چوٹی زیریں (انگریزی: Choti Zerine)


چوٹی زیریں
قصبہ and union council
سرکاری نام
ملکPakistan
پاکستان کی انتظامی تقسیمپنجاب، پاکستان
ضلعضلع ڈیرہ غازی خان
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)

چوٹی زیرین کی تاریخ اور اس کے مسائل

تحریر:

صبغہ حفیظ ماھی


چوٹی زیریں (انگریزی: Choti Zareen) پاکستان کا ایک پاکستان کی یونین کونسلیں جو ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے۔چوٹی زیرین ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ کا ایک قصبہ ہے جو تحصیل کوٹ چھٹہ سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ چوٹی زیرین پاکستان کی تاریخ میں ایک انفرادی اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان بننے سے پہلے یہاں مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والی قومیں آباد تھیں جن میں ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے ہندو اور انگریز قوم بھی آباد رہی۔ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے قوموں کی عبادت گاہیں بھی تھی جو اب وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی ہیں ۔


ہجرت پاکستان کے دوران غیر مسلم ہجرت کر کے بھارت چلے گئے تھے وہاں سے مسلم ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوئے ۔ جن میں قریشی اور لودھی سر فہرست ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی  پاک فوج جنگ 1965 کے دوران لودھی خاندان کے نوجوانوں نے بہت سی قربانیاں دیں ۔ اور کچھ جرت مندو نے دلیری سے مقابلہ کیا  جس میں عبد القدوس لودھی اور  اعجاز  لودھی شامل ہیں ان کی اچھی کارکردگی پر انھیں حکومت نے تمغا جرت سے نوازا ۔ یہ لودھی خاندان کے لیے فخر کا باعث ہے۔

                                             یہاں مختلف قومیں آباد ہونے کی وجہ سے ان کی مادری زبان بھی مختلف ہے جن میں سرائیکی ، بلوچی اور اردو شامل ہے ۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے سرائیکی بولتے ہیں ۔ یہاں زیادہ تر بلوچ قومیں آباد ہیں جن میں چنگوانی ، تمن کھوسہ ، برمانی، بزدار ،رمدانی ،قیصرانی ،ہجبانی چانڈیہ ،گبول وڈانی ،گورچانی ، لاشاری ،لغاری اور ہریانی آباد ہیں ۔

                                             یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر پیشہ کاشتکاری ہے ۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اگر ثقافت کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں کی ثقافت پرانی ہے ۔ یہاں کے لوگ آج بھی اپنی ثقافت کو قائم کیے ہوئے ہیں ۔ یہاں پر رہائش پزیر لوگوں کے مکان زیادہ تر کچے ہیں۔  اگر مکانات کی بات کی جائے تو یہاں پر بہت سے تاریخی مکانات بھی تھے جو اب حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے آہستہ آہستہ ختم ہو چکے ہیں ۔  چوٹی زیرین میں دو سو سال پرانا قبرستان آج بھی موجود ہے  ۔ اس میں میں کچھ قبریں موجود ہیں جو مقبرہ نما ہیں ان کی دیواروں پر فارسی اور عربی میں کچھ الفاظ کندہ کیے گئے ہیں ۔ قلعہ  ہندیرا کے نام پر ایک قلعہ بھی موجود ہے جس کی اب ساری دیواریں ٹوٹ چکی ہیں ۔ یہاں ایک امام بارگاہ ابو الفضل ہے سے چوٹی زیرین کے مشہور انجینر اور معمار قادر بخش چنگوانی نے نقشہ پیش کیا اور اس پر کام کیا ۔

                                             چوٹی زیرین کے لوگوں کا لباس سادہ ہے یہاں کے مرد حضرات گھیرے والی شلوار زیادہ پسند کرتے ہیں عورتیں زیادہ تر کرتا اور بلوچی  فراک پہنتی ہیں ۔ شادی بیاہ کے موقع پر خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ خوب رونقیں لگتی ہیں سب خاندان مل کر خوشی میں شریک ہوتے ہیں ۔ بلوچی جھومر کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ 11 اپریل کو عیدن لال کے نام سے (میلہ) بیساکھی منایا جاتا ہے ہر سال 2 مارچ کو بلوچ کلچر ڈے منایا جاتا ہے چوٹی زیرین میں اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے جس میں بلوچی چھاپ ،بلوچی شال کے سٹال  اور مشاعروں کا خاص اہتمام ہوتا ہے جہاں چوٹی زیرین سے تعلق رکھنے والے مختلف شعرا شرکت کرتے ہیں ۔ بلوچی میوزک شو بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔

                                              اگر ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے بڑا نام شفقت حسین جو شاعر ہیں جن کا قلمی نام عشرت لغاری ہے ان کی شاعری کو علاقے میں بہت پسند کیا جاتا ہے ۔  چوٹی زیرین کی زمین میں ایسے بہت سے شاعر ادیب صحافی اور مصنف پیدا ہوئے ہیں ۔

