اوتار سنگھ پاش (گرمکھی:ਅਵਤਾਰ ਸਿੰਘ ਪਾਸ਼)، بھارت سے تعلق رکھنے والے پنجابی زبان کے معروف انقلابی شاعر ہیں۔ پنجابی زبان کے مزاحمتی ادب میں وہ عہد حاضر کے نامور ترین شاعر تھے۔

حالات زندگی ترمیم

پاش ستمبر 9، 1950 کو ضلع جالندھر کے گاؤں تلونڈی سلیم میں پیدا ہوئے۔ اوائل ہی میں وہ مغربی بنگال سے اٹھنے والی انقلابی تحریک، نکسل باڑی سے متاثر ہو کر بائیں بازو سے منسلک ہو گئے۔ نکسل باڑی کی تحریک مشرقی پنجاب میں کسانوں مزدوروں اور محنت کش طبقہ کی حقیقی نمائندہ تحریک تھی۔ 1970ء میں انھوں نے اپنی انقلابی نظموں کی پہلی کتاب “لوہ کتھا“ (قصہءآہن) طبع کرائی۔ ان کی شاعری کے عسکری اور سخت گیر محاورے و ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے حکومت نے انھیں جیل بھجوا دیا اور یوں انھوں نے دو برس جیل میں گزارے۔

فائل:Pash.gif
پاش کی پنجابی کلیات (شاہ مکھی) کا سرورق

رہائی کے بعد وہ بھارت کے ماؤ نواز فرنٹ کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور پنجابی کسانوں کے مجلہ “سیراہ“ (ہل کی لکیر) کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اس دوران وہ ملک کے نامور سیاسی رہنما بن کر ابھرے۔ 1985ء میں پنجابی اکادمی ادبیات ہندوستان نے انھیں فیلوشپ سے نوازا۔ 1988ء کے دورہء امریکہ پر وہ وہاں پر قائم ہند و پاک کے پنجابیوں کی تقسیم مخالف تنظیم “اینٹی-47“ کے ساتھ بھی منسلک رہے۔

23 مارچ 1988ء کو امریکا میں وہ سکھوں کی ایک مذہبی انتہا پسند تنظیم کی گولی کا نشانہ بن گئے۔

پاش کی کتب ترمیم

  • لوہ کتھا (1971ء)
  • اُڈیاں بازاں مگر (1973ء)
  • ساڈیاں سمیاں وچ (1978ء)
  • کھلرے ہوئے ورقے (1989ء)

1997ء میں ان کے انتخابات لاہور میں “انکار“ کے نام سے شائع ہوئے۔ حال میں پاکستان میں ان کے ادبی کاموں کو خوب پزیرائی ملی ہے۔

نمونہء کلام ترمیم

ویلا آگیا ترمیم

ہن ویلا آگیا ہے

تاکہ آپو وچلے دے رشتے دا اقبال کرائیے

تے وچاراں دی لڑائی، مچھر دانی وچوں باہر ہو کے لڑئیے

تے ہر ہک دے گلے دی شرم

ننگے منہ تے جرئیے

وقت آگیا ہے

کہ ہن ایس کڑی نوں

جو معشوقہ بنن توں پہلاں ای

پتنی بن گئی، بھین کیہ دیے

لہو دے رشتے دا پنگل بدل لیے

تے متراں دی نویں پہچان گھڑیے

آپے اپنے لہو دے دریا نوں ترئیے

سورج نوں کھنامی توں بچاون لئی

ہو سکے تاں رات بھر

آپ بلیے۔۔