کتب خانہ آصفی یا حیدرآباد سینڑل لائبریری (1891 ء)، ہندوستان کے مشہور کتب خانوں میں سے ہے جو حیدرآباد دکن میں واقع ہے۔ اس کتب خانہ کی بنیاد حیدرآباد کی آصف شاہی حکومت کے دور میں رکھی گئی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت آصفیہ کے نام سے ہے۔ اس کتب خانہ کی شہرت اس میں موجود منحصر بفرد و نایاب خطی نسخوں اور مختلف زبانوں کی مطبوعہ کتابوں کی وجہ سے ہے۔ کتاب الغدیر کے مولف علامہ امینی نے اپنے سفر ھند کے دوران اس کتب خانہ کا دیدار کیا تھا۔ آصف شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد اس کا نام حیدرآباد مرکزی لائبریری ہو گیا۔

کتب خانہ آصفی
فائل:کتابخانه آصفیه.jpg
کتب خانہ آصفیہ
ابتدائی معلومات
استعمال:کتب خانہ
محل وقوع:حیدر آباد دکن
دیگر اسامی:کتب خانہ آصفیہ • اسٹیٹ سینٹرل لائبریری (حیدرآباد)
مشخصات
موجودہ حالت:فعال
سہولیات:خطی نسخے، مطبوعہ کتب
معماری

تاریخچہ تاسیس

ترمیم

کتب خانہ آصفی سنہ 1891 ء بمطابق 1308 ء میں آصف شاہی حکومت کے حاکم میر محبوب علی خان نظام (دور حکومت: 1869 سے 1911 ء) کے زمانہ میں سید حسین بلگرامی و ملا عبد القیوم کی کوششوں سے حیدرآباد میں قائم ہوا اور انھوں نے ذاتی کتب خانوں کی خرید کا آغاز کیا۔[1] اس کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر کا آغاز سنہ 1932 ء میں میر عثمان علی خان بہادر (دور حکومت: 1911 سے 1948 ء) کی حکومت میں ان کے حکم سے افضل گنج نامی محلہ میں ہوا اور سنہ 1936 ء میں اس کی عمارت میں کی تعمیر کا کام مکمل ہوا اور اس میں 300 روپئے خرچ ہوئے۔ اس سال اس کتب خانہ کی کتابوں کی تعداد ایک لاکھ جلدوں تک پہچ گئی۔[2]، [3] کچھ عرصہ کے بعد دکن کی حکومت میں اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کے لیے سالانہ بجٹ متعین کیا۔[4]

نام کی تبدیلی

ترمیم

چونکہ یہ کتب خانہ آصف شاہی یا آصف جاہی دور حکومت میں تاسیس کیا گیا۔ اس لیے کتب خانہ آصفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[5] آصف شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد سنہ 1956 ء میں اس کا نام بدل کر کتب خانہ مرکزی اسٹیٹ، حیدرآباد ((Hydrabad) State Central Library) کر دیا گیا۔ یہ لائبریری اپنے مخفف یا شارٹ نام S.C.L سے بھی معروف ہے۔[6]

کتابیں

ترمیم
فائل:فهرست کتابهای کتابخانه آصفیه.jpg
فہرست کتب، کتب خانہ آصفیہ

اس کتب خانہ میں مختلف موضوعات پر مشتمل متعدد خطی و مطبوعہ کتب کے نسخے عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور ہندوستان کی مختلف مقامی زبانوں میں موجود ہیں۔ عربی و فارسی آثار و تالیفات کی فہرست میں فقہ شیعہ و مذاہب چہارگانہ اہل سنت، علم کلام، حدیث، علم رجال، علوم قرآنی، ادبیات عرب، فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیا، طب، ریاضیات و نجوم جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔ [7] آقا بزرگ تہرانی کے قول کے مطابق، علامہ کنتوری کے پوتے سید تصدیق حسین کنتوری (متوفی 1348 ھ) نے اس کتب خانہ میں موجود کتابوں کی فہرست آمادہ کرکے اسے سنہ 1332 ھ میں حیدرآباد دکن میں طبع کیا تھا۔[8] علامہ امینی نے اپنے ہندوستان کے سفر میں کتب خانہ آصفیہ (حیدرآباد) کے دیدار کے وقت اس میں موجود خطی نسخوں و مطبوعہ کتب کا مشاہدہ کیا تھا۔[9]

