دشت آدم کے بعد سلیم شہزاد کی ناول نگاری کا سلسلہ ویر گاتھا تک دراز ہوتا ہے ۔ جدید فکشن میں اظہار و بیان کے تجربے کو ناول کی نمایاں شناخت قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سلیم شہزاد کا دوسرا ناول’’ ویر گاتھا‘‘ ناول کی روایتی ٹیکنک سے پرے اظہارِ خیال کی نئی لسانی تشکیل کے وسیلے سے اسلوب اور ٹیکنک کے تجربوں کی جدید روایت کا ایک اچھوتا حصہ نظر آتا ہے۔​ ’’ ویر گاتھا ‘‘ کا بنیادی موضوع ’’ جنگ‘‘ ہے۔ جسے ناول نگار نے مذہبی کتابوں، کلاسیکی رزمیوں، ادبی و فنی نمونوں اور تاریخِ عالم میں وقوع پزیر ہونے والے منظم و مسلح تصادمات ، حادثات و واقعات وغیرہ کو تخیلی بیانیہ کا رنگ دے کر بیان کرنے میں ممکن حد تک کام یابی حاصل کی ہے۔ ’’ ویرگاتھا‘‘ میں کیا گیا لسانی، ہیئتی اور اظہاری تجربہ اپنے عصر سے ہم آہنگ نہ ہونے یا پھر فی زمانہ زبان و پیرایۂ بیان اور لسانی تشکیل میں ہونے والی تبدیلیوں کی سطحی معلومات کے سبب بعض قارئین کو محض بے رَس ، مشکل اور اعداد و شمار کی روداد نظر آتا ہے۔ جب کہ اس تجرباتی ناول کو اگر تجرباتی لحاظ سے جانچا اور پرکھاجائے تو ناول کی ٹیکنک اور طرزِ اظہار میں ہونے والی نو بہ نو تبدیلیوں کے ضمن میں بہت سے نئے گوشے واہوسکتے ہیں۔​

محمد حسین مشاہد رضوی