کاروبار میں خواتین
یوں تو دنیا کے کئی حصوں میں روایتی سلائی کڑھائی، دستکاری، آرائشِ حسن یا بیوٹی پارلر، بوتیک، جیولری میکنگ، اسکول، ہوم کچن، پولٹری فارمنگ، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، جوتا سازی، گھریلو آرائشی اشیاء کی تیاری اور اسی نوعیت کے دیگر چھوٹے کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار حاصل کررہی ہیں۔ مکر یہ سب کاروبار مختصر دائروں پر محیط ہیں اور زیادہ مالی اعتبار سے ثمر آور نہیں ہیں۔ جدید دور میں کاروبار میں خواتین (انگریزی: Women in business) اس وقت نمایاں اہمیت حاصل کر گیا جب خواتین نہ صرف مالی ضروریات کی تکمیل تک ہی خود کو محدود رکھی ہیں بلکہ وہ کاروبار سازی اور کاروباری تنظیم میں کلیدی ذمے داریوں کو سنبھالنا شروع کیا ہے۔
مختلف ملکوں کے کاروبار میں خواتین
ترمیمپاکستان
ترمیماسلام آباد وویمن چیمبر آف کامرس کی صدر ثمینہ فاضل نے 2011ء میں کہا ہے کہ کاروبار میں خواتین کی پر جوش سراکت مثبت سوچ ہے۔ وائس آف امریکا سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ دو سال قبل اُن کا چیمبر رجسٹر ہوا اور اب دو سو سے زائد خواتین اس کی رکن ہیں جو اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔ثمینہ فاضل نے بتایا کہ خواتین کو اپنا کاروبار بڑھانے اور ان کی تیار کردہ مصنوعات کو بین الاقوامی منڈیوں میں متعارف کروانے کے لیے ان کا چیمبر عالمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ’’ اب دن بدن (کاروبار کرنے والی) خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کی کل آبادی کا نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے اور اگر وہ گھروں میں بیھٹی رہیں گے تو ہم اقتصادی طور پر کیسے آگے بڑھ پائیں گے، ضرورت اس بات کی ہے زیادہ سے زیادہ خواتین آگے آئیں۔‘‘ اُنھوں نے بتایا کہ امریکا کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے ’یوایس ایڈ‘ اور اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں پاکستانی خواتین کی کاروباری صلاحتیوں کو اجاگر کرکے انھیں تربیت بھی فراہم کی۔[1]
سعودی عرب
ترمیمسعودی عرب کی وزارت تجارت و سرمایہ کاری نے عکاظ اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں کام کرنے والی 50 فیصد آن لائن شاپس خواتین چلا رہی ہیں۔ سعودی عرب کے مخصوص حالات کے پیش نظر یہ طریقہ کاروبار خواتین کے لیے زیادہ محفوظ اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔[2]
متحدہ عرب امارات
ترمیممتحدہ عرب امارات کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں اماراتی کاروباری خواتین کی تعداد 23,000 تک پہنچ گئی جو 50 ارب درہم سے زیادہ کے منصوبوں کا انتظام سنبھال رہی ہیں۔ ملک میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان میں 15 فیصد خواتین شامل ہیں۔ انسانی وسائل کی وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ نجی کمپنیوں میں کام کرنے والوں میں خواتین کی تعداد 57.3 فیصد ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق اماراتی کاروباری خواتین ہر سال عرب دنیا کی پہلی 100 خواتین میں شامل ہوتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی کامیابیوں نے خواتین کو ترقیاتی عمل میں حصہ لینے کے قابل بنا دیا اور اماراتی خواتین نے 1971ء میں متحدہ عرب امارات کے فیڈریشن کے اعلان کے فورا بعد ہی لیبر مارکیٹ میں داخل ہونا شروع کیا۔ 1975ء میں کام کرنے والی خواتین کی شرح بڑھ کر 3.4 فیصد جبکہ 1995 تک یہ شرح 11.7 فیصد ہو گئی.[3]