پروین فرزانہ ابصار
پروین فرزانہ ابصار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جنگلی حیات میں اپنی ماسٹرز ڈگری کی تکمیل کر رہی ہیں۔ وہ اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کی توجہ کا مرکز 2017ء میں بن گئیں جب انھوں نے شمال مشرقی بھارت کی ریاست میگھالیہ میں کیکڑوں کی ایک نئی نسل ڈھونڈ کر نکالی جس کا نام انھی کے اوپر یعنی ٹیریٹامون ابصارم (Teretamon Absarum) رکھا گیا ہے، حالاں کہ وہ یہ دعوٰی کرتی ہیں کہ یہ نام درحقیقت ان کے والد احسان ابصار اور والدہ فرزانہ ابصار کے نام پر رکھا گیا ہے۔[1]
نئی دریافت کی اہمیت
ترمیمپروین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر عروس الیاس کے تحت شعبہ جنگلاتی حیات سائنس کے تحت اپنا مقالہ تیار کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق پروین جو صرف 29 سال کی ہیں، جانوروں کسی بھی نئی نسل کو کھوج نکالنے والے سب سے کم عمر لوگوں میں سے ایک ہے۔ یہ بجائے خود پروین کی ریاست اور ان کے ملک کے لیے فخر کی بات ہے۔ ایک اور بات جو پروین کو دیگر محقق شخصیات سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ پروین نے اپنی دریافت کسی امدادی تحقیق کے تحت نہیں کی بلکہ وہ یہ کام غاروں کے ماحولیاتی نظام (cave ecosystem) میں اپنی گہری دلچسپی کی وجہ سے کر پائی ہے۔[2]
ٹیریٹامون ابصارم
ترمیمپروین کی جانب سے دریافت کیے گئے کیکڑے میں بہت ہی کم خون پایا گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے بالکلیہ سفید یا بے رنگ ہوتا ہے۔ یہ کیکڑا تقریبًا اندھا ہوتا ہے اور غاروں کی دیواروں کے تاریک کونوں میں رہتا ہے۔اس کا قد و قامت نہایت پستہ ہے۔ ایک بالغ کیکڑا محض 2 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔دیگر کیکڑوں کے بر خلاف اس کیکڑے کے بے حد باریک پاؤں پر بال ہوتے ہیں۔ [2]
اس تحقیق سے متعلق معلومات کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے جانوروں کی زمرہ بندی کرنے والے سائنسی جریدے زوٹکسا میں یہ تحقیق اور نسل کی زمرہ بندی شائع ہونے کے لیے منظور کر لی گئی ہے۔[2]
ماحولیاتی حیات کے تحفظ کا جذبہ
ترمیمحالاں کہ پروین اپنی تحقیق سے بے حد خوش ہیں، مگر انھوں نے بر سر عام اس غارکی نشان دہی کرنے سے انکار کر دیا جہاں سے یہ مخصوص نسل کا کیکڑا دست یاب ہوا تھا۔ یہ غالبًا ان جانداروں کے تحفظ کی وجہ سے صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے۔[2]
پروین کے مطابق میگھالیہ میں 1600 غاریں ہوئی ہیں، ان میں دس غاریں بھارت کی سب سے بڑی غاروں میں شامل ہیں۔ ان غاروں میں مچھلی، جھینگے، مکڑی اور ایسے باریک رینگنے والے جاندار بھی موجود ہیں جو خردبینی وجود رکھ کر بھی جب بھی کسی پتھر پر گزرتے ہیں، ایک غیر میکانیکی آنکھ کو ایسا احساس دلاتے ہیں جیسے رَگیں پتھر سے گذر رہی ہیں۔[2]