چودھری برکت علی
وہ لاہور کی ایک معزز ارائیں فیملی میں 1902ء کو پیدا ہوئے، ،بجپن میں ہی ماں جیسی عظیم ہستی کی شفقت سے محروم ہو گئے، تاہم والد گرامی چودھری محمد بخش نے شجر سایہ دار بن کر پرورش و پرداخت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چودھری برکت علی نے پرائمری تک ابتدائی تعلیم کارپوریشن کے ٹاٹ اسکول میں حاصل کی ۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ سے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور پھر ایف۔سی کالج لاہور میں داخل ہو گئے۔ ایف۔اے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں چلے گئے ۔ زمانہ طالب علمی میں وہ ایک ذہین طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ فٹ بال اور ہاکی کے بہت نمایاں کھلاڑی بھی رہے ۔ گریجویشن کے بعد ہسٹری میں ایم۔اے کی تیاری کر رہے تھے کہ انگریز سامراج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک اور 'تحریک ترک موالات' شروع ہوئی ۔ رفتہ رفتہ ان تحریکوں نے خوب زور پکڑا اوریہ پورے ملک میں پھیل گئیں۔ چودھری برکت علی کے نہاں خانہ دل میں موجود جذبہ حریت نے ان تحریکوں کا ساتھ دینے پر انھیں اکسایا تو وہ وقت کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے خوشی خوشی آمادہ ہو گئے ۔ انھوں نے ایم اے (ہسٹری) کا امتحان دیے بغیر کالج چھوڑ دیا۔ یوں وہ ایم اے( ہسٹری) تو نہ کرسکے مگر تاریخ کا دھارا بدلنے میں ممدومعاون ضرور بنے۔۔۔۔۔! چودھری برکت علی کی چشم بصیرت افروز نے دیکھا اور طبع حساس نے محسوس کیا کہ ہر طرح کے کاروبار پر ہندو سامراج کا غلبہ ہے اور مسلمان من حیث القوم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے انھوں نے پبلشنگ کے شعبے کو چنا کہ کاغذ، قلم حرف و لفظ ہی زندہ رہنے والی چیزیں ہیں اور چھپے ہوئے زندہ لفظوں سے قوموں کی تقدیریں بدلتی رہی ہیں اور بدل سکتی ہیں۔ چنانچہ 1929ء میں انھوں نے مشہور زمانہ پنجاب بک ڈپو قائم کیا اور اس بک ڈپو سے درسی کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں وہ ہندو اور انگریز پبلشروں کے درمیان اس دور میں ایک بڑے مسلمان پبلشر کی حیثیت سے نمایاں ہوتے چلے گئے ۔ ان کے حسن کارکردگی نے لکھنے، پڑھنے والے اساتذہ اور اہل علم کا ہالہ ان کے گردا گرد بنا ڈالا اور وہ اچھی ، معیاری، نصابی کتابیں چھاپنے لگے ۔ انھوں نے اپنے کاروبار کو پورے بر صغیر میں روشناس کرایا۔ کئی سال تک دل جمعی سے "پنجاب بک ڈپو" کو پھولنے پھلنے کا موقع دینے ، مقام بلند تک پہنچانے کے بعد ان کی طبع رسا نے 'کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے' کے مصداق اپنی بات ، اپنے خیالات اور ترقی پسندانہ نظریات کو عام کرنے کے لیے ایک ادبی جریدے کے اجرا کا منصوبہ بنایا ۔ حکیم احمد شجاع نے ان کے منصوبے کو عملی طور پر مہمیز لگائی کہ جریدے کا نام "ادب لطیف" تجویز کر دیا اور پہلے مدیر کے طور پر اپنے بچوں کے اتالیق ، ایک اسکول ٹیچر، شاعر و ادیب طالب انصاری بدایونی کا تقرر کروا دیا ۔ یوں مارچ 1935ء میں طالب انصاری بدایونی کی ادارت میں ادب لطیف کا پہلا شمارہ 64 صفحات پر مشتمل منظر عام پر آیا۔ بہترین ادب(1950) کے نام سے ایک کتاب میرزا ادیب کے اشتراک سے مرتب کی، مکتبہ اردو اور مسلم ماڈل ہائی اسکول اردو بازار کی بھی بنیاد رکھی، کی صاحبزادی صدیقہ بیگم بھی اس کی مدیرہ رہیں 8 اگست 1952ء کو 50 سال کی عمر میں اس جہان فانی کو خیرباد کہا، لاہور میں سپرد خاک ہوئے، محمد خالد چودھری (بابائے اردو بازار لاہور) ان کے فرزند ہیں جنھوں نے 1960ء میں اپنا شاعتی ادارہ چودھری اکیڈمی کے نام سے قائم کیا،