اس کتب خانہ میں کئی نادر اور نایاب کتابیں، پانچویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری (گیارہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی) کے قدیم نسخے، مصنفین یا ان کے بیٹوں اور شاگردوں کے قلم سے تحریر شدہ نسخے، اصل نسخوں سے استنساخ کیے گئے نسخے، سلاطین کے خزانوں کی کتب اور دانشمندوں کے کتب خانے ان کے حواشی و تعلیقات کے ساتھ موجود ہیں۔[10]

سنہ 1967 ء میں اس کتب خانہ کی 17 ہزار سے زیادہ نادر خطی کتابیں جن کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی ہجری سے تھا، ریاست آندھرا پردیش کے تحقیقاتی ادارے اور سرکاری کتب خانہ نسخہ شرقی (Oriental Version State Library) میں منتقل کر دی گئیں۔[11]

اس وقت کتب خانہ آصفیہ میں چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار (466.000) سے زائد مطبوعہ کتابیں انگریزی، فارسی، عربی، اردو، ہندی، تلگو اور تمل زبانوں میں موجود ہیں۔ سنہ 1960 ء سے یہ کتب خانہ عوامی استفادہ کے لیے آزاد ہے۔ اس لائبریری کو ڈیجیٹل کرنے کا کام امریکا کی کارنیگی میلن یونیورسٹی (Carnegie Mellon University) کے کتب خانہ کے تعاون سے انجام دیا گیا ہے۔[12]

مدیر و لائبریرین

ترمیم

اس کتب خانہ کے اولین انچارج مولوی سید علی حیدر طباطبائی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد علامہ کنتوری کے پوتے مولوی سید تصدیق حسین اس کے رئیس بنے۔[13] 24 ربیع الاول 1314ھ کو انھیں اس کتب خانہ کا سرپرست منصوب کیا گیا۔ انھوں نے اس عرصہ میں کتاب شناسی، کتاب داری اور تحقیق کے لیے افراد کی تربیت کی۔ سید تصدیق نے ہزاروں کتابوں کے نسخہ بدل حاصل کیے اور ان کی فہرست تیار کی۔ انھوں نے بہت سی کتابیں اپنے بھائی کے ذریعہ سے لکھنؤ اور دکن میں طبع کی۔[14]

سید تصدیق کے بعد ان کے بیٹے مولوی سید عباس حسین اس کے مدیر بنے۔ اس کتب خانہ کی عربی و فارسی کتب کی فہرست کی تدوین کا کام ان کے اور ان کے بیٹے کے ذریعہ سے انجام پایا۔[15] اس کتب خانہ کی عربی، فارسی اور اردو کتب کی فہرست تدوین ہو چکی ہے۔[16]

متعلقہ مضامین

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  2. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی.
  3. شہر حیدرآباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع ‌رسانی حوزه.
  4. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی.
  5. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی.
  6. پایگاه خبری نسخ خطی، کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎.
  7. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  8. آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج16، ص391.
  9. رجایی، الادباء من آل ابی‌ طالب، 1434ق، ج3، ص406.
  10. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  11. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436؛ شہر حیدرآباد و قدمت 500 ساله شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.
  12. شہر حیدرآباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.
  13. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  14. آشنایی اجمالی با فرزندان مرحوم مفتی محمد قلی، بنیاد فرهنگی امامت.
  15. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  16. کیخا، «فهرست نسخہ ‌های خطی در کتابخانه‌های هند»، ص199.

مآخذ

ترمیم
  • آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، بی‌تا۔
  • رجایی، مهدی، الادباء من آل ابی ‌طالب، قم، کتابخانہ آیت ‌الله مرعشی، 1434ھ۔
  • کیخا، بتول، فهرست نامہ ‌های نسخ خطی فارسی در هند، مطالعات شبہ قاره، سال ششم، شماره20، پاییز 1393شمسی ہجری۔
  • بخش ادبیات دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، آصفیہ در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1374شمسی ہجری۔
  • شہر حیدرآباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع ‌رسانی حوزه، مجلہ اخبار شیعیان فروردین 1387ش، شماره 29.
  • کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی، تاریخ درج مطلب، 17 تیر 1397ش، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔
  • آشنایی اجمالی با فرزندان مرحوم مفتی محمد قلی، بنیاد فرهنگی امامت، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔
  • فهرست مشروع بعض کتب نفیسہ قلمیہ مخزونہ کتب خانہ آصفیہ، بنیاد محقق طباطبایی، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔

سانچہ:برصغیر سانچہ:لائبریریاں