چین میں افیون کی تاریخ تقریباً ساتویں صدی عیسوی میں بطور علاج کے ملتی ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں افیون کا استعمال چین کے جنوب مشرقی صوبوں میں تمباکو اور حقہ نوشی کے ہمراہ ہوتا تھا۔[1] افیون طویل زمانے تک چین کی علامت یا پہچان رہی ہے۔ افیون چین سے بیرونی ممالک کو بطور تجارت کے فروخت کی جاتی رہی ہے جبکہ 1729ء میں 200 بڑے صندوقوں سے افیون کو بطور تجارت کے چین سے باہر فروخت کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔[1] حتیٰ کہ افیون مخالف قوانین وجود میں آنے سے یہ تجارت اور کاروبار ختم ہوا۔[2] انیسویں صدی میں چینی کے اندرونی اور داخلی معاملات پر سیاست دگرگوں رہی لیکن اِس دوران افیون کی معیشت اپنے عروج پر تھی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں افیون کی زیادہ سے زیادہ درآمد کی جاتی رہی۔ 1911ء میں جب چنگ خاندان کو زوال آیا تو افیون کی گھریلوپیداوار میں شدت سے اضافہ ہوا حالانکہ برٹش راج کے زمانے میں انگریزوں اور چینیوں کے مابین افیون کو معاملے پر افیونی جنگیں ہو چکی تھیں۔

1650ء سے 1880ء تک چین سے افیون کی برآمد کا گراف

ابتدائی تاریخ

ترمیم
 
1880ء میں افیون کے نشئی

چین کی ابتدائی کتب ہائے تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ چین میں افیون تانگ خاندان کے عہد میں یعنی (618ء907ء) کے وسطی زمانے میں لائی گئی اور یہاں اِس کی باقاعدہ کاشت شروع ہوئی۔ غالباً قیاس کیا جاتا ہے کہ چین میں افیون کی آمد عرب تاجروں کے ہمراہ ہوئی جو چین میں بسلسلۂ تجارت آتے رہتے تھے۔ بعد ازاں سونگ خاندان کے عہد یعنی (960ء1279ء) میں شاعر سو دونگپو کی شاعری میں افیون بطور دوا کے ملتی ہے۔ منگ خاندان کے زمانہ یعنی (1368ء1644ء) میں افیون بطور نشے کے استعمال کی جانے لگی اور اِسی دور میں افیون کے عادی لوگ چین کی آبادیوں میں بکثرت پھیلتے گئے۔

 
1908ء میں چین میں افیون کی کاشت کے علاقے


پندرہویں صدی کے بعد

ترمیم

سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی اور اِسی کے ساتھ وہ چین بھی آنے لگے۔ پرتگالیوں نے بھی چین سے افیون بطور دوا کے خریدنا جاری رکھی حتیٰ کہ 1729ء میں شہنشاہ یونگ چینگ نے افیون کو بطور نشے کے استعمال پر پابندی عائد کردی اور یہ پابندی تمام سلطنت میں عائد کی گئی تھی۔

  1. ^ ا ب Ebrey 2010, p. 236.
  2. Greenberg 1969, pp. 108, 110 citing Edkins, Owen, Morse, International Relations.