کاٹھ گڑھ سادات (انگریزی: Kathgarh) پاکستان کا ایک آباد مقام جو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے۔[1]

کاٹھ گڑھ سادات کا تاریخی پس منظر

اس شہر کی تاریخ تقریبا ایک ہزار سال پرانی ہے۔ زمانہ قدیم سے یہاں ہندؤ آباد تھے اور انھوں نے کاٹھ گڑھ کا نام ہماچل پردیش کے ایک قدیم شیو کے مندر کے نام پر رکھا۔ البتہ یہاں کے لوگ کاٹھ گڑھ کے نام کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے تھے کچھ بزرگان یہ بھی کہتے تھے کہ دریا سندھ کے کنارے ہونے کی وجہ سے دریا میں بہنے والے درختں کو یہاں نکال کر اکھٹا کیا جاتا تھا ان لکڑیوں کے ٹکڑوں کو یہاں کی قدیم زبان میں کاٹھ کہتے تھے. اور گڑھ مرکز کو کہتے ہیں اس لیے اس کا نام" کاٹھ گڑھ" پڑ گیا۔لیکن ان دونوں نظریات میں سے پہلے والا نظریہ متعبر ہے۔مختلف ادوار میں اس علاقے کے لوگ مختلف ریاستوں کے ساتھ جڑے رہے۔ہندوشاہی دور میں بلوٹ سمیت پہاڑ کے دامن کے ساتھ جتنی بھی آبادی تھیں وہ راجہ بل اور ان کے خاندان سے جڑی تھی۔ جب سلطان محمود غزنوی نے بلوٹ پر حملہ کیا تو اس علاقے میں ہندؤں کا زور ٹوٹ گیا۔اس نے ہندؤں کو یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تاہم اس علاقے میں ہندؤں کی تعداد پہلے سے کم پڑگئ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں مختلف اقوام نے سکونت اختیار جس میں افغان لودھی قبائل کثیر تعداد میں آباد ہوئے 15ویں صدی عیسوی میں کاٹھ گڑھ میں سیدووالی، کوٹلہ لودھیان میں لودھی پشتون کثیر تعداد میں آباد تھے جبکہ بلوٹ ان کا مرکز تھا جس کا ذاکر تاریخ فرشتہ میں محمد قاسم فرشتہ بھی کرتا ہے کہ سلطان بہلول لودھی کا آباؤاجداد بلوٹ سے ہجرت کرکے آئے۔ ک[2]افی وقت گزرنے کے بعد تقریبا 851 ہجری بمطابق 1452 عیسوی میں مخدوم پیر سید جلال الدین حیدر بخاری علیہ االرحمہ کی اولاد میں سے پیر سید شاہ جنید علیہ الرحمہ اور ان کے بیٹے پیر قطب شیر علیہ الرحمہ نے دین اسلام کی تبلیغ کے لیے اچ شریف سے بلوٹ ہجرت کی۔ ان کے بعد ان کی کثیر تعداد میں اولاد یہاں پر سکونت پزیر ہوئے۔ سلطان سکندر خان لودھی کے زمانے میں مخدوم پیر شاہ عیسی قتال علیہ الرحمہ بلوٹ سے ہجرت کرکے عیسی خیل کے علاقے میں منتقل ہوئے تو سلطان سکندر خان لودھی نے اپنے بھائی فتح خان لودھی جو خود شاہ عیسی علیہ الرحمہ کا عقیدت مند تھا اس کو احکامات صادر فرمائے کہ شاہ عیسی علیہ الرحمہ کو بلوٹ واپس لایا جائے اور بلوٹ سے ملحق کاٹھ گڑھ کچی اورموجودہ پنیالہ تک جتنی بھی جاگیریں ہیں وہ شاہ عیسی کو دی جائیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مصنف قادر داد خان گنڈہ پور اپنی کتاب " ڈیرہ اسمعاعیل خان ماضی اور حال کے آیئنہ میں" میں لکھتے ہیں کہ بلوٹ اور کاٹھ گڑھ کی جاگیریں سلطان سکندر خان لودھی نے اس خاندان کے آباؤ اجداد کو عطاء کیں جس کا زکر ڈیرہ اسمعاعیل خان کے سید حفیظ الحسن گیلانی بھی کرتے ہیں۔

یہ مخدوم پیر سید عبدالرب بخاری علیہ الرحمہ ہی تھے جنھوں نے 1512 عیسوی کو اس گاؤں کاٹھ گڑھ کی بنیادرکھی۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک مسجد تعمیر کروائی اور اسی مسجد کو اپنی نشست گاہ بنالیا تاکہ دین اسلام کی تبلیغ کرسکیں۔ سید عبدالرب بخاری علیہ الرحمہ سے پہلے بھی کاٹھ گڑھ کی سرزمین اولیاءکرام کے نور سے منور رہی کیوں کہ اسی گاؤں میں پیر سید عبدالرحمن نوری علیہ الرحمہ اور زہدالانبیاء پیر سید عبدالوہاب بخاری اس کے ساتھ ساتھ پیر شاہ عیسی قتال کی عبادت گاہیں موجود تھیں۔ اور آج بھی انھیں کے نام سے منسوب ہیں۔

مخدوم پیر سید عبدالرب بخاری علیہ الرحمہ کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھیں بلکہ صرف ایک بیٹی سیدہ فاطمہ خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنی بیٹی کا عقد پیرشاہ عیسی علیہ الرحمہ کے فرزند کبیر اور اپنے بھائی مخدوم پیر سید عبدالباری المعروف حاجی امام بخاری علیہ الرحمہ کے بیٹے اور اپنے بھتیجے مخدوم پیر سید امیر محمد المعروف امیر حیدر بخاری علیہ الرحمہ سے کروادیں۔ اس وقت سرکار پیر امیر حیدر بخاری علیہ الرحمہ اپنے ماموں پیر سید علی راجن بخاری علیہ الرحمہ کے پاس دین اسلام کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جبکہ آپ کے والد پیر سید حاجی امام بخاری علیہ الرحمہ دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں مختلف مقامات پر پڑاؤ کر رہے تھے۔[3]

سرکار امیر حیدر بخاری علیہ الرحمہ جب رشتہ ازواجیت سے منسلک ہوئے تو آپ کے چچا اور سسر پیر سید عبدالرب بخاری کا وصال ہوگیا اور ان کو اپنے آباؤاجداد کے ساتھ بلوٹ میں مدفن کیا گیا۔

اس طرح سرکار پیر امیر حیدر بخاری نے سب سے پہلے کوہ خیسور کے دامن میں برون کے مقام پر منتقل ہوگئے لیکن وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کیا اور وہاں سے کاٹھ گڑھ سے کچھ فاصلے پر منتقل ہوگئے جو گاؤں بعد میں آپ ہی کے نام سے"امیرشاہ" منسوب ہوگیا۔

آپ محرم الحرام، چہلم امام حسین علیہ السلام میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ موضع امیر شاہ سے ہجرت کرکے اپنے بزرگ اور عالم اسلام کے جید فقیہ اہلیبیت مخدوم پیر اید علی راجن بخاری کے پاس منتقل ہو جاتے تھے جہاں انھوں نے برصغیر پاک و ہند کا سب سے پہلا عزادادی کا مرکز قائم کیا تھا۔

تقریبا 934 ہجری جب علی راجن بخاری کا انتقال ہوا تو انھوں نے آپ کو کاٹھ گڑھ کے مقام پر عاشورخانہ بنانے کی وصیت کی۔ آپ نے ان سے عاشورخانہ بنانے کا وعدہ کیا کہ اگر امام حسین علیہ السلام اس کی اجازت دیں گے تو پھر عزاداری کا سلسلہ شروع ہوگا۔ تاریخ میں ہے کہ سرکار علی راجن بخاری کے وصال کے سال عزم کربلاء ہوئے۔

کاٹھ گڑھ سادات کے تاریخی مقامات

ترمیم

کاٹھ گڑھ سادات میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جو اس علاقے میں بہت ہی تاریخ کے حامل ہیں۔ جو اس گاؤں کی تاریخی اہمیت کو واضع کرتے ہیں۔

1۔ قدم گاہ حضرت امیر المومنین ع عبادت گاہیں پیر عبد الوہاب بخاری اور پیر عبد الرحمن نوری

2۔ عبادت گاہ پیر سید عبدالباری شاہ

3۔مسجد سید شاہ عبدالرب شاہ

4۔مسجد پیر سید دانا دریا علیہ الرحمہ

5۔ چلہ گاہ پیر سید حبیب قلندر

6۔ رہائش گاہ سرکار پیر امیر حیدر بخاری

7۔مقام خاتون جنت سلام اللہ علیہ

8۔پنجتن پاک کا مقام

9۔ گزرگاہ اہلیبیت علیہ السلام

10۔مزار پیر سید عبد المجید بخاری

11

حوالہ جات

ترمیم
  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Kathgarh"
  2. David Ireland (2021)۔ "Yes So I Said Yes"۔ Yes So I Said Yes۔ DOI:10.5040/9781350301153.00000003
  3. چکیده های نیسان / نگارنده محمد حیدر نیسان امیر ؛ مهتمم احمدشاه نثاری۔ University of Arizona Libraries۔ 1988