وفد یحنہ بن رؤبہ سنہ رجب میں تبوک کے مقام پر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا
اس وفد میں یحنہ بن رؤبہ جو ایلہ کا بادشاہ تھا(ابن خلدون اور ابن اثیر نے اس کا نام یوحنا بن رؤبہ تحریر کیا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مصالحت کی اور جزیہ دینا منظور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں ایک تحریر لکھ کر دی جو ان کے پاس ہے اس میں لکھا

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

هَذِهِ أَمَنَةٌ مِنَ اللَّهِ وَمُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُولِ اللَّهِ لِيُحَنَّةَ بْنِ رُؤْبَةَ وَأَهْلِ أَيْلَةَ سُفُنِهِمْ وَسَيَّارَتِهِمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ لَهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ وَمُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُمْ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَأَهْلِ الْيَمَنِ وَأَهْلِ الْبَحْرِ، فَمَنْ أَحْدَثَ مِنْهُمْ حَدَثًا فَإِنَّهُ لَا يَحُولُ مَالُهُ دُونَ نَفْسِهِ، وَإِنَّهُ طَيِّبٌ لِمَنْ أَخَذَهُ من الناس، وأنه لا يحل أن يمنعوا مَاءً يَرِدُونَهُ وَلَا طَرِيقًا يَرِدُونَهُ مِنْ بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ[1]


یہ امان یحنہ بن رؤبہ اور ایلہ کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول محمد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دی گئی۔ بحر وبر میں ان کے سفینوں اور قافلوں کو اللہ تعالیٰ اور محمد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے امان حاصل ہے نیز ان کے ساتھ اہل شام، اہل یمن اور سمندری لوگوں کو بھی امان حاصل ہے پس جو کوئی ان میں سے نئی بات کریگا اس کا مال اس کی جان کی حفاظت نہیں کریگااور لوگوں میں سے جو اسے لے لے گاوہ اس کے لیے طیب ہوگااور کسی کے لیے اس پانی کا روکنا جائز نہیں جس پر وہ آتے جاتے ہیں اور نہ ان کے بحری اور بری راستے کو جس پر وہ آتے جاتے ہیں روکنا جائز ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. البدایہ والنہایہ مؤلف: ابو الفداء إسماعيل ابن كثير ناشر: دار الفكر بیروت
  2. تاریخ ابن کثیر،جلد پنجم صفحہ 34 ،ابن کثیر، نفیس اکیڈمی کراچی