اور ساتھ میں اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: "اے اللہ وائل اور اس کی اولاد میں برکت دے۔"[1]
اسلام
ترمیمفتحِ مکہ کے بعد جب عرب کے مختلف گوشوں کے وفود قبولِ اسلام کے لیے جوق درجوق مدینہ آنے لگے،تو وائل بھی اپنے قبیلہ کے ساتھ مدینہ وارد ہوئے،آنحضرتﷺ نے ان کے ورود سے پیشتر صحابہ کو ان کی آمد کی اطلاع دیدی تھی، اوران کا تعارف بھی کرادیا تھا کہ وائل بن حجر جو سلاطین حضرت موت کی یاد گار ہیں،خداو رسول کے مطیع و فرمان بردار بن کر دوردراز کی مسافت طے کرکے حضرت موت سے آ رہے ہیں،جب وائل مدینہ پہنچے تو آنحضرتﷺ نے ان کے رتبہ کے مطابق ان کا استقبال کیا،اپنے قریب ردائے مبارک بچھا کر اس پر بٹھایا اوران کے اوران کی اولاد کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا وائل،ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد پر برکت نازل فرما اوران کو سردارانِ حضرت موت کا حاکم بنا۔ [2]
وفد کے قبول اسلام کی تفصیل
ترمیمرسول اللہ نے انھیں حضرموت کے اقیال کا عامل بنا دیا اور وہاں کی زمین انھیں دے دی، ان کے ساتھ معاویہ بن ابو سفیان کو بھی بھیجا اور فرمایا اسے دے دینا۔[3] اخیر عمر میں کوفہ مقیم ہو گئے تھے اور معاویہ بن ابو سفیان کے زمانہ تک زندہ رہے۔ جنگ صفین میں علی بن ابی طالب کے ساتھ تھے، اس جنگ میں حضرموت کے قبائل کی جھنڈوں کے ساتھ قیادت کر رہے تھے۔
جنگ صفین میں شرکت
ترمیمکوفہ آباد ہونے کے بعد یہاں اقامت اختیار کرلی، جنگ صفین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اورحضرموت کا علم ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔[4] امیر معاویہ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ ان کے پاس گئے،امیر نے پہچان کر نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کیا اوراپنا واقعہ یاد دلایا اورچلتے وقت نقدی سلوک کرنا چاہا، لیکن وائل نے انکار کر دیا ،ان کے انکار پر امیر معاویہ نے جاگیر پیش کی،مگر وائل نے اسے بھی قبول نہ کیا اور کہا مجھ کو اس کی ضرورت نہیں کسی دوسرے حاجت مند کو دیدینا۔ ابن کثیر نے وائل بن حجر کی آمد کا ذکر ان وفود میں کیا ہے جو رسول اللہ کے پاس سنہ 9ھ میں آئے تھے۔[5] بدر الدین عینی نے کہا کہ وائل بن حجر 9ھ کو مدینہ میں مسلمان ہوئے تھے۔[6] نماز مع رفع الیدین سیکھ کر گئے۔ اس کے بعد سردیوں میں (اگلے سال 10ھ) دوبارہ آئے تھے۔[7] سنہ 10ھ میں بھی رفع الیدین کا ہی مشاہدہ کیا۔[8]
روایات
ترمیمرسول اللہ سے کئی احادیث روایت کی ہے، ان کے بیٹے علقمہ اور عبد الجبار ان سے روایت کرتے ہیں، بعض کے مطابق عبد الجبار کی ان کے والد سے سماعت ثابت نہیں ہے، اس کے علاوہ کلیب بن شہاب جرمی، ان کی بیوی ام یحییٰ اور دوسرے حضرات نے بھی ان سے روایات بیان کی ہیں۔