ڈارونیت (Darwinism) سے مراد چارلس ڈارون کی عقل اور اعتقادات سے پیدا ہونے والے ان نظریات سے لی جاتی ہے کہ جن کے ذریعے زندگی کے ارتقاء اور اس ارتقا کے سلسلے میں ہونے والے فطری انتخاب کی انسانی رسائی عقل کے مطابق توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ گو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ڈارونیت میں اکثر بحث کو ارتقا بہ وسیلہء فطری انتخاب پر مرکوز رکھا جاتا ہے، یعنی بہ الفاظ دیگر فطرت کو خالق کے درجہ پر پہنچادیا جاتا ہے، لیکن نیچے کی عبارت میں یہ بھی واضع ہوجائے گا کہ ارتقا کے مفہوم کو وسیع ترکرکے اور ایسے افکار اور تخیلات و مشاہدات کو سمیٹ کر کہ جن کا براہ راست ڈارون کی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ڈارونیت میں نئے نئے پہلو اجاگر کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔

چارلس ڈارون کا گستاخانہ خاکہ، 1870ء کی دہائی

پس منظر

ترمیم

1859 میں شائع ہونے والی ڈارون کی کتاب مبداء انواع (Origin of Species) کی پزیرائی کے بعد اس کے پس منظر میں ڈارونیت کی اصطلاح رائج ہوئی اور اس نے معاشرتی، حیاتیاتی اور حیات سے متعلق موجود تمام ارتقائی اور (اکثر انقلابی ؛ مثلا دنیا کے کئی مقامات پر فلسفوں کے بطن سے جنم لینے والے مذہب نما خاکوں) کو اپنے احاطہ میں لے لیا (جیسا اوپر کے متن میں ڈارونیت کے مفہوم کے وسیع ہونے کا ذکر ہوا)۔

تنقید

ترمیم

ڈارونیت کو غلط ٹھہراتے ہوئے، ترکی کے ایک مصنف “ہارون یحیٰ“ نے ایک نظریہ پیش کیا۔ ان کا یہ نظریہ “اٹلاس آف کرئیشن“ نامی کتاب میں پیش کیا ہے۔ ان کے نظریہ کے مطابق ڈارون کا پیش کردہ نظریہ غلط ہے۔ اس کتاب میں سمندری سانپ اور سانپ مچھلی کو ایک ہی جانور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم