عالمی جنگوں میں خواتین
عالمی جنگوں میں خواتین (انگریزی: Women in the World Wars) ہر جدید جنگ کی طرح مختلف نوعیتوں میں منقسم کردار کی حامل رہی ہیں۔ اس دور کی بیش تر خواتین اس دور کے بیش تر مردوں کی طرح غیر ارادی اور جبری طور پر متاثر رہی ہیں۔ کچھ خواتین غیر متحارب مردوں کی طرح قتل ہوئیں، کچھ اپاہج ہوئیں تو کچھ کئی دیگر مسائل سے دوچار ہوئیں، جس میں املاک کی تباہی یا کسی قریبی رشتے کا ہلاک ہونا شامل ہے۔ مگر ایسی خواتین کا بھی تاریخ کے ابواب میں ریکارڈ موجود ہے جو راست طور پر جنگ سے جڑے تھے۔ جو یا تو مسلح افواج کا حصہ رہے یا کسی معاونت کا کردار نبھا رہی تھیں یا پھر جاسوسی سے جڑی تھیں۔ ان خواتین میں چینگ بین ہوا، نور عنایت خان اور لیوڈمیلا پاولیچینکو شامل رہیں۔[1]
چند نامور خواتین
ترمیم- پہلی عالمی جنگ کے دوران ایڈی ڈبلیو ہنٹن، کیتھرین ایم جانسن اور ہیلن کرٹس ہی صرف ایسی تین خواتین ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو علم ہے کہ وہ اس گروپ کا حصہ رہی ہیں جس نے فرانس میں جنگ کے دوران اِن فوجیوں کی اس وقت مدد کی جب جنگ زوروں پر تھی۔ تاہم ان کے علاوہ ینگ مینز کرسچیئن ایسوسی ایشن کی 23 سیاہ فام عورتوں نے فرانس میں تعینات دو لاکھ افریقی نژاد امریکی فوجیوں کا ہاتھ بٹایا۔[2]
- جب سنہ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا تو چینگ بین ہوا مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھیں۔ ان کو تیز دھار والا ہتھیار گھونپ کر ہلاک کرنے سے چند لمحات پہلے کی ان کی تصویر چینیوں کی جانب سے بے خوف مزاحمت کی علامت بن گئی۔
- برطانیہ کی جاسوسہ نور عنایت خان اٹھاویں صدی میں میسور کے مسلمان حکمران ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھیں۔ ان کے والد ہندوستانی جبکہ والدہ امریکی تھیں۔ وہ ماسکو میں پیدا ہوئیں اور پیرس میں تعلیم حاصل کی۔ انھیں نازیوں نے بے رحمی سے ہلاک کر دیا تھا۔
- سنہ 1941ء میں نازی جرمنی کے سویت یونین پر حملے کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران لیوڈمیلا پاولیچینکو نے مصدقہ طور پر 309 جرمن فوجیوں کو نشانہ لگا کر ہلاک کیا۔[3]