پنجاب کے راجپوت
پنجاب میں جاٹوں اور راجپوتوں کی تقسیم اور حقیقت الچھی اور مشکوک ہے۔ عموما بڑے قبیلے راجپوت اور ان کی شاخیں جاٹ کہلاتی ہیں۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو ہم نسل تسلیم کرتے ہیں۔ ان راجپوت قبائل کی تقریباًً ایک جیسی کہانی ہے کہ ان کا جد امجد راجپوتانہ یا دکن سے پنجاب اکبر یا بعد کے دور میں آیا تھا اور بابا گنج شکر کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔ ان میں سے اکثر خود کو راجا کرن کی اولاد بتاتے ہیں۔ مگر ماضی میں پنجاب میں راجپوتوں کو تذکرہ نہیں ملتا ہے اور ان کی حقیقت ہے اس کے لیے ایک طویل بحث کی ضرورت ہے۔
عروج
ترمیمراجپوتوں کا دور ساتویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسویں تک کا تھا۔ یہ وہ دور ہے جب مسلمان موجودہ پاکستان کی سرزمین پر حکومت کر رہے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی سے کسی مسلمان مورخ نے یہاں آباد راجپوت قبائل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ بابر نے پنجاب کے بہت سے قبائل کا ذکر کیا ہے مگر اس نے بھی کسی راجپوت قبیلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ مغلوں کے دور زوال میں بھی راجپوتوں کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ جب سکھ یہاں کہ حکمران بن گئے تھے اور انگریزوں کے دور میں بہت راجپوت کا دعوی سامنے آیا۔ اس سے پہلے کسی مسلمان مورخ نے پنجاب، سندھ، بلوچستان، مکران، کیاکان، افغانستان، غزنی اور کشمیر کی لڑائیوں میں راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
دلچپب بات یہ یہاں کچھ ایسے قبائل آباد ہیں جو پست درجہ کے سمجھے جاتے ہیں اور ان کا ذکر راجپوتوں کے چھتیس راج کلی (چھتیس شاہی خاندان) میں ہوتا ہے۔ مگر یہ خود کو راجپوت نہیں کہتے ہیں یا نہیں جانتے ہیں۔ مثلاً ملی یا جوئیہ یا داہری۔ ملی جنھوں نے ملتان کو اپنا نام (ملی استھان) دیا بلکہ سکندر سے مقابلہ کیا اور اسے ذخمی بھی کیا تھا۔ یہ آج کل باغبان کہلاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سبزی اگاتے ہیں، اس لیے انھیں دوسروں سے جو اناج لگاتے ہیں کمتر سمجھا جاتا تھا ہے۔ البتہ ایک بھٹی ایسا راجپوت قبیلہ ہے جس کا قدیم زمانے میں ذکر ملتا ہے۔
واضح راجپوت کا کلمہ ساتویں صدی سے پہلے نہیں ملتا ہے۔ اس کا قدیم تریں تلفظ ہن فاتح ٹورامن کے کرا کتبہ میں اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو راج پتر کہا گیا ہے۔ جس کے معنی بادشاہ کی اولاد ہے۔ جو ایرانی کلمہ وس پوہر (بادشاہ کا بیٹا) کے مترادف ہے۔ وس سنسکرت میں بھی بادشاہ کے معنوں میں آتا ہے اور پوہر سنسکرت کے پتر کا مترادف ہے لیکن ساتویں صدی عیسویں سے اس کی جگہ راجا استعمال ہورہا ہے۔ چنانچہ جب شنکر اچاریہ کے تحت کٹر برہمن مت کا احیا ہوا تو راجا پتر کا لفظ استعمال ہوا۔ کلہانا نے راج ترنگی میں راجپوتوں واضح انداز میں غیر ملکی، مغرور، بہادر اور وفادار کہا گیا ہے۔ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی (چھتیس شاہی خاندان) مشہور ہیں۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے۔ ٹاڈ بھی راجپوتوں کو وسط ایشیا کے ستھین قبائل کہتا ہے اس کے مطابق عہد قدیم سے محمود غزنوی کے دور تک بہت سی اقوام ہند پر حملہ آور ہوئیں، اب وہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں۔ بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازہً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارہویں صدی عیسویں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کہنا غلط ہے کہ کی آمد کے وقت کابل سے کامروپ تک کشمیر سے کوکن تک کی تمام سلطنتیں راجپوتوں کی تھیں اور ان کے چھتیس راج کلی شاہی خاندان حکومت کر رہے تھے۔ کیوں کہ اس وقت پنجاب اور سندھ بلوچستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔
جواہر لعل نہرو کا کہنا ہے کہ اس زمانے جو بھی فاتح ہند پر حملہ آور ہوتا تھا تھوڑے عرصے میں اس کا شمار چھتریوں میں ہونے لگتا تھا۔ سکوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حکمران کا نام غیر ملکی ہے۔ لیکن بیٹے یا پوتے کا نام سنسکرت میں ہے اور اس کی تخت نشینی یا تاج پوشی چھتری رسوم کے مطابق ہوتی تھی۔ راجپوتوں کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب سک یا سیتھی حملہ آوروں سے تھا یا وہ سفید ہن قوم کے حملہ آوروں میں سے تھے۔
اہم بات یہ راجپوت قبائل اور جاٹوں قبائل کے مشترک نام ہیں۔ اس لیے ولسن نے کہا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور، پوار اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے اور یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بنا پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر سے ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔ اگرچہ قانون گو یہ کہتا ہے کہ پہلے یہاں جاٹ آباد تھے اور راجپوتوں نے ان کی جگہ نوادار راجپوتوں نے لی۔ قانون گو نے اس بات کو فراموش کر دیا کہ پوار (پنوار)، تنوار، بھٹی، ڈوگر، جوئیہ وغیرہ جاٹوں اور راجپوتوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔
اگر راجپوت یہاں کے حکمران خاندان کو راجپوت کا خطاب دیا گیا ہے تو یہ بات بھی غلط ہیں۔ ہر راجپوت خاندان حکمران نہیں رہا۔ راجپوتوں کے چوراسی خاندان ایسے ہیں جنھوں نے اب تجارت کا پیشہ اپنالیا ہے۔ انھوں نے کبھی حکمرانی نہیں کی ہے۔ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی کے بہت سے خاندان خاص کر سندھ کے کچھ قبائل ایسے ہیں جنھوں نے کب حکومت کی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔ حتیٰ روایتوں میں بھی ان کی ریاستوں کا ذکر نہیں ملتا ہے مثلا داہری۔ اس طرح ہندوستان کو قدیم موریہ خاندان کا شمار بھی راجپوتوں میں ہوتا ہے۔ مگر اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے ہند پر حکمرانی کی بلکہ ان کا شمار اس لیے ہوتا ہے کہ انھوں سے سورج بنسیوں سے پہلے چٹور پر حکومت کی تھی۔ اس طرح گپتا خاندان جس نے پہلی دفعہ سنسکرت کو ادبی زبان بنانے کی کوشش کی اور کتبوں میں اس کا استعال کیا وہ خاندازن بھی راجپوتوں میں شامل نہیں ہیں۔
جٹ اور راجپوت
ترمیمابسن لکھتا ہے کہ پنجاب میں جٹوں اور راجپوتوں کے درمیان میں امتیاز کرنا مشکل ہے بلکہ قریباً قریباً ناممکن ہے۔ ان کی روایات بنیادی طور پر ہندوانہ ہیں اور دیگر سماجی ریتیں مثلاً شادی وغیرہ۔ یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں عملی طور پر فرق کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ بعض انھیں الگ الگ ماخذ سے خیال کرتے ہیں اور بعض انھیں مختلف ادوار میں ہجرتوں کے نمائندے۔ مگر دونوں کو اکثر نے ایک ہی نسلی ماخذ سے تسلیم کیا ہے۔ مگر یہ قطعی ہے کہ جٹ اور راجپوتوں میں کچھ قدیمی نسل کے باشندے بھی شامل ہیں۔ کیوں کہ پنجاب کے بہت سے جٹ قبائل میں ایسی بعض ایسی روایات ہیں جو ان کے غیر آریائی ماخذ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جٹ قبائل مثلاً مان، ہیر اور بھلر کبھی بھی راجپوت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ہیں۔
جٹ سے راجپوت
ترمیمپنجاب کے میدانوں میں اسلام کی عطا کردہ آزادی نے ذات کو پشت پر ڈال دیا اور سماجی حثیت بڑی اکائی تسلیم کی جاتی جاتی ہے اور ایسے خاندان بھی ملتے ہیں جو چند پشت پہلے جاٹ تھے مگر اب راجپوت کہلاتے ہیں۔ بڑے طاقت ور قبائل سیال، گونڈل، ٹوانہ کو عملاً راجپوت اور ان کی چھوٹی برادریاں جٹ کہلاتی ہیں۔ حتیٰ کوئی قبیلہ ایک جگہ راجپوت ہے تو دوسری جگہ وہ جٹ کہلاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کوہستان نمک میں جب کوئی قبیلہ عرب یا مغل نہ ہو تو راجپوت ہے۔ جب کہ راجپوت کی قابلیت کو نہ پہنچنے والے تمام قبائل جٹ ہیں۔ جہاں کوئی راجوں کی روایات نہیں وہاں راجپوت نہیں ہو سکتے ہیں۔ سکھوں کے دور میں جٹ غالب رہے۔ مگر اس وقت تک سیاسی یا سماجی میدان میں راجپوت ہ میں کہیں نظر نہیں آتا۔ گو یہاں کے جٹ بھی راجپوتوں کی طرح مختلف نسلی ماخذ کا دعویٰ کرتے ہیں۔
جاٹ
ترمیمپنجاب میں جٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے تعداد کے معاملے میں راجپوتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیاسی طور پر اس نے پنجاب پر خالصہ کی صورت میں حکومت کی۔ حالانکہ سماجی طور پر جٹ کی ھثیت میں روڑ، گوجر اور آہیر حصہ دار ہیں۔ یہ چاروں مل کر کھاتے پیتے ہیں اور تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ یقناً راجپوتوں کے مقابلے میں کہیں پست مانا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی بیواؤں کی شادی کر دیتا ہے۔ اس علاقہ کے ایک ماہیے میں وہ اپنے بیوہ بیٹی کو کہتا ہے آ میری بیٹی شادی کر، تیرا خاوند مرگیا تو کیا ہوا اور بھی بہت سے ہیں۔ اس طرح وہ بیوہ کی شادی کرنے میں سب سے آگے ہے۔
روایت
ترمیمپنجاب میں راجپوتوں کی روایات جمنا کہ پار راجپوتوں سے نہیں ملتی ہیں۔ کیوں کہ وہاں کے راجپوت جٹوں سے الگ ماخذ کے دعوے دار ہیں۔ پنجاب کے جٹ اور راجپوت دونوں ایک مشترکہ نسلی ماخذ کو مانتے ہیں اور ان کی روایات بھی ایک مشترک ماخذ کی نشادہی کرتی ہیں اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ یہ فرق نسلی نہیں سماجی ہے۔ اس مشترک ماخذ کے خاندان جن میں قسمت نے سرفرازی عطا کی وہ راجپوت بن گئے اور ان کی اولادوں نے اسے حاصل کرنے کے بعد نہایت کٹر پن کے ساتھ قوانین کی پیروی کی صورت میں باقی رکھا۔ جس کے ذریعہ درجہ بندی کے ہندو پیمانے میں اعلیٰ و بالا ذاتیں خود کو نیچ و پست ذاتوں سے خود کو ممتاز رکھتی ہیں۔ ان میں کمتر سماجی رتبہ والوں سے شادی سے انکار، اپنے خون کا خالص پن محفوظ رکھتی ہیں۔ ان قوانین سے رد گرادنٰی کرنے والا سماجی رتبہ سے گرجاتا ہے اور وہ راجپوت نہیں رہتا ہے۔ جب کہ ایسے خاندان جنھوں نے علاقہ میں ایک ممتاز حثیت حاصل کرکے سماجی کم اور قوانین کی پیروی کردی اور وہ نہ صرف راجا بلکہ راجپوت یعنی راجوں کے پوت بن گئے۔
تبدیلی ذات
ترمیمانگریزوں کی آمد کے بعد بہت سے راجپوت قریشی یا مغل نسل کا دعویٰ کرنے لگے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کسی طرح تقدس اور سماجی رتبہ کی وجہ سے چند پیڑیوں میں کوئی خاندان سید بن جاتا ہے۔ جب کہ پہاڑی علاقوں میں ہندووَں میں راجپوت بنے کا عمل بھی جاری رہا۔ اس کے برعکس جمنا کے پار راجپوتوں میں تنزلی ہوکر جاٹ بنے کا عمل بھی جاری رہا۔ کوئی راجپوت خاندان بیواءوں کی شادی کرے، برہمنیت کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کر دے یا تنگ دستی سے کھیتی باڑی شروع کر دے تو اس کا مرتبہ راجپوت سے گر کر جٹ کا ہوجاتا ہے اور ایسے بہت سے خاندان تھے جو پہلے راجپوت تھے مگر اب جٹ بن چکے ہیں۔ خاص کر بیواءوں کی شادی کی وجہ سے یا زراعت کا پیشہ اپنانے کی وجہ سے۔
سندھ، بلوچستان خیبر پختون خواہ میں راجپوتوں کو کوئی نہیں جانتا ہے۔ وہاں جٹ قبائل کے ایک ایسے گروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بلوچ، بروہی یا سید نہیں ہیں۔ اگرچہ ان میں مذہب اسلام، زراعتی پیشے اور ان کی ماتحتی کے کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ وہاں راجپوت اور جٹ کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ پنجاب میں راجپوت کی اصطلاح عملاً ان قبیلوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جنھوں نے سیاسی برتری حاصل کرلی ہے اور مغلوب ہونے انھیں ماتحت کیا یا انھیں وسطیٰ علاقہ کے صحراؤں میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ انھیں اکثر و بشتر جٹوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کوہستان نمک کے علاقہ جٹ کی اصلاح پنجابی میں چراہے، گلہ بان کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جاتکی میں بھی جٹ کی بجائے جت یعنی نرم آواز میں گلہ بان اور اونٹ چرانے والے کے ہیں اور خود کو جٹوں سے الگ اپنا ماخذ بتاتے ہیں۔
برہمنی بالادستی
ترمیمبشتر راجپوت جٹوں کی طرح قبائل وسط ایشاء سے آنے والے قبائل تھے۔ جو رفتہ رفتہ وادی سندھ سے آگے بڑھ کر شمالی و وسط ہند اور گجرات اور دکن تک پھیل گئے۔ ان کا دور ساتویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسوی کا ہے۔ بنیادی طور پر راجپوت اور جٹ ایک ہی نسلی ماخذ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تائید اس طرح ہوتی ہے کہ راجپوت اور جاٹوں قبائل کے نام مشترک ہیں۔
راجپوت ان قبائل کے وہ گروہ ہیں جنھوں نے برہمنوں کی بالادستی قبول کی اور اس بنا پر انھیں ہندو معاشرے میں قبول کیا گیا اور انھوں نے ہندو تہذیب کو اختیار کیا۔ اس کے صلے میں انھیں برہمنوں نے گوترا عطا کیں اور اس طرح ہندو مذہب و تہذیب نے ترقی کی۔ چنانچہ وشنو، شیوا، چندی اور سوریہ وغیر کے ادیان پھیل گئے۔ اس طرح برہمنی مذہب نے عروج حاصل کیا اور بدھ مذہب برصغیر کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح راجپوتوں نے برہمنوں کے ساتھ مل ہندو دھرم کو ارسر نو زندہ کیا اور بدھوں کو تہس نہس کر دیا۔
جن خاندانوں نے برہمنی بلادستی قبول کی انھیں راجپوتوں میں شامل نہیں کیا گیا اور انھیں نظر انداز کیا گیا اور کے خلاف طرح طرح کی باتیں پھیلائیں گیں کہ انھیں کمتر ظاہر کیا گیا۔ مثلاً موریہ خاندان کے بانی چندر موریہ گپت بارے میں کہا گیا کہ یہ ایک حجام کی اولاد ہیں۔ اس کے پوتے اشوک جس پر آج بھارت کو ناز ہے اور جس نے سب سے پہلے بھارت کو متحد کیا تھا۔ اس کا نام ہی تاریخ کے صفحوں سے غائب کر دیا گیا۔ جب اشوک کے کتبے دریافت ہوئے اور انھیں مختلف ماخذ کی مدد سے پڑھا گیا تو اشوک کی عظمت دنیا پر عیاں ہوئی کہ اس نے دنیا میں پہلی دفعہ رفع عامہ کے کام کروائے۔ اس طرح گپتا اور ہریش چند جیسا بادشاہوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
جٹوں نے برہمیت کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ ان کے اپنے پجاری ہوتے ہیں، انھیں زراعت سے لگاوَ ہے اور یہ اپنی بیواؤں کی دوسری شادی کرتے ہیں۔ یہ شرائط ایسی ہیں انھیں قبول نہ کرنے والا برہمن معاشرے میں پست ذات کا ہوجاتا ہے۔ اس لیے روڑ، گوجر اور آہیر بھی جٹوں کی طرح کمتر کہلاتے ہیں۔ ہندو معاشرے میں ان امور میں سے کوئی ایک کام راجپوت کرے تو اس کا درجہ گر کر جٹ ہوجاتا ہے۔
مسلم علاقہ
ترمیمپنجاب کا بشتر علاقہ ان علاقوں میں شامل تھا جہاں ساتویں صدی میں عربوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ یہاں برہمنیت کی بالادستی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے راجپوتوں کا ارتقا مسلم علاقہ میں نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے کسی مسلمان مورخ نے پنجاب، سندھ، بلوچستان، مکران، کیاکان، افغانستان، غزنی اور کشمیر کی لڑائیوں میں راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ یہاں آباد راجپوت قبائل کا ذکر ملتا ہے۔ بابر نے پنجاب کے بہت سے قبائل کا ذکر کیا ہے مگر وہ بھی راجپوتوں کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ مغلوں کے دور میں اور ان عہد زوال میں بھی راجپوتوں کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں راجپوتوں ذکر ملتا ہے۔ سکھوں کے دور میں بھی جٹوں کا ذکر ملتا ہے لیکن راجپوتوں کا ذکر سرسر طور پر ملتا ہے۔ اس طرح یہاں کی روایات کہ ان کا جد اعلیٰ راجپوتانہ یا دکن سے آیا تھا وضعی ہیں۔
پنجاب میں جٹوں اور راجپوتوں کے درمیان میں فرق سماجی حثیت اور بڑی اکائی کا ہے۔ ورنہ بنیادی طور پر ایک ہی نسلی ماخذ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں ایسے قبائل ملتے ہیں جو کچھ پشت پہلے جاٹ کہلاتے تھے اب راجپوت ہیں۔ اگرچہ ان کی روایات و رسومات بنیادی طور پر ہندوانہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے یہاں کے لوگوں نے اسلام دس اور گیارویں کے درمیان میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ جس ذات کی اہمیت ختم تو نہیں کرسکا مگر کم ضرور کردی تھی۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ یہاں راجپوتوں کا ارتقا نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہاں برہمنوں کی بالادستی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ جب برہمنوں کی بالادستی نہیں ہے تو راجپوت کیے ;238; یہی وجہ ہے بڑے اور طاقت ور قبائل سیال، گونڈل، سلہریا، ٹوانہ وغیرہ کو عملاً راجپوت اور ان کی چھوٹی برادریاں جٹ کہلاتی ہیں۔ حتیٰ کوئی قبیلہ ایک جگہ راجپوت ہے تو دوسری جگہ وہ جٹ کہلاتا ہے۔
پنجاب کے راجپوت
ترمیمپنجاب کے راجپوتوں کی روایات جمنا کے پار راجپوتوں سے مختلف ہیں۔ وہاں جٹ اور راجپوتوں کی درجہ بندی کے قوانین یہاں سے مختلف ہیں۔ پنجاب میں جٹ اور راجپوت دونوں مشترکہ نسلی ماخذ رکھتے ہیں۔ مگر جن خاندانوں نے ترقی کی وہ راجپوت بن گئے اور ان کی اولادوں نے اسے برقرار رکھنے کے لیے روایات کے ان قوانین کی سختی سے پابندی کی جس کے تحت اعلیٰ و بالا ذاتیں خود کو نیچ و پست ذاتوں سے خود کو ممتاز رکھتی ہیں۔ ان میں کمتر سماجی رتبہ والوں سے شادی سے انکار، اپنے خون کا خالص پن محفوظ رکھتی ہیں۔ ان قوانین سے رد گرادنٰی کرنے والا سماجی رتبہ سے گرجاتا ہے اور وہ راجپوت نہیں رہتا ہے۔ جب کہ ایسے خاندان جنھوں سماجی قوانین پیروی کرکے وہ نہ صرف راجا بلکہ راجپوت یعنی راجوں کے پوت بن گئے۔
یہ سماجی برتری کا ارتقا جاری رہا اور انگریزوں کی آمد کے بعد بہت سے راجپوت قریشی، عباسی یا مغل نسل کا دعویٰ کرنے لگے۔ یہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کسی طرح سماجی تقدس اور سماجی رتبہ حاصل ہوجائے تو ان سماجی قوانین کی پیروی کرکے چند پیڑیوں میں کوئی بھی خاندان سید بن جاتا ہے۔
راجپوت قبائل
ترمیمیہاں ان قبیلوں کا مختصر ذکر کر رہے ہیں جو پنجاب کے علاقہ میں آباد ہیں اور کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ راجپوت ہیں یا ان کا دعویٰ تھا۔
اتیراس
ترمیمیہ صرف پٹیالہ میں ملتے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید آگہی نہیں ہو سکی۔
ڈوگر
ترمیمیہ چوہان کی نسل سے ہیں اور جٹ بھی ہیں۔ پنجاب، ہریانہ، راجستھان، کشمیر، اترپردیش میں آباد ہیں
کٹیسر
ترمیمیہ چوہان کی ایک شاخ ہے جو جنوبی پنجاب اور راجستھان میں آباد ہیں-
اپیسال
ترمیمیہ فتح جنگ کے علاقہ میں آباد ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ منج کی شاخ ہیں۔ ان کی رسومات اور شادیوں میں اب بھی ہندوانہ نقوش پائے جاتے ہیں۔
باگڑی
ترمیمیہ راجپوت کے علاوہ جاٹ بھی کہلاتے ہیں اور مشرقی پنجاب میں آباد ہیں۔
برگوجر
ترمیمیہ سورج بنسی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ رام کے لڑکے لو کی اولاد میں سے ہیں۔ دھوندھار اور راجوڑی میں ان کی ریاستیں تھیں۔ راج گڑھ اور الور بھی ان کے تصرف میں تھا۔ بعد میں کھچواہا قوم نے انھیں وہاں سے خارج کر دیا۔ یہ مشرقی پنجاب میں ملتے ہیں۔
باریہ
ترمیمان کا دعویٰ ہے کہ یہ سورج بنسی اور مہابھارت کے راجا کرن کی اولاد ہیں۔ انھیں جٹ بھی بتایا جاتا ہے۔
بھکر وال
ترمیمیہ راجپوت کہلاتے ہیں اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے ہیں۔ یہ راولپنڈی کے جنوب مشرقی حصہ میں آباد ہیں۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں۔
بدھال
ترمیمیہ بھی راجپوت کہلاتے ہیں اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے ہیں۔یہ راولپنڈی کے جنوب مشرقی حصہ میں آباد ہیں۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں۔ بھکر وال نام کا ایک چھوٹا سا قبیلہ بھاولپور میں بھی آ;230;باد ہے۔
سلہریا، سلہریہ یا سلاریہ
ترمیمیہ چندر بنسی ہیں اور اپنا سلسلہ نسب دیومالائی راجا سیگل کی اولاد میں چندر گپت سے ملاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دکن سے دہندہ فوجی دستے کے سپہ سلار کی حثیت سے آیا تھا کہ شیخا کھوکھر کی بغاور سرد کرے اور سیالکوٹ میں آباد ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہلول لودھی کے دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ یہ ماضی میں اپنی شادی کی رسومات کے لیے برہمن کی خدمات لیتے تھے۔
جاٹ اور راجپوت
ترمیمپاکستان خصوصی طور پر پنجاب میں ایک ہی جیسی یا ملتی جلتی گوتیں ہیں جن میں سے بعض کا تعلق جٹ اور بعض راجپوت ہیں اس کی بڑی وجہ تاریخ میں ان کے جد اور جگہوں کے وہ ملتے جلتے نام ہیں جن کی وجہ سے یہ وجود میں آئیں۔ ایک ہی جیسا نام رکھنے والی گوت کسی بھی ذات کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جیسے بھٹی جاٹ بھی ہیں اور بھٹی راجپوت۔
پنجاب میں مختلف بڑی ذاتیں ہیں جو پھر مزید چھوٹی گوتوں پھر مشتمل ہوتی ہیں جیسے جٹ، راجپوت، گجر، آرائیں، کنبوج وغیرہ
گجر، آرائیں اور بٹ جو ایک کشمیری قوم ہیں اپنی گوت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔
جٹ برادری میں اپنے نام کے ساتھ گوت لکھنا اسے فخر سمجھا جاتا ہے جیسے گوندل، میکن، رانجھا، وڑائچ، چیمہ وغیرہ
اسی طرح جب کوئی گوت بڑی ہو جائے تو اس میں سے دیگر گوتیں نکل آتی ہیں جیسے جٹ ذات میں گوندل جٹ سے گاڑے، سندرانے، بوسال وغیرہ یا میکن جٹ میں سے وجھ یا وجھی۔ اس بات کا انحصار کسی بھی علاقے میں ان کی آبادی اور دسترس پہ ہے۔
۔
بھٹہ
ترمیمیہ بھی چندر بنسی ہیں اور بھٹیوں کی ایک شاخ بتائے جاتے ہیں لیکن بعض جگہ انھیں نائی بھی تصور کیا جاتا ہے
پنوار
ترمیمپرمار یا پنوار کا تعلق اگنی کل سے ہے۔ پورس جس نے سکندر کا مقابلہ کیا تھا اس کا تعلق بھی پرمار سے تھا۔ اگرچہ یہ ایسے لڑاکے نہیں تھے جیسا کہ ظاہر کیا جاتا ہے، مگر ان کی سلطنت بہت وسیع رہی ہے۔ زمانہ قدیم سے ایک مثل مشہور ہے کہ دنیا پرمار کی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ یہ خاندان پرامر اگنی کل میں ابتر ہے اور یہ دولت و حشمت میں انہل وارا کے سولنکھیوں تک نہیں پہنچے اور نہ ہی وہ چوہان راجاؤں کی طرح مشہور ہوئے۔ لیکن ان کی ریاستوں کی نسبت زیادہ ان کی ریاستیں زیادہ وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کی حکومتیں میسر، دھار، منڈو، اوجین، چندر بھاگا، چتور، ابو چنرورتی، مءو، میدانہ، پرماتی، امرکوٹ، بھکر، لوور اور پٹن میں ان کی ریاستیں رہی ہیں یا انھوں فتح کیا تھا۔ پنجاب کے کئی راجپوت قبیلوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پنوار کی شاخ ہیں۔ یہ پنجاب اور زیرین سندھ میں بڑی تعداد میں ہیں
پھتیال
ترمیمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چندیل کی ایک شاخ ہیں۔ اس لیے راجپوتوں میں پست مانے جاتے ہیں۔ یہ بلاس پور کے علاقہ میں آباد ہیں۔
سلہریا، سلہریہ یا سلاریہ
ترمیمیہ چندر بنسی ہیں اور اپنا سلسلہ نسب دیومالائی راجا سیگل کی اولاد میں چندر گپت سے ملاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دکن سے دہندہ فوجی دستے کے سپہ سلار کی حثیت سے آیا تھا کہ شیخا کھوکھر کی بغاور سرد کرے اور سیالکوٹ میں آباد ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہلول لودھی کے دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ یہ ماضی میں اپنی شادی کی رسومات کے لیے برہمن کی خدمات لیتے تھے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کی تین بیویاں سلہریہ تھیں۔ جن میں سے ایک ستی ہو گئی تھی۔ پٹھانیہ
ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کانگڑہ کا شاہی خاندان کٹوچ کی شاخ ہیں اور پٹھان کوٹ آباد ہونے کی وجہ سے پٹھانیہ کہلاتے ہیں۔
پنڈیر
ترمیمیہ بھی مشرقی پنجاب میں آباد ہیں اور کہا جاتا ہے یہ دھیما کی شاخ ہیں جو راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہے۔
تنوار
ترمیمیہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں یہ شامل ہیں۔ یہ خاندان بھی یادو کی ایک شاخ ہے۔ اندرپست جو ویران پڑا تھا اسے اننگ پال توار نے آباد کیا تھا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور راجا بکرماجیت تھا۔ جس نے 65 ق م میں بکرمی سمیت کا سن جاری کیا تھا۔ اس خاندان کا آخری راجا بھی اننگ پال تھا، جس کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس لیے اس نے اپنے نواسے پڑتھوی راج چوہان کو تخت پر بیٹھایا تھا۔ پر;180;تھوی راج چوہان نے محمد غوری سے شکست کھائی تھی اور خود بھی مارا گیا۔
ٍباجوہ
ترمیمباجوہ یا بجو سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں۔ بجوات جو جموں و سیالکوٹ میں پہاڑیوں کے دامن علاقہ کا نام ان پر رکھا گیا ہے۔ ان کی روایات کے مطابق ان کا مورث اعلیٰ راجا شیٹپ کو سکندر لودھی کے دور میں ملتان سے بدخل کیا گیا تھا۔ اس کے دو بیٹے کلس لیس تھے۔ لیس جموں کی طرف نکل گیا اور ایک راجپوت لڑکی سے شادی کرلی۔ جب کہ کلس نے پسرور کی ایک جٹ لڑکی کو اپنی بیوی بنایا۔ ان دونوں کی اولادیں بجوات کے علاقہ میں آباد ہیں اور راجپوت اور جٹ کہلاتی ہیں۔ ایک کہانی کے مطابق انے مورث اعلیٰ رائے جہسن کو رائے پٹھورا نے دہلی سے نکالا تو وہ سیالکوٹ میں کربلا میں آباد ہو گیا۔ بجو راجپوت باجوہ جٹوں سے اپنا نسلی تعلق تسلیم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے بجو راجپوتوں میں سکھوں کے دور تک یہ رایات تھی کہ کسی مسلمان لڑکی کو شادی کے لیے ہندو کرنے کے لیے زیر زمین تہ خانہ میں بند کرکے اوپر ہل چلایا جاتا تھا۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ ان میں شادی ہندو و مسلمان دونوں آپس میں کرلیتے تھے۔ یہ زیادہ تر سیالکوٹ میں یا اس کے ارد گر علاقہ میں ہیں۔
بیئنس
ترمیمیہ زیادہ تر ہوشیار پور کے علاقہ میں ہیں۔ بینس راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں اور سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں۔ ان جٹ اور راجپوت دونوں ملتے ہیں۔
تارڑ
ترمیمتارڑ جو سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں۔ ان کی روایت ہے کہ ان کا جد اعلیٰ تارڑ بھٹز محمود غزنوی کی خدمت میں گیا اور اس کے ساتھ غزنی چلا گیا۔ جب کہ اس کا بیٹا لوہی بھٹز سے گوجرات چلا آیا۔ جہاں یہ قبیلہ تشکیل پایا اور تارڑ اسی لوہی کی اولاد ہیں۔ ایک اور کہانی کے مطابق ان کی آباد کاری ہمایوں کے وقت ہوئی تھی۔ وہ گوندل، وراءچ، گل اور دیگر قبیلوں میں شادی کرتے ہیں۔ وہ گوجرات، گوجرانوالہ اور شاپور میں ان کی زیادہ آبادی ہے۔ انھیں زراعت پیشہ لیکن شورش پسند بھی کہا گیا ہے۔ اس قبیلے کے نصف افراد راجپوت اور نصف خود کو جاٹ بتاتے ہیں۔