                                             اگر تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں 40 سال پہلے تعلیم کا کوئی رجحان نہیں تھا ۔ زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا عیب سمجھتے تھے ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا  پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ یہاں تعلیمی نظام کو فروغ ملا ۔  1924 میں بستی برمانی میں پہلے پرائمری اسکول کا افتتاح کیا گیا ۔ یہاں تقریباً پچاس  کے قریب مڈل اور پرائمری اسکول ہیں ۔ دو ہائی اسکول  ہیں ۔ یکم ستمبر 1999 کو سرکٹ ہاؤس کی عمارت کو گورنمنٹ کالج برائے خواتین  کا درجہ دیا گیا۔ کالج کا کل احاطہ 12 کینال 4 مرلہ پر مشتمل ہے۔شروع شروع  میں بے حد مشکلات تھی سہولیات کا فقدان تھا ۔ لیکن یہاں کی پرنسپل میڈم ساجدہ یاسمین ہما گورمانی نے اپنی ذاتی کاوش اور شبانہ روز کی محنت سے نا صرف لوگوں کو ان کے گھر جاکر بچیوں کو آگے پڑھانے کے لیے قائل کیا بلکہ ان کی محنت شاقہ سے ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ۔ ان کی بے حد کاوشوں کی وجہ سے جہالت کا خاتمہ ہوا ۔

                                           اس طرح 8 مارچ 2011  کو گورنمنٹ بوائز کالج کا افتتاح ہوا ۔ اس کا کل احاطہ اکاسی کنیال ہے اور گیارہ مرلہ ہے   ۔ ان اداروں کی وجہ سے چوٹی زیرین میں تعلیم کو فروغ ملا ۔ آج ہمارا پوتھ طبقہ بہت عہدوں پر فائز ہے۔

                                             صحت کے شعبے کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں کا صحت کا شعبہ انتہائی ناقص کارکردگی  ادا کر رہا ہے ۔ اس قصبے میں دو گورنمنٹ  ہسپتال ہیں ۔ جن کا عملہ انتہائی ناقص کارکردگی ادا کررہا ہے ۔  یہاں کے گورنمنٹ ڈاکٹروں نے اپنے نجی ہسپتال کھول رکھے ہیں یہاں کی سادہ لوگوں کو لوٹا جارہا ہے ۔ اکثر طبقہ اس حد تک جہالت کا شکار ہے زچہ بچہ کو ہسپتال لانے کی بجائے گھر میں دیسی علاج کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات موت واقع ہوجاتی ہے۔

                                             اگر سیاست کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں کی سرزمین پر بڑے بڑے سیاست دانوں نے جنم لیا ۔ جن میں پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری (مرحوم)  کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

                                             اب ہم چوٹی زیرین کے مسائل کی طرف بڑھتے ہیں  یہاں کے لوگوں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہاں کا زیر زمین پانی بہت نمکین ہے  جس سے بہت سی بیماریوں نے جنم لیا جس میں ہیپٹائٹس کی بیماری عام ہے ، یہاں کوئی بڑی ہسپتال نہیں کسی بھی ایکسیڈینٹ یا کوئی بھی بڑی بیماری کا علاج ممکن ہو سکے ۔ ایکسیڈینٹ کی صورت میں اکثر ہسپتال میں سہولیات نا ہونے کی وجہ سے اموات واقع ہو جاتی ہیں ۔ چوٹی زیرین ایک بہت بڑا قصبہ ہے اسے تحصیل کا درجہ دیا ۔ تاکہ بہت سے مسائل حل کیے جاسکیں ۔ ایک نادرا آفس بنایا جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کو دور نا جان پڑت اور آنے والی مشکلات سے بچ جائیں ۔ یہاں ایک پارک اور کھیلوں کے لیے سٹڈیم بنایا جائے تاکہ یہاں کی یوتھ کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع مل سکے ۔ یہاں کے سیاست دانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے یہ قصبہ پسماندگی کا شکار ہے ۔ یہاں کے سیاست دان یہاں کی عوام کو جھوٹے لارے لگا کے ووٹ حاصل کرتے ہیں اس کے بعد بھاگ جاتے ہیں ۔   حکومت کو نوٹس لینا چاہیے اور اس کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے۔

                                             یہاں کی عوام کو اب ذہنی غلامی سے نکلنا ہوگا ۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایسے بے ضمیر اور جھوٹے سیاست دانوں کے خلاف جنگ کرنی ہوگی جب تک ہم اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑے گے ہماری  آنے والی نسلیں محفوظ نہیں ہیں ۔


                                            "

                                           

                                           

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم