خیبر پختونخوا کے جنوب میں پاکستان کا ایک شہر اور اسی نام کے ایک ڈویژن کا ایک ضلع دریائے سندھ کے مغربی کنارے آباد ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور جانور پالنا ہے۔ اس علاقے میں بلوچکی سرائیکی ،پشتو اور اردو زبان بولی جاتی ہے۔ تقسیم ہند پر آئے ہوئے مہاجرین کی کثیر تعداد ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہو گئی ، ڈیرہ اسماعیل میں بلوچ، سرائیکی ، راجپوت ، پٹھان اور افغان مہاجرین آباد ہیں۔اس کو ایک بلوچ سردار اسماعیل خان نے آباد کیا تھا اور پھر اسی کے نام کی نسبت اس کا نام ڈیرہ اسماعیل خان پڑ گیا ڈیرہ اسماعیل خان کو 1901 صوبہ پنجاب سے الگ کر کے نئے بننے والے صوبی سرحد میں شامل کیا گیا ڈیرہ اسماعیل خان شروع میں زیادہ تر علاقہ غیر آباد تھا لیکن بعد میں اس علاقے میں کھیتی باڑی کو کافی ترقی دی گئی اور بڑے بڑے فارم ہاؤس بنائے گئے۔ ٹیوب ویل لگا کر آبپاشی کے نئے نئے طریقے اپنائے گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک یونیورسٹی گومل یونیورسٹی کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل کالج بھی وہاں کام کر رہا ہے۔ علاقے کی سب سے مشہور سوغات سوہن حلوہ جو پورے پاکستان میں مشہور ہے اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کا لکڑی کا کام بھی بہت مشہور ہے اور کشیدہ کاری کی چادریں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں علاقے کا موسم شدید ہے اور یہاں سخت گرمی پڑتی ہے۔ بارشیں بہت کم ہوتیں ہیں۔ اس لیے آبپاشی زیادہ تر ٹیوب ویل سے ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور کا تعلق بھی یہیں سے ہے ڈیرہ اسماعیل خان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قومی اسمبلی کے سابقہ ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان امن و آشتی کا مظہر ہے

خیبر پختونخوا کا نقشہ جس میں زرد رنگ ڈیرہ اسماعیل خان کو ظاہر کر رہا ہے

تحصیلیں ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم