چینگ بین ہوا دوسری جنگ عظیم میں جاپانی حملہ آوروں سے اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان نچھاور کرنے والی چینی چینی خاتون تھی۔ وہ ایک ملکی دفاعی گروہ کی صدر تھیں۔ جاپانی حملہ آور فوجوں نے جب چینگ بین ہوا کو اپنے قبضے میں لیا، تب ان کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔ چینگ بین ہوا کی جاپانی فوجیوں کی جانب سے اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔ اس کے علاوہ انھیں بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ تاہم وہ ہر ستم پر مسکراتی رہیں۔ ان کی یہ تصاویر جدید دور میں بھی نامساعد حالات میں نسوانی طاقت اور بے لوث وطن کی محبت کی علامت بن چکی ہیں۔ انھیں جاسوس شہزادی (Spy princess) بھی کہا گیا ہے۔[1] چینگ بین ہوا اگر چیکہ کہ وفات پا گئی، مگر ان کی قربانی جاپانی استعماریت کے خلاف چین میں مزاحمت کو زبر دست ہمت اور طافت فراہم کر گئی تھی۔ جاپانی مسلح افواج اس واقعے اور کسی طرح کے کئی کوریائی زمین پر کیے گئے مظالم، یہاں تک کے انسانی جسم کو کھا جانے تک کہ واقعات کی وجہ سے دنیا کی تاریخ کافی بد نام ہوئے ہیں۔

چینگ بین ہوا
معلومات شخصیت

یاد گار قربانی ترمیم

جب سنہ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا تو چینگ بین ہوا مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھیں۔ ان کو اولًا اجتماعی عصمت دری کے ذریعے سزا دی گئی۔ جب ان کا مسکرانا اور ملک سے دفا دارانہ رویہ اور حملہ آوری سے مزاحمت کا جذبہ کم نہیں ہوا، تب تیز دھار والا ہتھیار گھونپ کر ہلاک کر انھیں ہلال کیا گیا۔ اپنی موت سے چند لمحات پہلے کی ان کی تصویر چینیوں کی جانب سے بے خوف مزاحمت کی علامت بن گئی۔[2] وہ کافی اذیت اور عصمت دری اور نیر یقینی موت کے باوجود ہنستی رہیں۔ اس طرح سے وہ عورتوں کی بہادری، دلیری، وطن سے محبت اور غیر معمولی مثال گئی۔ ان مسکرانی تصویر آج بھی چینی اور دوسری جنگ عظیم کے مؤرخ مثالی یاد گار کے طور پر رکھتے ہیں۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم