برہنہ شادی (چینی: 裸婚)، ایک نیا تصور ہے جو انٹرنیٹ سے 2008ء میں رائج ہوا، یہ جدید طور بے حد مقبول ہو رہی شادی کی قسم ہے۔ یہ خاص طور چین کی اس آبادی میں بے حد مقبول ہے جو 1980ء کے بعد پیدا ہوئی۔[1] برہنہ شادیوں میں محبت میں گرفتار دو جوان لوگ کسی بھی ٹھوس بنیاد کے بغیر متحد ہو جاتے ہیں۔ اس کی عام خصوصیات میں "نہ گھر"، "نہ کار"، "نہ انگوٹھی" اور "نہ تقریب" شامل ہیں۔ اسے عمومًا شادی کا ایک کفایتی طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے جو چین میں معاشی تنگی کے دور میں انجام پا رہا ہے جسے چین کی جواں سال نسل جھیل رہی ہے۔

وجوہ

ترمیم

سماجی دباؤ

ترمیم

عالمی مالی بحران کے زیر اثر، برہنہ شادیوں کی مقبولیت چین میں 2008ء سے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گذر بسر کے بھاری اخراجات اور شدید ملازمتی مسابقت کی وجہ سے یہ مشکل ہے کہ یہ لوگ جو 1980ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں، ایک کار خرید سکیں، گھر بنائیں یا جمع پونجی رکھ سکیں۔ ان میں اکثریت برہنہ شادی کو قبول کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ شماریات سے پتہ چلتا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے والے جوان لوگ کار یا گھر نہیں خرید سکتے۔[2] آسمان چھوتے گھر کے اخراجات انھیں بے بس میں ناچار بنا چکے ہیں۔ اس وجہ سے وہ برہنہ شادی کو اختیار کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

خالص محبت کی تلاش

ترمیم

روایتی طور شادی مادی ملکیتوں کی اساس رکھتی ہے۔ تاہم کچھ جوان جورے برہنہ شادی ہی کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ وہ خالص محبت کی تلاش کر رہے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس دور کی شادی میں ایک اہم عنصر ہے۔[3] ان کے نقطہ نظر سے جہاں دنیا میں مادی کشش سے بھری ہے، وہاں جوڑاسازی میں معاشی سوچ کا خالص محبت کی بجائے شامل ہونا ایک غلطی ہے۔ ان کے فلسفہ محبت میں خالص محبت ہی وقت کی آزمائش سے گذر سکتی ہے اور کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ خالص محبت کے لیے اپنے دعوے کو جوشیلے انداز میں پیش کرنے کے لیے یہ لوگ دکھاوے کی شادی کے لوازمات سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، جس سے برہنہ شادی کو فروغ ملا ہے۔ خالص محبت کے ان طاقتور نعروں کے بیچ کئی لوگ اس رائے کو محص اصولی قرار دیتے ہیں اور شادی کے روایتی دھوم دھام کو ترک کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔[4][5]

خودشناسی میں اضافہ

ترمیم

برہنہ شادی کو چین کی جواں سال نسل کی باغیانہ فطرت کی محبت کے موضوع پر اختیارکردہ رویہ قرار دیا گیا ہے۔ خودشناسی میں اضافے کے ساتھ ساتھ جوان چینی خود کو منفرد اور آزاد سمجھتے ہیں جو اپنی شخصی ترجیحات رکھتے ہیں۔[6] ازدواجی شکل کے طور پر ان کی پسندیدگیاں شدید اندرونی سوچ کے تابع ہیں جو خارجی حدبندیوں کے دباؤ کے زیر اثر ہے اور ان کا جھکاؤ آزادانہ روش پر ہے۔ اس مادہ پرستانہ سماج میں یہ ممکن ہے کہ جمہور متوازن معاشی حالت کو شادی کا ایک کلیدی امر تسلیم کریں۔ تاہم جوان لوگ رفتہ رفتہ یہ نتیجے پر بھی پہنچتے ہیں کہ اپنی سوچ پر قائم رہنے سے خوش حال ازدواجی زندگی بھی قائم ہو سکتی ہے۔ کسی اپارٹمنٹ، کار یا پرتعیش شادی کے فقدان کے بغیر بھی وہ یہ یقین کرتے ہیں کہ جو بات حقیقی طور پر معنے رکھتی ہے وہ پرعزم طریقے سے اپنے دل کی پیروی کریں بجائے اس کے کہ سماجی کی دنیاوی اقدار کو اپنائیں۔ چائنا ڈیلی کی تحقیق کے مطابق اس سوچ کی مخالف آوازیں سماجی ذمے داریوں پر توجہ دینے کے پر زور دیتی ہیں اور پرزور طریقے سے اس خود پر مرکوز شعور کی کمی پر مبنی رویے کی مذمت کرتی ہیں۔[4]

اثرات

ترمیم

شادی میں مساوات

ترمیم

آدمیوں کو پہلے "صدر خاندان" سمجھا جاتا تھا اور خاندان پر انھیں استثنائی اختیارات حاصل تھے۔[7] سماجی تنازع[8] کے نظریے کے مطابق خاندانوں میں پدرسری معاشی درجہ بندی سے شروع ہوتی ہے۔ جائداد کے مالکین کو ایک یقینی فائدہ حاصل رہتا ہے[9] اور مردوں میں ایک قوی امکان ہے کہ وہ اونچی کمائی رکھتے ہیں، لہٰذا خاندان میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ چین کی کم عمر نسل میں، جوڑوں کے درمیان یکساں موقف ہونے کا امکان ہے اور ساتھ مل کر بہتر زندگی کی کوششش کرتے ہیں۔ یہ سمجھ برہنہ شادی کی سوچ کو دعوت دیتے ہیں، جس میں جوڑے نزاعی موضوعات پر وہی مقام اور فیصلہ سازی کے موقف پر ہوتے ہیں جیسے کہ خانہ داری کے فیصلے اور زیرقبضہ سامان کی تقسیم کے معاملے میں۔ اس وجہ سے وہ شادی میں حقیقی مساوی مقام پر فائز ہو جاتے ہیں۔ جیساکہ برہنہ شادی کے حامی دعوٰی کرتے ہیں، یہ زندگی کے دونوں ساتھیوں کی کوشش کا نتیجہ ہے جو شادی کا سب سے قیمتی عنصر ہے۔[10]

روایات سے تصادم

ترمیم

روایتی شادی کے لوازم سے محرومی کی وجہ سے برہنہ شادی تسلیم شدہ چینی شادی کی عین ضد ہے۔ روایتی اقدار میں ایک جوڑا صرف تبھی شادی کر سکتا ہے جب معاشی شرائط پورے ہوتے ہیں۔[11] لفظ "جہیز"(چینی: 彩禮、聘禮) کا ایجاد ہی دولہے کے گھر سے دلہن کے گھر پہنچنے والے تحائف کے لیے ہوتا ہے، جو ایک آدمی کی بیوی کو خوش حال زندگی دے سکنے کی علامت ہے۔[12] چین میں چہیز کی منتقلی شادی کے طریقے کے لیے ایک ناگزیر لازمے کے طور پر ابھری ہے۔[13] اس منتقلی کے بغیر برہنہ شادی واضح طور روایتی اقدار سے متصادم ہے۔

شادی کے اقدار کے اس فقدان سے خاندان میں بے امنی کا امکان ہے۔ کئی والدین برہنہ شادی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ معاشی بنیاد کی عدم موجودگی ہے۔ جب کہ چین کی جوان نسل ایک مختلف سوچ رکھتی ہے۔ اس تنازع سے خاندان میں تنازع، تصادم یا علیحدگی بھی ممکن ہے۔

جدید زمانے میں پرانے خیالات مسلسل تنازع میں ہیں۔ ماہرین کا دعوٰی ہے کہ اگر روایات اب بھی زیادہ تر چینیوں کے من میں غیر متزلزل ہیں، یہ تو طے ہے کہ برہنہ شادی کی وسیع تر قبولیت کی وجہ سے چین کی جوان نسل زیادہ سے زیادہ کھلے دماغ والی بنتی جا رہی ہے۔[10]

امکانی مسائل

ترمیم

چینی روایات میں محبت اور روٹی (یعنی روزگار) شادی کے لیے مبادیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ جوان جورے جو برہنہ شادی کا انتخاب کرتے ہیں، وہ ماورائے دنیا لگتے ہیں کیونکہ وہ محبت میں سختی سے ایقان رکھتے ہیں، جو روحانی سکون کا باعث ہے نہ کہ حقیقی معنوں کچھ اہمیت رکھتا ہے۔[14] جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، جھگڑے شروع ہوتے ہیں، تناؤ جمع ہو سکتا ہے اور یہ جوڑے محبت کی گہرائی میں اچانک گراوٹ محسوس کر سکتے ہیں۔ جیساکہ قدیم چین کے شاعر یوآن ژین (چینی: 元稹) نے بجا طور پر کہا ہے، "سب کچھ غریب زوجین (چینی: 貧賤夫妻百事哀) کے کیے غلط سو پر گامزن ہوتا ہے"، ان کے کم زور مادی وسائل مسائل کو اور پیچیدہ کر سکتے ہیں، جس سے زوجین کے بیچ تنازعات گہرے ہو سکتے ہیں۔ نتیجتًاان کی شادی کم زور ہو سکتی ہے یا کم وقت کے لیے ہو سکتی، جس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔[15] اصولی برتری کے باوجود شادیوں کے ٹوٹنے سے کئی شبہات اور مباحث شروع ہوئے ہیں کہ برہنہ شادی کہاں تک پائیدار رہ سکتی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Naked Marriage (裸婚 luǒ hūn), Flash Marriage (闪婚 shǎn hūn)"۔ womenofchina.cn۔ 2013-09-22۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اکتوبر 2017 
  2. ""80后"跨入30岁门槛 生活工作怎么样?"۔ 新华网۔ 2010-01-01۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اکتوبر 2017 
  3. John Gillingham (1989)۔ "Love, marriage and politics in the twelfth century"۔ Forum for Modern Language Studies۔ 25 (4): 292–303۔ doi:10.1093/fmls/XXV.4.292 
  4. ^ ا ب "Will you choose a 'naked' marriage?"۔ China Daily۔ 2014-08-12۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اکتوبر 2017 
  5. "No frills? Chinese say "I do" to creative and cheaper wedding."۔ CNN۔ 2015-06-15۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اکتوبر 2017 
  6. Jennifer H. Pfeifer، Shannon J. Peake (2012)۔ "Self-development: integrating cognitive, socioemotional, and neuroimaging perspectives."۔ Developmental Cognitive Neuroscience۔ 2 (1): 55–69۔ doi:10.1016/j.dcn.2011.07.012 
  7. Alicia S.M. Leung (2003)۔ "Feminism in transition: Chinese culture, ideology and the development of the women's movement in China."۔ Asia Pacific Journal of Management۔ 20 (3): 359–374۔ doi:10.1023/A:1024049516797 
  8. Max Weber (1978)۔ Economy and society: An outline of interpretive sociology.۔ California: University of California Press.۔ ISBN 9780520035003 
  9. Timothy Shortell۔ "Weber's Theory of Social Class"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2015 
  10. ^ ا ب ""Naked Marriage" challenges Chinese marriage traditions"۔ People's Daily online۔ 2011-08-07۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2017 
  11. 史凤仪 (1987)۔ 中国古代婚姻与家庭۔ 石家庄: 河北人民出版社۔ ISBN 7216001001 
  12. "Ancient Chinese Marriage Custom"۔ travelchinaguide.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2015 
  13. 汪玢玲 (2001)۔ 中国婚姻史۔ 上海: 上海人民出版社۔ ISBN 7208035369 
  14. Raymond Lee Muncy (1988)۔ "Sex and marriage in utopia"۔ Society۔ 25 (2): 46–48۔ doi:10.1007/BF02695625 
  15. Lei-Lei Chang، Feng-Juan Wang (2011)۔ "关于"80"后裸婚现象的社会学思考"۔ Journal of Northwest A&F University(Social Science Edition)۔ 11 (4): 161–165