متناسب نمائندگی ایک انتخابی نظام ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔ مثلاً اگر کسی جماعت کا ووٹوں میں حصہ 30 فیصد ہے، تو اس کی پارلیمان میں بھی نشستیں 30 فیصد ہی ہوں گی۔ پارلیمان میں نمائندگی کی شرط اول صرف اور صرف اکثریت ہوتی ہے یعنی 50 فیصد سے زیادہ۔ اگر ایک حلقے میں لوگ اس انداز میں تقسیم ہو جائیں کہ کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرے تو چوٹی کے دو امیدواروں میں پھر مقابلہ ہوتا ہے، ان میں سے یقینی طور پر کوئی ایک 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ نظام اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں رائج ہے۔ ان میں آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ ہر ملک نے اپنے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے، ضرورت کے مطابق اس نظام میں تبدیلیاں کی ہوئی ہیں۔ مقصد اس نظام کو زیادہ سے زیادہ جمہوری، صاف وشفاف بنانا ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے بیش بہا فوائد ہیں۔ مثلاً اس نظام کی بدولت انتخابات روپے پیسے کا کھیل نہیں بنتے۔ سبب یہ ہے کہ مقابلہ حلقہ وار امیدواروں کی بجائے جماعتوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔ ہر جماعت انتخابی مہم کے دوران میں اپنا منشور پیش کرتی ہے، قوم جماعتوں کے منشور اور کارکردگی کے مطابق اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، اسی تناسب سے اسے اسمبلیوں میں نشستیں الاٹ کردی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک لاکھ ووٹ کا مطلب ایک نشست ہو تو جو جماعت بیس لاکھ ووٹ لے گی، اسے اسمبلی میں بیس نشستیں مل جائیں گی۔ سیاسی جماعتیں ووٹنگ کے عمل سے پہلے ایک مقررہ تاریخ تک اپنے امیدواروں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیتی ہیں، انتخابی نتائج کے بعد الیکشن کمیشن مذکورہ جماعت کی نشستوں کے مطابق فہرست میں بالترتیب ناموں کو پارلیمان کی رکنیت فراہم کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن ایسے ناموں کی فہرستیں موصول ہونے کے بعد ان تمام افراد کو اپنے آئین میں درج شرائط رکنیت کے مطابق پرکھتا ہے، جو پورا اترتا ہے، رکنیت کا استحقاق اسے ہی ملتا ہے۔ اس نظام انتخاب کا فائدہ یہ بھی ہے کہ پارلیمان تانگہ پارٹیوں سے نجات حاصل کرلیتی ہے کیونکہ ہرجماعت کا ایک خاص تعداد میں ووٹ لیناضروری ہوتاہے۔ یہ خاص تعداد کتنی ہوتی ہے، مختلف ممالک نے اپنے حالات کے مطابق اس کی شرح متعین کررکھی ہے۔ بعض ممالک میں یہ فہرستیں ووٹروں کے سامنے بھی پیش کی جاتی ہیں، وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ جماعت کے کون سے لوگوں کو پارلیمان میں جانا چاہیے۔ اس نظام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جماعتی وفاداریوں کی خرید و فروخت کی لعنت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

متناسب نمائندگی میں حلقہ وسیع وعریض ہوتا ہے، اس لیے انتخابی نظام اور پھر اس کے نتیجے میں جنم لینے والاسیاسی نظام بہت سی عصبیتوں سے نجات پالیتاہے۔ جماعتیں ایک مخصوص علاقے یا خطے کی بنیاد پر اپنا پروگرام ترتیب نہیں دے سکتیں بلکہ انھیں پورے ملک اور پوری قوم کو سامنے رکھ کر اپنا پروگرام وضع کرناپڑتاہے۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں آپ نے اکثردیکھاہوگا کہ بعض حکومتیں اپنی مرضی سے اس اندازمیں حلقہ بندی کرتی ہیں جو ان کے فائدہ میں ہوتی ہیں اور مخالفین کے لیے نقصان دہ۔ تاہم متناسب نمائندگی کا نظام ایسی بدعنوانیوں کو روکتاہے۔ اسی طرح اس میں ضمنی انتخابات وغیرہ کا جھنجٹ بھی ختم ہو جاتاہے، اگرکسی جماعت کا کوئی رکن انتقال کر جاتاہے یا کسی بھی طرح رکن پارلیمان نہیں رہتاتو پارٹی کی فہرست میں سے اگلے نام کو پارلیمان کی رکنیت کا حق دیدیاجاتاہے۔ یوں ضمنی انتخابات پر خرچ ہونے والا پیسہ بچ جاتاہے۔ اس وقت دنیا میں متناسب نمائندگی کی تین اقسام رائج ہیں:

متناسب نمائندگی کے نظام میں ایسا بھی ہوتاہے کہ پورا ملک ہی ایک حلقہ متصور ہوتا ہے اور ہرصوبہ بھی ایک حلقہ بن سکتاہے۔ عام طور پر جن ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے، وہاں صوبے زیادہ بڑے نہیں ہوتے اور ہرصوبہ کو ایک حلقہ تصور کیاجاتاہے۔ اگرکسی صوبے میں دس نشستیں ہیں، وہاں کسی جماعت نے پچاس فیصد ووٹ حاصل کر لیے، تو وہاں اسے پانچ نشستیں مل جائیں گی۔ پاکستان میں متناسب نمائندگی نظام اختیارکرنے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں میں جماعت اسلامی، تحریک استقلال، پاکستان عوامی تحریک شامل ہیں۔ اول الذکر دونوں جماعتیں ستر کی دہائی سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان دنوں ملک میں انتخابی اصلاحات کا مطالبہ عام ہو رہاہے، جماعت اسلامی نے ایک بار پھر زوروشور سے اپنا پرانا مطالبہ دوہرانا شروع کر دیاہے۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک بھی چندبرسوں سے یکسو ہو چکی ہے کہ موجودہ نظام اسلامی تصورِ نمائندگی کے سراسر خلاف ہے،اس کے ذریعے عوامی اکثریت کی نمائندہ حکومت تشکیل نہیں پاتی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، دھن، دھونس اور دھاندلی کا آزادانہ استعمال ہوتاہے، نااہل اور مفاد پرست افراد منتخب ہوتے ہیں، اس سے علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتاہے،کمزور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں اور سیاسی نظام میں عدم استحکام رہتاہے۔ اس نظام میں نمائندوں کا احتساب ممکن نہیں، نتیجتاً عوام اور رائے دہندگان کی عدم دلچسپی ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہ نظام قومی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتاہے۔ یقینا اس وقت مغربی دنیا کے کئی ممالک میں تناسبی اکثریت کا نظام رائج ہے تاہم وہ بھی اب متناسب نمائندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بعض ممالک میں متناسب نمائندگی کو مکمل طور پر اختیارکرلیاگیا ہے تاہم بعض ابھی تک اس نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مغربی دنیا کے موقرجریدے’دی اکانومسٹ‘ نے1991ء میں اپنے ایک اداریہ میں لکھاتھا: ’’موجودہ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم غیر جمہوری ہے، صرف اسی ایک بنیادپر اس کی جگہ کوئی دوسرا نظام لانے کی ضرورت ہے‘‘۔ صرف اکانو مسٹ ہی نہیں، متعدد مغربی ماہرین بھی اپنے معاشروں میں یہی نظام اختیارکرنے پر زوردے رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ابھی سے ہی اس نظام کواختیارکرلیں؟ کیا ضروری ہے کہ جب پورا مغرب اس نظام کو اختیارکرلے، پھر ہم اس کے لیے سوچناشروع کریں؟ آخرہرکام میں دیرکیوں؟

متناسب نمائندگی پر اعتراضات ترمیم

بعض حلقے کہتے ہیں کہ متناسب نمائندگی کے نتیجے میں بعض سنگین خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں مثلاً :

  • پارٹی لیڈر سارے اختیارات کا محور ومرکز بن جاتاہے، وہ جسے چاہے گا پارلیمنٹ کے لیے نمائندگی دے گااور وہ سیٹیں نیلام کرے گا۔ تاہم یہ اعتراض اس اعتبار سے بہت کمزور ہے کہ دوسرے نظام ہائے انتخاب میں بھی پارٹی لیڈر اختیارات کا گھنٹہ گھر بن سکتاہے، وہ نشستیں بھاری بھرکم رقم کے عوض فروخت کرتاہے۔ آپ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام ہی پر ایک نظر ڈال لیں۔ یہ شکایت اس میں بھی عام ہے۔ یہ خرابی صرف ایک صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت ہو۔ صرف وہی پارٹی انتخاب میں حصہ لینے کی اہل ہوجو باقاعدہ ’’انٹرا پارٹی الیکشن‘‘ کرائے اور اس کی نگرانی بھی الیکشن کمیشن کرے۔ پارٹیاں کسی کی جاگیر نہیں ہونی چاہئیں یعنی باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی سربراہ نہ بن بیٹھے۔
  • کہا جاتا ہے کہ متناسب نمائندگی کے ذریعے غیر مستحکم اور مخلوط حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ یہ اعتراض بھی زیادہ قوی نہیں ہے کیونکہ موجودہ نظام انتخاب کے نتیجے میں بھی کمزور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں۔ اصل معاملہ اصولوں کی پاسداری کا ہوتاہے، جن معاشروں میں اصولوں کو اہمیت دی جاتی ہے، وہاں ایک سیٹ کی اکثریت سے بھی حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی ہیں ورنہ دوتہائی اکثریت کی حامل حکومتیں بھی غیر مستحکم ہوجاتی ہیں۔ جب ’رن آف‘ یا ’ٹو راؤنڈ سسٹم‘ ہوگاتوممکن ہی نہیں ہے کہ مخلوط حکومتیں قائم ہوں۔ ووٹنگ کا یہ نظام مصر، افغانستان، فرانس اور انڈونیشیا میں رائج ہے۔ اس نظام میں اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے تو زائد ووٹ حاصل کرنے والے دو سرفہرست امیدواروں کے درمیان میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔ ظاہ رہے کہ اس میں کسی نہ کسی کو اکثریت نصیب ہوجاتی ہے۔

ووٹنگ سسٹم کوئی بھی ہو، اس میں خرابیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک اس نظام کو شفاف اور سستا نہ بنایاجائے،حکومتی حلقوں اور بڑے طبقات، سرمایہ داروں کے ناجائز اثرو رسوخ سے الیکشن کمیشن کی آزادی بھی ضروری ہے۔ جعلی شناختی کارڈ سازی، جعلی ووٹ سازی، جانبدارانہ حلقہ بندیوں و پولنگ سکیمز، الیکشن عملہ کی ملی بھگت اور پولیس انتظامیہ و غنڈہ عناصرکی ناجائز مداخلت روکنا بھی ضروری ہے، تشہیر، جلسوں، ٹرانسپورٹ، الیکشن کیمپوں کے اخراجات کو کم سے کم کرکے انتخابات کو روپے پیسے کا کھیل بننے سے روکا جاسکتاہے۔ سیاسی جماعتیں تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر غریب و متوسط باصلاحیت کارکنان کو میرٹ پر اسمبلیوں میں نمائندگی کے لیے نامزد کریں۔ متناسب نمائندگی کا نظام سستا نظام بننے کی زیادہ صلاحیت رکھتاہے اور اس میں مذکورہ بالا تمام خرابیوں کے امکانات کم سے کم ہوتے ہیں۔

