ڈاکٹر مسعودہ جلال افغانستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے 2002 میں اور پھر 2004 میں افغانستان کے صدر کے عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔[1] انھیں افغانستان میں صدارتی انتخابات میں مقابلہ کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ افغانستان ایک انتہائی قدامت پسند معاشرہ ہے جہاں عوامی زندگی میں خواتین کی شمولیت کو نامناسب، ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا[2] اور زیادہ تر معاشرت قبائلی نظام پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر  مسعودہ جلال 2002 کے لویہ جرگہ میں بطور نمائندہ منتخب ہونے کے بعد 2001 میں افغان خواتین کی ایک سرکردہ آواز کے طور پر ابھریں۔ اپنی مدت پوری کرنے کے دوران وہ سابق صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں عبوری صدر کے عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار  بن گئیں۔[3]

ڈاکٹر مسعودہ جلال
 

معلومات شخصیت
پیدائش 5 جنوری 1962ء (62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کابل  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم ترمیم

ڈاکٹر مسعودہ جلال افغانستان کے صوبہ کاپیسا میں ایک متوسط ​​طبقے کے خاندان میں پیدا ہوئیں، وہ سات بہن بھائی ہیں۔ وہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کابل چلی گئیں۔ نیشنل کالج انٹرنس امتحان افغانستان (کونکور) میں قومی سطح پر دوسرے نمبر پر آنے کے بعد انھوں نے کابل میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں بعد میں انھوں نے بطور پروفیسر شمولیت اختیار کی۔ [4] 1990 کی دہائی کے اوائل میں شدید جنگ کے درمیان انھوں  نے اپنے علمی ساتھیوں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی جس نے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاع دی۔ وہ 1996 تک کابل میڈیکل یونیورسٹی میں تدریسی انتظامیہ کی رکن رہیں، پھر طالبان حکومت نے انھیں ہٹا دیا۔

کابل میڈیکل یونیورسٹی کے تدریسی عملے سے ہٹائے جانے کے بعد انھوں نے نیشنل سینئر پروگرام آفیسر اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام(UN-WFP) کے خواتین کے شعبے کی سربراہی کی۔ اس کے علاوہ وہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی مشیر اور سینئر پروگرام آفیسر کے طور پر کام کیا۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) کے لیے بھی کام کیا۔طالبان کے دور حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم اور کام کے حق کے لیے ان کی کوششوں کی وجہ سے انھیں سیاسی وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا۔  اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کی مداخلت سے انھے جیل سے رہا کیا گیا۔ ان کے شوہر پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ جلال گذشتہ تیس سالوں سے کابل یونیورسٹی میں قانون اور شہریت سائنس کے پروفیسر ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔ طالبان سیکیورٹی سروس کے افسران نے 08 جنوری 2022 کو پروفیسر فیض اللہ جلال کو سوشل میڈیا پر طالبان کی حکومت پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "dr massouda jalal - Google Search"۔ www.google.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2021 
  2. United Nations High Commissioner for Refugees۔ "Refworld | The Leader in Refugee Decision Support"۔ Refworld (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2021 
  3. "Profile of Afghanistan's Minister of Women's Affairs, Massouda Jalal | Voice of America - English"۔ www.voanews.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2021 
  4. SADF (2015-07-01)۔ "Meeting Dr Massouda Jalal"۔ SADF (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2021