پارٹی لسٹ سسٹم
جن ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے، ان میں 80 فیصد ممالک میں پارٹی لسٹ ووٹنگ کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ یہ نظام نہ صرف زیادہ تر یورپی ممالک میں بلکہ نئی جمہوریتوں بالخصوص جنوبی افریقا میں بھی رائج ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ نشستوں والے حلقے ہوتے ہیں۔ آزاد امیدوار بھی حصہ لیتے ہیں، اگر وہ بھی ایک خاص شرح کے مطابق ووٹ حاصل کر لیتے ہیں تو وہ بھی پارلیمان میں پہنچ جاتے ہیں۔ بیلٹ پیپر میں ووٹر اپنی پسند کی جماعت کے نام ونشان پر مہر لگاتا ہے۔ اگر ایک حلقے میں دس نشستیں ہیں اور کسی جماعت نے 40 فی صد ووٹ حاصل کر لیے ہیں تو اسے چار نشستیں حاصل ہوں گی، الیکشن کمیشن اس جماعت کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق پہلے چارناموں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دے گا۔
اس میں فہرستوں کی دو اقسام ہوتی ہیں، کلوزڈ لسٹ سسٹم اور اوپن لسٹ سسٹم۔ کلوزڈ لسٹ سسٹم میں ووٹر صرف جماعت ہی کو ووٹ ڈالتاہے، بیلٹ پیپر پر کسی امیدوار کا نام درج نہیں ہوتا۔ چنانچہ جماعت کی پہلے سے الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ فہرست میں سے ناموں کی کامیابی کا اعلان کرتا ہے۔ تاہم زیادہ تر یورپی ممالک میں کلوزڈلسٹ کی بجائے اوپن لسٹ سسٹم رائج ہے۔ اس طریقہ کار میں بیلٹ پیپر پر ہر جماعت اس حلقہ سے اپنے امیدواروں کے نام بھی درج کر دیتی ہے۔ مثلاً ایک حلقہ چھ ارکان پر مشتمل ہے تو بیلٹ پیپر پر ہرجماعت کا ایک خانہ ہوگا اور اس خانہ میں اس کے چھ امیدواروں کے نام بھی درج ہوں گے۔ ووٹر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایک پارٹی کے کسی امیدوار کے حق میں نہیں تو وہ اس کی بجائے کسی دوسری پارٹی کے امیدوار کا انتخاب کرسکتا ہے۔ ان امیدواروں کو ملنے والے ووٹ ان کی جماعتوں کو مل جاتے ہیں۔ یہ نظام فن لینڈ جیسے ممالک میں رائج ہے۔
اس نظام میں جماعتوں کو نشستیں دینے کے متعدد فارمولے ہیں۔ آسان ترین فارمولا یہ ہے کہ ووٹوں کی ایک خاص شرح کے عوض ایک نشست دی جاتی ہے۔ مثلاً اگر 50 ہزار ووٹوں کا مطلب ایک نشست ہے اور کسی جماعت نے تین لاکھ 75 ہزار ووٹ حاصل کیے ہوں تو اسے پہلے مرحلے میں فوراً سات نشستیں فراہم کردی جائیں گی جبکہ باقی ماندہ 25 ہزار ووٹ اس پارٹی کے ایک دوسرے کھاتے میں درج ہوجائیں گے۔ بعد ازاں سب پارٹیوں کے باقی ماندہ ووٹوں کی بنا پر بچ جانے والی سیٹوں کا فیصلہ کیاجاتاہے، جس نے زیادہ باقی ماندہ ووٹ لیے ہوں گے، اسے سیٹ مل جائے گی۔ اگرایک سے زیادہ نشستیں باقی ماندہ ہوں تو وہ بالترتیب زیادہ باقی ماندہ ووٹ حاصل کرنے والوں کو مل جائیں گی۔
اس طریقہ انتخاب کی بدولت پارٹیوں کو پارلیمان میں ٹھیک ٹھیک نمائندگی ملتی ہے، ووٹرز کو انتخاب کے زیادہ بہترمواقع میسر ہوتے ہیں، ٹرن آؤٹ بڑھتاہے، ووٹوں کا ضیاع کم سے کم ہوتاہے۔ اسی طرح یہ نظام مصنوعی اکثریت سازی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتاہے اور من پسند حلقہ بندیاں بھی قائم نہیں ہونے دیتا۔ مزیدبرآں یہ چھوٹی جماعتوں، نسلی اقلیتوں اور خواتین کو بھی ٹھیک ٹھیک نمائندگی دیتا ہے۔
پارٹی لسٹ سسٹم البانیہ، الجزائر، انگولا، آسٹریا، ارجنٹائن، اروبا، بلجئیم، بوسنیا ہرزگوینا، برازیل، بلغاریہ، بورقینہ فاسو، برونڈی، کمبوڈیا، کیپ وردی، کولمبیا، کوسٹاریکا، کروشیا، کوراساؤ، قبرص، چیک ریپبلک، ڈنمارک، ڈومینیکن ریپبلک، ایکواٹوریل گنی، اسٹونیا فن لینڈ، گنی بساؤ، گیانا، ہانگ کانگ، آئس لینڈ، انڈونیشیا، عراق، اسرائیل، اٹلی، لٹویا، لائبریا، لیختنشٹائن،لکسمبرگ،مالڈووا، مونٹی نیگرو، مراکش،نیمبیا، نیپال، ہالینڈ، نیوکالیڈونیا، نکاراگوئے، پیرو، پولینڈ، روس، سان مارنیو، ساؤٹوم اینڈ پرنسیپی، سینٹ مارٹن، سلوواکیا، سلووانیا، جنوبی افریقہ، سپین، سری لنکا، سورینیم، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، تیونس، ترکی، یوراگوئے اوروالیس اینڈ فوٹونیا میں رائج ہے۔