ناصریہ لائبریری
ناصریہ لائبریری یا کتب خانہ صاحب عبقات، ہندوستان کے شہر لکھنؤ کے مذہبی کتاب خانوں میں سے ہے۔ اس کی بنیاد ہندوستان کے شیعہ عالم دین سید محمد قلی موسوی (متوفی 1268 ھ) نے رکھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادوں میر حامد حسین اور سید اعجاز حسین نیز ان کے پوتے سید ناصر حسین (ناصر الملت) نے اسے توسیع اور تکمیل کی اور اسی طرح مختلف اسلامی ممالک سے کتابوں کے خطی نسخے حاصل کرکے اسے یہاں محفوظ کیا۔
فائل:کتابخانه ناصریه هند.jpg | |
ابتدائی معلومات | |
---|---|
بانی: | سید محمد قلی موسوی ہندی |
استعمال: | کتابخانہ |
محل وقوع: | لکھنؤ |
دیگر اسامی: | کتب خانہ صاحب عبقات • کتب خانہ میر حامد حسین |
مشخصات | |
موجودہ حالت: | فعال |
سہولیات: | خطی نسخے |
معماری |
کتاب الغدیر کے مصنف علامہ امینی نے ہندوستان سفر کے دوران اس کتاب خانہ کا دورہ کیا اور قیمتی قلمی آثار اور کمیاب خطی نسخوں کے حامل اس مرکز کو بینظیر کتاب خانہ قرار دیا۔
بانی
ترمیمناصریہ لائبریری کے بانی ہندوستان کے شیعہ عالم دین سید محمد قلی موسوی (1188-1268 ھ) ہیں جو علامہ کنتوری کے نام سے معروف ہیں۔[1] آپ نے اسلامی تمدن و ثقافت کے بارے میں کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔[2] کتاب الحیات کے مصنف محمد رضا حکیمی کے مطابق میر حامد حسین کے خاندان نے تیرہویں صدی کے اوائل سے مذکورہ لائبریری کی بنیاد رکھی۔[3]
یہ کتب خانہ لکھنؤ میں واقع ہے اور باقاعدہ حکومت کی طرف سے اس کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔[4]
تعمیر و توسیع
ترمیمسید محمد قلی موسوی نے ناصریہ لائبریری کو اپنی اولاد کے لیے وقف کر دیا تھا۔[5] اس بنا پر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میر حامد حسین اس لائبریری کے امور کی نگرانی کرتے تھے۔[6] میر حامد حسین نے اس بائبریری کی توسیع کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی اعجاز حسین کے ساتھ مل کر مختلف اسلامی ممالک کا سفر کر کے لائبریری کے لیے کتابیں مہیا کیے۔[7] میرحامد حسین نے مزید کتابوں کی فراہمی کے لیے مختلف علما اور بزرگان کے نام خطوط بھی لکھے اور جتنا ممکن ہو سکے کتابوں کے اصلی نسخوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو مذکورہ کتابوں کی نسخہ برداری کے لیے مختلف افراد کو مورد نظر علاقوں میں بھیجتے تھے۔[8]
میر حامد حسین کی وفات کے بعد اس لائبریری کی ذمہ داری ان کے بیٹے ناصر حسین ملقب بہ ناصر الملۃ نے سنبھالی۔[9] ان کے دور میں لائبریری میں بنیادی تبدیلی لائی گئی عمارت کی توسیع کی گئی اور لائبریری کی رونق میں اضافہ ہوا اسی وجہ سے یہ لائبریری ناصریہ لائبریری کے نام سے مشہور ہوا۔[10]
کتابیں
ترمیمکتاب الغدیر کے مصنف علامہ امینی نے سنہ 1380ھ کو ہندوستان سفر کے دوران ناصریہ لائبریری کا دورہ کیا۔[11] آپ کہا کرتے تھے کہ میری زندگی میں اسلامی دنیا میں اس طرح کی قیمتی اور کمیاب کتابوں پر مشتمل لائبریری نہیں دیکھی۔[12] اسی طرح علامہ امینی نے اپنے سفرنامہ میں ہندوستان کی لائبریریوں کی فہرست شایع کی ہیں جن میں ان لائبریریوں میں موجود خطی اور غیر خطی نسخوں کی تعداد کو 3 لاکھ 2 ہزار تک بیان کی ہیں۔[13] آقا بزرگ تہرانی ناصریہ کتابخانے میں 30 ہزار سے زائد خطی اور غیر خطی نسخوں کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں جو اسلامی دنیا کی نفیس اور گراں بہا کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔[14]
اس لائبریری میں موجود کتابوں میں سے 5 ہزار کے قریب کتابیں خطی ہیں اور ان میں سے اکثر نسخے کمیاب اور نادر ہیں۔[15] ناصر حسین کے بیٹے محمد سعید الملۃ کے مطابق میر حامد حسین نے "الردّ علی المتعصب العنید" نامی کتاب کے حصول کے لیے جو مصر کے کسی لائبریری میں موجود تھی، میرزا حسین نوری کے ساتھ مکاتبہ کیا اور تقریبا 20 سال کی جد و جہد کے بعد وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔[16]
ناصریہ لائبریری کے کتابوں کی فہرست قم میں کتب خانہ آیت اللہ مرعشی میں اور ان کے خطی نسخوں کی تصاویر اور فلمیں مرکز احیای میراث اسلامی قم میں موجود ہیں۔[17]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص189-190۔
- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص189-190۔
- ↑ حکیمی، میر حامد حسین، 1386ش، ص135۔
- ↑ انصاری قمی، «شخصیت شناسی علامہ سید محمد قلی موسوی لکہنوی»، ص202۔
- ↑ خواجہپیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص189۔
- ↑ خواجہپیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ خواجہپیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ غفرانی، «دو سند در مورد کتابخانہ ناصریہ ہند»، ص192۔
- ↑ غفرانی، «دو سند در مورد کتابخانہ ناصریہ ہند»، ص192۔
- ↑ صادقی، «تألیفات شیعہ در شبہقارہ ہند»، ص35۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، نقباء البشر، 1404ق، ج1، ص374۔
- ↑ خواجہپیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ خواجہ پیری، «کتابخانہہای لکہنو»، ص190۔
- ↑ انصاری قمی، «شخصیتشناسی علامہ سید محمدقلی موسوی لکہنوی»، ص202۔
مآخذ
ترمیم- انصاری قمی، ناصرالدین، «شخصیت شناسی علامہ سید محمد قلی موسوی لکہنوی»[مردہ ربط]، امامت پژوہی، شمارہ 2، تابستان 1390ش۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، نقباءالبشر فی القرن الرابع عشر، مشہد، 1404ق۔
- حکیمی، محمد رضا، میر حامد حسین، قم، دلیل ما، 1386ش۔
- خواجہ پیری، مہدی، «کتابخانہہای لکہنو»، در مجلہ مشکوۃ، شمارہ 18 و 19، بہار و تابستان 1367ش۔
- صادقی، محسن «تألیفات شیعہ در شبہ قارہ ہند»آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ebookshia.com (Error: unknown archive URL)، در مجلہ آینہ پژوہش، شمارہ97، اردیبہشت 1385ش۔
- غفرانی، عبد اللہ، «دو سند پیرامون کتابخانہ ناصریہ ہند»آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ emamat.ir (Error: unknown archive URL)، در مجلہ سفینہ، شمارہ 21، زمستان 1387ش۔