دو معروف انتخابی نظام ترمیم

دنیا میں دو ہی انتخابی نظام زیادہ معروف اور مروج ہیں، ایک تناسبی اکثریت (Plurality-majority voting) کا، جس میں زیادہ امیدواروں میں سے جو بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلے، اسے کامیاب مانا جاتا ہے۔ چاہے مقابلے میں موجود تمام امیدواروں کو حاصل شدہ ووٹوں کا مجموعہ اس امیدوار سے زیادہ ہو۔ پاکستان سمیت 49ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ دیگر ممالک میں آذربائیجان، بنگلہ دیش، کینیا، کویت، لبنان، ملاوی، سموا، سنگاپور، سولومن آئی لینڈ، جنوبی کوریا،بہاماس، انٹیگوا اینڈ باربوڈا،بارباڈوس، بیلٹز، بھوٹان، بوٹسوانا، کینیڈا، ڈومینیکا، ایتھوپیا، گیمبیا، گھانا، گریناڈا، ملائیشیا، میکسیکو، فیڈریٹڈ سٹیٹس آف مکرونشیا، مراکش، نیپال، نائیجیریا، پالاؤ، پاپوانیوگنی، فلپائن، زیمنیا، یمن، امریکا، برطانیہ، یوگینڈا، تووالو،ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، ٹونگا، تنزانیہ،سوئٹزرلینڈ، بھارت، ایران، جمیکا، زمبابوے، سینٹ لوشیا اور سینٹ کٹس اینڈ نیواس شامل ہیں۔

تاہم ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اس نظام کو نامناسب سمجھاجاتاہے، وہاں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے۔ یورپ میں 28ممالک میں سے 21ممالک میں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالابعض ممالک میں متناسب نمائندگی کے نظام ساتھ ساتھ تناسبی اکثریت کا نظام بھی رائج ہے۔

متناسب نمائندگی کی تاریخ ترمیم

متناسب نمائندگی کی سب سے پہلے تجاویز دینے والوں میں جان ایڈمز کا ذکر ملتاہے۔ یہ تجاویز انھوں نے اپنے ایک پمفلٹ ’’Thoughts on Government‘‘ کی صورت میں پیش کیں۔ انھوں نے نارتھ کیرولینا کی صوبائی کانگریس کی درخواست پر سنہ 1776ء میں یہ تجاویز تیارکیں۔ بعد ازاں یہی جان ایڈمز پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بعد امریکا کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ برطانیہ سے آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش لوگوں میں وہ بھی شریک تھے، اس لیے انھیں بھی امریکا کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ نارتھ کیرولینا کے پہلے آئین کی بنیاد یہی پمفلٹ بنا۔ وہ قانون سازی کے لیے دو ایوانوں کی تشکیل ضروری خیال کرتے تھے کیونکہ اس طرح دونوں ایوان ایک دوسرے پر چیک رکھ سکتے ہیں۔ “Thoughts on Government” میں انھوں نے لکھا کہ نمائندگی برابری کی بنیادپر ہونی چاہیے، جب بات عوام کی نمائندگی کی ہو تو لوگوں کی چھوٹی سے چھوٹی شبیہہ بھی بڑی تصویر میں موجود ہونی چاہیے۔ پارلیمان میں داخلہ کا کم ازکم معیار مختلف ممالک میں کسی بھی پارٹی کے لیے پارلیمان میں داخل ہونے کے لیے کم ازکم ووٹوں کی ایک شرط بھی عائد کی گئی ہے۔ مثلاً ترکی میں جو پارٹی کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 10فیصد ووٹ حاصل کرے گی، وہی پارلیمان میں داخلہ کی حق دار ہوگی۔ دنیا میں کہیں بھی یہ سب سے کڑا معیار ہے۔ لیختنشٹائن میں8فیصد، روس میں7فیصد، مراکش میں 6فیصد، سلواکیا،رومانیا، نیوزی لینڈ، لٹویا، بلجئیم، جرمنی، اسٹونیا، کروشیا اور چیک ری پبلک میں 5فیصد، اٹلی، بلغاریہ، آسٹریا، سلوانیا میں 4فیصد، سویڈن میں قومی سطح کے لیے یہ شرح 4فیصد جبکہ ضلعی سطح کے لیے 12فیصد ہے۔،جنوبی کوریا میں 3فیصد جبکہ سپین میں چھوٹے حلقوں میں یہ شرح3فیصد ہے۔ دنیا میں سب سے کم شرح اسرائیل میں ہے یعنی2فیصد ۔

حوالہ جات ترمیم