بھٹی
ترمیمبھٹیوں کی بڑی معروف گوت ہے راجا سالباہن کے پوتے راے تاہن م کی اولاد ہونے کے باعث تاونی بھٹی کہلائے۔ راجا تاہن جیسلمیر سے جالندھر آیا اور اس کے لڑکے راجا انبا نے کچھ علاقہ فتح کر کے خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنے نام پر انبالہ کا شہر بسا کر اس کو راجدھانی کا درجہ دیا تاون یا تاونی راجپوت ہیں اور ان کا سلسلہ راجا سلواہن سے شروع ہوتا ہے راجا سلواہن کا پوتا راجا تان ان کا مورث اعلیٰ ہے اور اس کی اولاد میں ایک راجا امبا بھی تھا جس نے انبالہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ۔
ٹوانہ
ترمیمشاپور کوہ نمک کے علاقہ میں ٹوانہ آباد ہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں ان کا اہم کردار ہے۔ ٹوانہ، گھیسا اور سیال ہم نسل اور پنوار راجپوت ماخذ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پہلے جہانگیرہ کے مقام پر آباد تھے۔ بعد میں شاپور تھل میں آباد ہو گئے۔ ٹوانوں نے سکھوں کا مطیع ہوجانے کے بعد بھی اپنی مزاحمت جاری رکھی۔
ٹھاکر
ترمیماس کا شمار کوہستان کانگرہ کی پست ذاتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر انھیں راجپوت تسلیم کیا جاتا ہے اور راجپوت ان کی لڑکیاں لے لیتے ہیں مگر اپنی لڑکیاں انھیں نہیں دیتے ہیں۔
جادو
ترمیمرگ وید میں یادو قبیلے کا ذکر آیا ہے۔ جس نے بھارت قبیلے اور اس کے حلیف ستجنی قبیلے کے خلاف ایک اتحاد بنایا تھا اور اس کے خلاف جنگ کی تھی اور یادو قبیلے کو شکست ہوئی۔ یادو کرشن کا خطاب ہے اور یادو کا مورث 1علیٰ کشن چند ہے۔ اب یہ بھٹی کہلاتے ہیں۔
جاٹو
ترمیمانھیں توار یا تنوار کی شاخ بتایا جاتا ہے اور مشرقی پنجاب میں آباد ہیں۔
جنجوعہ
ترمیمان کا مرکز مشرقی کوہستان نمک ہیں۔ لیکن وہ ملتان اور ڈیرہ جات میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ چندر بنسی ماخذ کے راجپوتوں کی شاخ ہیں۔ ان کی روایت ہے کہ وہ راجا مل کی اولاد ہیں جو 989ء;247; میں چودھ پور یا قنوج سے ہجرت کرکے آیا تھا۔ جس کا بیٹا جودا تھا۔ جنجوعہ کسی دور میں پورے کوہستان پر قابض تھے۔ لیکن قطب شاہی اعوانوں نے انھیں مغرب کی طرف دکھیل دیا تھا۔ اس خطہ میں ان کی سماجی حثیت گھگروں کے بعد ہے۔ انھیں راجا کہا جاتا ہے اور ان میں نسلی تقافر بہت زیادہ ہے۔
جودھرا
ترمیمجودرا یا جودھرا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جموں سے آئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق وہ ہندوستان سے آئے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے گھیسا ان کی شاخ ہیں۔
جسوال
ترمیمیہ ہوشیار پور کے زیریں کوہستانی علاقوں میں آباد ہیں اور کٹوچ سے ان کا تعلق بتایا جاتا ہے۔
جوئیہ
ترمیمیہ سندھ اور پنجاب کے جنوبی حصہ میں آباد ہیں اور مسلمان ہے۔ یہ جاٹ بھی کہلالتے ہیں۔
چدھڑ
ترمیمان کا کہنا ہے کہ وہ تنوار راجا تور کی نسل سے ہیں اور محمد غوری کے دور میں راجپوتانہ سے ہجرت کرکے بہاول پور آگئے تھے۔ جہاں اچ کے شیر محمد کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ بعد میں یہ جھنگ آگئے
چبھ
ترمیمیہ کانگڑہ کے کٹوچ راجپوتوں کی نسل کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مورث اعلیٰ چبھ نے پندرہ سو سال قبل کانگڑہ چھوڑا اور جموں میں بھمبر کے مقام پر آباد ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے اورنگ زیب کے دور میں سور سادی نے اسلام قبول کیا تھا۔ مسلمان چبھ اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور اس کے مزار پر بچے کی چندیا نظر کرتے تھے۔ اس رسم کی ادائیگی سے پہلے بچے کو حقیقی چبھ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس رسم کی ادائیگی سے پہلے اس کی ماں گوشت کھاتی تھی۔ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر کشمیر میں چبھال ان کے نام سے پڑا۔ جبھ اعلیٰ حثیت کا قبیلہ ہے۔ وہ جنجوعہ کی طرح راجا کا لقب استعمال کرتے ہیں۔ سادات اور گھگر ان کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔
چندیل
ترمیمیہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں۔ یہ قوم پست سمجھی جاتی ہے مشرقی پنجاب جمنا اور نربدا کے ارتصال پر آباد ہیں۔ چندیلا راجا نے ابوالفصل کو جہانگیر کے کہنے پر قتل کر دیا تھا، یہ مغلیہ لشکر میں کثیر تعداد میں ملازم تھے۔
چوہان
ترمیمچہومن یا چوہان یہ اگنی کل میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ یہ اگنی کل کیا تمام رجپوتوں میں بہادر اور شجاع ہیں۔ ان کی ریاست پہلے پہل اجمیر میں قائم ہوئی تھی۔ پرٹھوی راج چوہان اسی خاندان سے تھا۔ اس کا مقابلہ سلطان محمد غوری سے ہوا۔ پہلی جنگ میں اس نے سلطان کو شکست دی مگر یہ دوسری لڑائی میں اس نے سلطان محمد غوری سے شکست کھائی اور خود بھی مارا گیا۔ پنجاب میں بہت سے قبائل کا دعویٰ ہے وی چوہان کی شاخ ہیں
دھنیال
ترمیمیہ کوہ نمک کے رہنے والے ہیں اور چکوال میں دھنی انھیں کا نام ان کی نسبت سے پڑا۔ یہ ایک چندر بنسی راجپوت قبیلہ ہے اب وہ تحصیل راولپنڈی اورتحصیل مری کی پہاڑیوں پر آباد ہو گئے ہیں۔ یہ اپنے ناموں کے ساتھ آج بھی راجا لکھتے ہیں
ڈُھڈی
ترمیمیہ ایک چھوٹا سا جٹ قبیلہ ہے اور اس قبیلے کے لوگ راجستھان ہریانہ اترپردیش مدیاپردیش میں کثیر تعداد میں موجود یہ پنوار کی شاخ اور اچھے کاشت کار ہیں۔ یہ ستلج و چناب کے ساتھ بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا خاص مرکز میلسی کی تحصیل ہے۔یہ خود کو راجا کرن کے بیٹے راجا کامدیو کی اولاد تسلیم کرتے ہیں۔ڈھڈی کا تعلق سورج بنسی جٹ نسل سے ہے اور وڑاٸچ قبیلے کا جد امجد بھی ایک ڈھڈی جٹ تھا جو محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آیا تھا۔ حوالہ:سر لپن گریفین اپنی کتاب دی چیف آف پنجاب میں لکھتے ہیں۔ دوسرا حوالہ :ای ڈی میکلیگن اور ایچ اے روز اپنی کتاب ذاتوں کا انسیکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں۔
دودوال
ترمیمیہ تار پور کا قدیم خاندان ہے جو ہوشیار پور کے علاقہ میں سطح مرتفع کے شوالک کے راجپوت تھے اور اب بھی ہوشیار پور میں آباد ہیں۔
ڈھونڈ
ترمیمڈھونڈوں کو راجپوت تصور کیا جاتا تھا جو من گھڑت ہے اور درست نہیں۔ ڈھونڈ خالص عباسی قبیلہ ہے اور اس قبیلے کے لوگ بھی خود کو عباسی کہتے ہیں۔
ڈھونڈ عباسی شمالی پاکستان میں آباد خاندان عباسیہ کا ایک ذیلی قبیلہ ہے۔ عباسی خاندان کے جد امجد حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ابن عبد المطلب رضي الله تعالي عنه ہیں اور آپ کی اولاد کو "عباسی" کہا جاتا ہے۔ اسی خاندان عباسیہ نے عالم اسلام کی عظیم الشان سلطنت خلافت عباسیہ کی بنیاد رکھی جو 748ء سے 1258ء تک قریبا 510 سال تک قائم رہی جس کی حدود سندھ، پاکستان سے لے کر بشمول عرب ممالک، براعظم افریقہ کے آخری ملک مراکش تک پھیلی ہوئی تھی۔ عباسی خاندان نے قریبا 510 سال تک بغداد، عراق سے دنیا کے ایک وسیع و عریض رقبے پر خلافت کی ہے اور اس دور خلافت کو عالم اسلام کا سنہری دور خلافت کہا جاتا ہے۔ شمالی پاکستان میں آباد خاندان عباسیہ کا ڈھونڈ عباسی قبیلہ بنیادی طور پر ضلع ایبٹ آباد اور تحصیل مری اور اس کے ساتھ ساتھ تحصیل کہوٹہ اور صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں آباد ہیں۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے ضلع ہری پور اور مانسہرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایبٹ آباد اور مری کے علاوہ آزاد کشمیر کے ضلع باغ اور ضلع مظفرآباد میں ڈھونڈ عباسیوں کی بڑی آبادی آباد ہے۔یہ قبیلہ پہاڑی-پوٹھواری کی ڈھونڈی-کڑلالی پہاڑی بولی بولتا ہے۔ لفظ "ڈھونڈ" ایک اعزازی نام تھا جو ان کے آبا و اجداد میں سے ایک کو دیا گیا تھا۔[2]
ان کے آبا و اجداد سید غیاث الدین ضراب شاہ جنہیں سردار ضراب خان عباسی (998ء - 1070ء) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، غزنی سلطنت کے سلطان محمود غزنوی کے دور میں ہرات، غزنی افغانستان میں مسلح افواج کے گورنر جنرل اور کمانڈر تھے۔ وہ 1020ء میں محمود غزنوی کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باللہ (990ء سے 1031ء) کے دور خلافت میں اپنی جنگی مہم میں برصغیر آیا اور ریاست کشمیر پر حملہ کیا۔ جب ضراب خان اپنی فوج کے ساتھ کشمیر پہنچا تو کشمیر کا بادشاہ سالانہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوا اور اپنی بیٹی کی شادی بھی عباسی آرمی چیف سردار ضراب خان عباسی سے کر دی۔ اس نے کشمیر کے بادشاہ سے بڑی دولت اور زمینیں حاصل کیں اور عباسی خاندان کے سفیر کے طور پر ریاست کشمیر میں ہی آباد ہو گئے۔ ان کی قبر ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے گاؤں درانکوٹ میں ہے۔ سردار ضراب خان، طائف شاہ کا بیٹا تھا جو 974 سے 991 عیسوی تک حکومت کرنے والے عباسی خلیفہ الطائع لی امر اللہ کے دور میں خراسان میں ایک عباسی کمانڈر تھا۔ بعد میں اس نے خراسان میں سبگتیگین (محمود غزنوی کے والد) کے لشکر میں شمولیت اختیار کی۔
غیاث الدین ضراب شاہ المعروف سردار ضراب خان عباسی کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام غئی محمد اکبر تھا جسے سردار اکبر غئی خان عباسی بھی کہا جاتا ہے جس کی قبر بھی درانکوٹ، کہوٹہ میں ان کے والد کی قبر کے ساتھ ہے۔ سردار اکبر غئی خان عباسی کے پانچ بیٹے تھے جن کے نام کنور خان (کہوندر خان)، سردار خان (سراڑہ خان)، سالم خان، ثناء ولی خان (تناولی خان) اور مولم خان تھے جن سے ان کی نسل پھیلتی ہے۔ وہ ڈھونڈ عباسی، جسکم عباسی، گہیال عباسی، سراڑہ عباسی اور تنولی عباسی قبائل کے جد امجد تھے۔ کنور خان المعروف کہوندر خان کے تین بیٹے تھے جن کا نام فرادم خان، بہادر خان اور کالو خان (کالو رائے خان) تھا۔ فرادم خان جن کی اولاد راجوری، ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں آباد تھی اور بہادر خان جس کی نسل کثیر، ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کالو خان (1083ء تا 1150ء) مقبوضہ جموں کشمیر کے علاقے سے جھلہاڑی، پلندری پونچھ ، اب آزاد کشمیر چلا گیا، اس نے کشمیری بادشاہ راجا رستم رائے کی بیٹی سے شادی کی اور اس کا جانشین بنا۔ اسے "رائے" کا خطاب ملا تو کالو خان کا نام کالو رائے خان ہو گیا۔ دوسرا حوالہ کہتا ہے کہ اس نے کشمیر کے راجا دھنی رائے کی بیٹی سے شادی کی۔ مری، ہزارہ اور آزاد کشمیر کے ڈھونڈ عباسی، جسکم عباسی اور گیہال عباسی قبائل اپنے خاندان کی جڑیں کالو رائے خان (کالو خان) سے واپس کرتے ہیں۔ کالو خان کے بیٹے کا نام قدرت اللہ خان المعروف قوند خان تھا اور قدرت اللہ خان کا بیٹا نیک محمد خان المعروف نکودر خان ہوا اور نیک محمد خان کا دلیل محمد خان تھا اور دلیل محمد خان کا راسب خان تھا۔ راسب خان کے دو بیٹے تھے جن کے نام شاہ ولی خان عباسی المعروف ڈھونڈ خان اور باغ ولی خان عباسی المعروف بھاگ خان تھے۔ مری، ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کے ڈھونڈ عباسی اپنی جڑیں شاہ ولی خان عباسی (ڈھونڈ خان) سے واپس کرتے ہیں جب کہ آزاد کشمیر اور کہوٹہ کے گیہال اور جسکم عباسی اپنی جڑیں باغ ولی خان عباسی (بھاگ خان) سے واپس کرتے ہیں۔ یہ واقعہ 1836 عیسوی میں فارسی میں لکھی جانے والی مشہور تاریخ کی کتاب ضراب خان عباسی کے خاندانی شجرہ کے ساتھ مراۃ السلاطین جلد اول میں درج ہے۔ نیز خاندانی شجرہ نسب کے ساتھ ڈھونڈ عباسیوں کی مکمل تاریخ انساب ظفرآباد جونپور اعظم گڑھ ہند سن اشاعت 1800ء اور عباسیان ہند 1819ء میں مفتی نجم الدین ثمرقندی کی تحریر کردہ میں بیان ہیں۔ نیز بہت سے تاریخی حوالہ جات ڈھونڈ عباسیوں کے بارے میں 16ویں اور 17ویں صدی میں لکھی گئی کشمیر کی تاریخ کی پرانی کتابوں میں لکھے گئے ہیں۔
دھاریوال یا دھانیوال یا دھالیوال
ترمیمیہ اپنے بھٹی راجپوٹ بٹائے جاتے ہیں۔ ان کی روایت کے مطابق اکبر نے ان کے سردار مہر مٹھرا کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ یہ بالائی ستلج میں آبادی ہیں۔
رنگڑھ
ترمیمرنگڑھ/ رانگڑ راجپوتوں کی سپیشل فورس ہے
رنگڑھ کچھ مخصوص مسلمان راجپوت گوترا کا ایک مجموعہ ہے جس میں لگ بھگ 30 کے قریب گوتھ اور ذیلی گوتھ ہیں
کچھ مخصوص مسلمان راجپوتوں کو بہادری سے میدان جنگ میں لڑنے اور میدان جنگ سے پیچھے نا ہٹنے کی وجہ سے رنگڑھ کا خطاب ملا جس کا مطلب ہے میدان جنگ میں جم کر لڑنے والا
راوت
ترمیمیہ چنڈیلوں کی شاخ ہیں اور راجپوتوں میں انھیں پست مانا جاتا ہے۔ یہ بھی مشرقی پنجاب میں آباد ہے۔
راٹھور
ترمیمراٹھوروں کے شجر نسب میں یہ رام کے لڑکے کش کے اخلاف ہیں اور اس طرح یہ سورج بنسی ہیں۔ لیکن ان کے کبشر (نسب داں ) اس سے منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اگرچہ کش کے اخلاف نہیں ہیں، لیکن یہ کیوشت ہیں یعنی سورج بنسی اور یہ ویٹ (شیطان) کی لڑکی سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ قنوج پر حکمران تھے اور بعد میں پنے ایک راجا سوجی کی نسبت سوجی کہلائے۔ ان سا دلیر اور بہادر راجپوتوں میں کم ہی ہیں۔ مغلیہ لشکر میں پجاس ہزار راٹھور تھے۔ پنجاب میں یہ کم پائے جاتے ہیں۔
سیال
ترمیمپنجاب میں سیال ایک اہم قبیلہ ہے اور انھیں پنواروں کی شاخ بتایا جاتا ہے۔ انھوں نے ضلع جھنگ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا گیا اور ملتان اور بھیر بھی ان کے زیر تسلط رہا ہے۔ انھوں نے نول، منکن، مرل اور دیگر قبائل کو اس علاقہ سے بیدل کیا تھا۔ روایت کے مطابق سیال پنوار راجپوت کے رائے شنکر کی اولاد ہیں۔ جو الہ آباد فتح پور کے درمیان میں دارا نگر کا رہائشی تھا۔ قبل اس کے پنواروں کی ایک شاخ جونپور چلی گئی اور وہیں رائے شنکر پیدا ہوا۔ ایک کہانی یہ بھی کہتی ہے کہ رائے شنکر کے تین بیٹے سیو، ٹیسو اور گھیسو تھے۔ جن سے جھنگ کے سیالوں، شاپور کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیبوں کی نسل چلی ہے۔ ایک روایت کے مطابق رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا سیال تھا اور ٹوانوں اور گھیبوں کے مورثین شنکر اور سیال کے ہم جد رشتہ دار تھے۔ رائے شنکر کی موت کے بعد خاندان میں لڑائی جھگڑے پیدا ہو گئے اور اس کا بیٹا پنجاب ہجرت کر گیا۔ قریباً قریباً یہ وہی دور تھا جب کہ متعد راجپوت خاندان یعنی کھرلوں، ٹوانوٓں، گھیبو، چدھروں اور پنوار سیالوں کے اجداد نے ہندوستان کے صوبوں سے پنجاب ہجرت کی۔ ان دنوں بابا فرید کے ہاتھوں اسلام قبول کرنا ایک عام بات تھی۔ سیال پاک پٹن پہنچا تو بابا فرید کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا۔ بابا فرید نے اسے دعا دی اس کے بیٹے کی اولاد جہلم و چناب کے درمیانی علاقہ پر حکومت کرے گی۔ مگر یہ پیشنگوئی درست ثابت نہیں ہوئی۔ سیال اور اس کے ساتھی جہلم کے کنارے کچھ عرصہ رہنے کے بعد رچنا و جچ دو آبوں میں ادھر اوھر بھٹکتے رہے۔ اسی دوران میں اس نے ایک عورت بھٹی خان میکن کی بیٹی سہاگن سے شادی کی۔ روایت ہے اس نے سیالکوٹ میں ایک قلعہ بنایا تھا۔ بعد میں اس نے تھل اور منکیرہ اور دریائے جہلم کی درمیانی پٹی پر قبضہ کر لیا۔ یعنی خوشاب سے گڑھ مہاراجا تک۔
سیال ایک بڑا قبیلہ ہے اور ان کی روایت کے مطابق پانسو سالوں میں پھیل جاتا ممکن نہیں ہے۔ یہ اپنی ہجرت کا دور علاوَالدین خلجی کا بتاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب کہ علاقہ سخت متاثر تھا۔ یہاں خانہ جنگی تھی اور منگولوں کے حملے مسلسل جاری تھی۔ اس لیے یہاں بے امنی کا دور تھا۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سیالوں کے جد اعلیٰ نے یہاں ہجرت کی ہوگی۔ اس کی نسبت ہندو راجپوتوں کے راجپوتانہ کا علاقہ خاصہ محفوظ۔ جب کہ یہی دور یہاں کے بشتر راجپوتوں کا بتایا جاتا ہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔ یہ روایت اس لیے وضع کی گئی ہے کہ اپنا تعلق راجپوتوں سے ثابت کیا جائے۔ اصل میں پنوار اس علاقہ میں قدیم زمانے سے آباد ہیں۔ ان کا شمار راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں ہوتا ہے۔ مگر یہ بات اس علاقہ کے دوسرے خاندانوں کو معلوم نہیں تھی اس لیے وضع کی گئی ہے۔
ضلع جھنگ کا سارا جنوبی علاقہ سیالوں کا گڑھ ہے۔ چناب کے ساتھ ساتھ راوی سے اس کے ارتصال تک اور راوی و جہلم کے سنگموں کے درمیان میں بھی راوی کی ساری گزرگاہ کے کناروں پر آباد ہیں۔ بلکہ ساہی وال، جہلم سے شاپور اور گوجرات کے علاقہ اور ڈیرہ جات و مظفر گڑھ میں بھی پائے جاتے ہیں۔
برطانوی رپوٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیال مویشوں کے شوقین ہیں اور زراعت پر کم توجہ دیتے ہیں۔ کھرل اور کاٹھیا کی طرح ہندو تہواروں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کی عورتیں پردہ نہیں کرتی ہیں۔
راٹھی
ترمیمیہ تنوار راجپوتوں کی نسل سے ہونے کے دعویدار ہیں۔ جٹوں کا بھی ایک قبیلہ راٹھی ہے۔
رانجھا
ترمیمیہ جہلم اور چناب کے علاقہ میں، شاپور گجرات کے علاقے میں ملتے ہیں۔ ان کی اکثریت خود کو جٹ کہتی ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھٹی راجپوت ہیں۔ انھوں نے قریشی ماخذ کا دعویٰ کیا ہے اور خود کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹا جو کو غزنی میں فوت ہوا تھا کی اولاد بتاتے ہیں۔ تاہم ان میں ہندو روایات باقی ہیں۔
رگھ بنسی
ترمیمیہ پنجاب کے پہاڑی علاقوں کے دامن میں یعنی سیالکوٹ سے کانگڑہ تک ملتے ہیں اور ان میں سے بعض خود کو منہاس بتاتے ہیں۔
سومرو
ترمیمیہ بھی پرمار کی شاخ ہیں اور یہ پہلے تھر کے ریگستان میں آباد تھے۔ لیکن اب مسلمان ہیں اور انھوں نے سندھ پر حکومت کی۔ ان کی حکومت کو سمہ نے ختم کیا ہے۔ یہ سندھ اور پنجاب میں خاص کر بھاولپور کے علاقہ میں ملتے ہیں اور جٹ مشہور ہیں۔ سموں نے ان کا قتل عام کیا تھا اس کے سوگ میں ان کی عورتیں نتھلی نہیں پہنتی ہیں
ستی
ترمیمڈھونڈوں کا کہنا ہے کہ ان کے جد کھلورا کا ستی ناجائز بیٹا ہے۔ مگر ستی اس سے انکار کرتے ہیں اور وہ نوشیروان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سلہریہ
ترمیمیہ چندر بنسی ہیں اور اپنا سلسلہ نسب دیومالائی راجا سیگل کی اولاد میں چندر گپت سے ملاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دکن سے دہندہ فوجی دستے کے سپہ سلار کی حثیت سے آیا تھا کہ شیخا کھوکھر کی بغاور سرد کرے اور سیالکوٹ میں پسرور اور نارووال کے علاقوں میں آباد ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہلول لودھی کے دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ یہ ماضی میں اپنی شادی کی رسومات کے لیے برہمن کی خدمات لیتے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد ان میں بہت سے نامور صوفی بزرگ اور عالم دین گذرے ہیں۔ سلہریا قوم کے لوگ اکثر دوسری راجپوت قوموں میں رشتہ دیتے اور لیتے ہیں، اس کے علاؤہ اکثر جاٹ یا جٹ قبائل کے ساتھ بھی ان کی رشتہ داری دیکھی گئی ہے۔ اس قوم کا بہت بڑا حصہ آزاد کشمیر آباد ہے۔
غوریواہا
ترمیمگوریواہا یا گوریواہا یہ مشرقی پنجاب میں آباد ہیں اور مسلمان ہیں۔ یہ رام کے بیٹے کش کی اولاد بتاتے ہیں۔ اس طرح یہ سورج بنسی ہیں۔ ان کا کہنا ہے انھیں شہاب الدین غوری نے وسیع زمینیں دیں تھیں۔ یہ اس وقت ہندو تھے۔ ان کی ایک شاخ ہندو ہے۔
کھرل
ترمیماس قبیلے کے زیادہ تر افراد نے خود کو جاٹ بتاتے ہیں۔ یہ راوی کے بڑے قبیلوں میں سے ہے۔ ان میں بعض نے اپنا تعلق بھٹیوں سے بتایا ہے، کچھ کھرل اپنے کو پنوار راجپوت کہتے ہیں اور کچھ راجا کرن سے اپنا رشتہ جورتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مخدوم شاہ جہانیاں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ہے۔ ان کی جھنگ کے سیالوں کے شدید دشمنی رہی ہے۔ یہ فساد پسندی اور بلند ہمتی میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ان کا مشہور رہنما کھرل اور حلیف قبائل کا سربراہ تھا۔ وہ پانچ باغبانہ تحریکوں کا رہنما تھا۔ اسے 1857 میں کیپٹن بلیک کی قیادت میں مار دیا گیا۔ وہ راجپوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے کھیتی باڑی خود کرنے کی بجائے مزارع سے کرواتے ہیں۔ مگر یہ اپنی بیواؤں کی شادیاں کرتے ہیں۔ ان میں دیکھاوا بہت ہے اور ان کی بہت سی رسومات کا ماخذ ہندوانہ ہے۔ بٹہ یا بٹہ کھرل سرادر تھا اور سلطان محمد غوری کے دور میں پیر شیر شاہ سید جلال نے اسے مسلمان کیا تھا۔ کسی زمانے میں یہ دختر کشی کی روایت بھی تھی۔ ان کی ایک روایت پکی چھت کے نیچے نہیں سونے کی بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں حضرت سلیمان علیہ سلام نے پکی چھت کے نیچے سونے سے منع کیا ہے۔
کھروال
ترمیمیہ رالپنڈی کے پہاڑی علاقہ میں آباد ہیں اور جنجوعہ قبیلے میں راجا مل کی نسل سے ہونے کے داعی ہیں۔ یہ اپنی بیواؤں کو شادی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
کنیال
ترمیمیہ بھی رالپنڈی کے مشرقی حصہ میں آباد ہیں اور یہ بھی پہلے راجپوت کہلاتے تھے اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے تھے۔ مگر اب انھوں نے عباسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں۔
منہاس
ترمیمیہ سورج بنسی ہونے کا دعویدار ہے اور جموں کے ساتھ یعنی راولپنڈی سے گوروداس پور میں آباد ہیں۔ کشمیر کا ڈوگرا خاندان ان ہی کی نسل سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کے ایک فرد ملن ہنس نے زراعت شروع کردی اس لیے وہ اپنا رتبہ کھو دیا۔ ان کی بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ ان میں ان کا مورث اعلیٰ ایودھیا سے آیا تھا اور جموں کو فتح کرکے اسی نام کا ایک شہر بسایا تھا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے یہ سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ کچھ کا کہنا ہے پہلے یہ کشمیر گئے اور بعد میں سیالکوٹ آئے۔ کچھ منہاس مسلمان ہیں اور انھوں نے کپڑا بنے کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔
منج
ترمیمیہ جالندھر سے راولپنڈی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ خود کو بھٹی اور سیالکوٹ کے راجا سالو کے باپ راجا سلواہن کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے انھیں اچ کے مخدوم شاہ جہانیاں کے ہاتوں مسلمان ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایک ریاست مغلوں کے عہد زوال میں قائم کی تھی۔ جسے رنجیت سنگھ نے ختم کیا۔ کہا جاتا ہے منج ابھی تک کریوا (بیوہ کی شادی) کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
میکن
ترمیمیہ جٹوں کی گوت ہیں اور جٹ ہی جانے جاتے ہیں۔ ان کا جد امجد جاٹ دھودی والا سے تھا۔ یہ جٹ برادری کی وہ قوم ہے جس کے ذریعے بھٹی راجپوتوں نے ملتان کے گردونواع اور پنوار راجپوتوں نے تھل وسندھ پہ چڑھائی کی مگر وہ ان ہی کا ساتھ چھوڑنے کے بعد زیادہ دیر اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکے۔منکیرہ ریاست کی حکومت قائم کرنے میں میکن برادری کا ثانی نہیں مگر یہاں پر بھی بھٹی راجپوتوں نے میکن جٹ برادری کی کاوشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بلوچ قوم سے اتحاد کر لیا جس کے نتیجے میں جٹ میکن اکثریت ہندو سے سکھ ہو گئی اور ان کا اتحاد چھوڑتے ہی بلوچ قوم نے منکیرا پہ قبضہ کر لیا۔ میکن جٹوں نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے ساتھ مل کر دوبارہ 1821ء میں منکیرہ کو فتح کر لیا - تاریخ میں جٹ میکن برادری کی راجپوتوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ملتی مگر بھٹی راجپوتوں نے جٹ میکن برادری کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور ان کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے میکن راجپوت بھی کہلوانا شروع کر دیا مگر مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں راجا سنگھ وہ آخری حاکم تھا جسے جٹ میکن برادری کی بہادری نصیب ہوئی اور مہاراجا رنجیت کی موت کے بعد جٹ میکن برادری نے ریاست منکیرہ کو دوبارہ خیرآباد کہ دیا - پاکستان میں میکن جٹ برادری کی اکثریت سرگودھا اور منڈی بہاؤ الدین میں آباد اس کے علاوہ پاکستان کے دوسرے علاقوں اور صوبوں میں بھی موجود ہیں۔
نارو
ترمیمیہ غالباً منج کی شاخ ہیں، مگر ان میں سے بعض خود کو رگھ بنسی بتاتے ہیں اور بعض چندر بنسی بتاتے ہیں۔ ایک اور روایت جے پور یا چودھ پور کے راج کمار کی نسل سے بتاتے ہیں جس نے محمود غزنوی کے دور میں اسلام قبول کیا تھا۔
نے پال
ترمیمیہ بھٹی کی شاخ ہیں اس لیے چندر بنسی ہیں۔ انھیں جٹ بھی بتایا جاتا ہے۔ اس اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زراعت پیشہ ہیں اور بیواؤں کی شادی کرتے ہیں۔ یہ بھی زیادہ تر مشرقی پنجاب میں ملتے ہیں۔
ہراج
ترمیمیہ سیالوں کی شاخ ہیں اور چناب و راوی سنگم کے قریب راوی کے کناروں پر آباد ہیں۔
ورک
یہ جٹ بھی کہلاتے ہیں اور یہ اپنا مورث اعلیٰ ورک منہاس قبیلے سے تھا۔ جس کا تعلق جموں کے راجوں سے تھا۔ ان کے نام سے لاہور اور گوجرنوالہ کے علاقہ کا نام ورکیت پڑا ہے۔
وٹو
ترمیمیہ بھٹی کی شاخ ہیں اور راجا سلواہن کے ایک لڑکے جو بیکانیر میں رہتا تھا کی نسل سے ہیں۔ یہ پنجاب کے صحرائی علاقہ میں دریائے ستلج کے کناروں پر زیادہ تر آباد ہیں۔
پنجاب کے راجپوت مکمل ہوا۔ اگر پسند کریں تو پنجاب کے جاٹ کے بارے میں بھی لکھوں۔ جاٹوں میں بہت سی اقواموں کا دعویٰ ہے کہ وہ راجپوت یا راجپوتوں کی نسل سے ہیں۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں پنجاب میں راجپوتوں اور جٹوں کی تقسیم بہت الچھی ہوئی ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیم- پاکستان میں جٹ
- پاکستان میں راجپوت
ماخذ
ترمیمتزک بابر۔ طہیر الدین بابری
تاریخ راجستان۔ جیمز ٹاڈ
پنجاب کی ذاتیں۔ سر ڈیزل ایپسن
ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا۔ ای ڈی میکلین، ایچ روز
جاٹ۔ بی ایس ڈاھیا
تاریخ ہندوستان قدیم۔ وی اے اسمتھ