ژند
ژند زرتشتیوں کی مقدس کتاب ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اصل کتاب ژند تھی اور اوستا اس کی شرح۔ لیکن اکثر اوستا کو اصل اور ژند کو اس کی تفسیر بتاتے ہیں۔ بہرحال یہ کتاب زرتشت نے لکھی ہے لیکن اب اس کا صرف ایک ناتمام حصہ باقی ہے۔ باقی سکندر کے حملوں کے وقت ضائع ہو گیا تھا۔ اس کتاب کی زبان قدیم فارسی تھی۔ مولانا آزاد کا خیال ہے کہ ژند سب سے قدیم کتاب ہے اور اس کے معنی چقماق کے اس جزو کے ہیں جس سے آگ نکلتی ہے۔ جب یہ زبان انقضائے زمانہ کے ساتھ مردہ ہو گئی تو اس وقت کی مروجہ زبان میں اس کی شرح لکھی گئی جس کا نام پاژند رکھا گیا۔ پاژند چقماق کے دوسرے حصے کو کہتے ہیں اور ژند کے پاژند کے ساتھ ٹکرانے سے گویا نور جلوہ گر ہوتا ہے۔ جب پاژند بھی قابل فہم نہ رہی تو اس کی شرح لکھنی پڑی جس کا نام اوستا رکھا گیا۔
تشی یا پارسی ایران میں اب بھی موجود ہیں۔ ان کی ایک نو آبادی بمبئی کے ساحل پر ہے۔ ان لوگوں کے پاس جو ژند اوستا ہے، وہ صرف پرانے اوستا کا اکیسواں باب بتایا جاتا ہے گویا 20 باب اس کے مفقود ہو چکے ہیں اور ایک باقی ہے جس میں 141000 الفاظ ہیں۔ موجودہ اوستا ساسانی زمانے کی پیدوار ہے جبکہ اردشیر نے زرتشتی مذہب کی از سرِ نو تجدید کی تھی اور اوستا کے پراگندہ اجزا کو جمع کر کے کتابی شکل دی گئی۔ پارسی لوگ اب بھی اس کی تقدیس پر ایمان رکھتے ہیں۔ زبان سنسکرت کے مشابہ ہے۔ ایک فقرہ لاحظہ ہو ”آشیم وہو یستم ہستی، استا ہستی، استاہماید ، انشائے ویستائے اشیم“ (راستی خدائی نعمت ہے، رحمت ہے اور فراواں رحمت ہے اور تقدس سے بہتر چیز ہے اور جو چاہتی ہے کرتی ہے)۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو انسائیکلوپیڈیا/557