پھوٹی کوڑی
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔[1] دنیا کا پُرانا ترین سکہ یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔یہ پھوٹی کوڑی ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لیے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھوں گا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا. تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔ بطور کرنسی ان کی قیمت یہ تھی:
3 پھوٹی کوڑی = 1کوڑی
10 کوڑی = 1 دمڑی
02 دمڑى = 1.5پائى
05 پائى = 1 دهيلا
02 دهيلا = 1 پيسہ
06 پيسه = 1 آنہ
16 آنه = 1 روپيہ