کرشمہ علی

پاکستانی فٹ بالر

کرشمہ علی ( 1998ء) ایک پاکستانی فٹ بالر ہیں جو اپنے آبائی شہر چترال، خیبر پختونخوا کی پہلی لڑکی ہیں جنھوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔[1] 2016 ء میں کرشمہ علی نے دبئی میں منعقد ہونے والے جوبلی گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور وہ 2017 ء میں آسٹریلین فٹ بال لیگ انٹرنیشنل کپ میں شرکت کرنے والی پہلی پاکستانی خواتین ٹیم کا حصہ تھیں[2]۔ وہ چترال ویمن اسپورٹس کلب کی بانی بھی ہیں[3]۔ 2019 میں وہ فوربز 30 کم 30 ایشیا لسٹ میں درج ہوئیں ،جہاں نوجوانوں کو جدت اور مہم جوئی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے[4]۔ کرشمہ علی نے 2019 میں ملان فیشن ویک میں حصہ لیا، تب ہیٹین اطالوی ڈیزائنر سٹیلا جین نے کرشمہ علی کے ساتھ مل کر خواتین کے لیے دستکاری کا ایک مرکز قائم کیا،جس میں چترال اور کالاش کے ثقافتی عناصر شامل ہیں۔ [5]

کرشمہ علی
کرشمہ علی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1998ء
قومیت پاکستان
عملی زندگی
پیشہ فٹ بالر
کارہائے نمایاں چترال پاکستان کی پہلے بین الاقوامی سطح پہ کھیلنے والی فٹ بال کھلاڑی

زندگی

ترمیم

کرشمہ علی نے کم عمری میں ہی فٹ بال میں دلچسپی لینا شروع کی۔ کرشمہ اپنے والد کے ساتھ فٹ بال کے میچ دیکھتی تھی، جس نے اس کی توجہ اپنی لپیٹ میں لے لی اور وہ اس کھیل کی محبت میں گرفتار ہونے لگیں۔ چترال میں کرشمہ کو پیشہ ور فٹ بالر بننے کی سہولیات میسر نہیں تھیں تاہم ان کے والد ؛ کھیلوں کے ایک شوقین، چاہتے تھے کہ کرشمہ اس کھیل کا حصہ بن جائے[6]۔ جب کرشمہ شہر منتقل ہوئی، تو اس نے اپنی پہلی پیشہ ورانہ فٹ بال کی تربیت حاصل کی۔ وہ 15 سال کی عمر سے ہی پیشہ ورانہ طور پر فٹ بالر کی تربیت لے رہی ہیں۔

تعلیم

ترمیم

کرشمہ علی نے لندن یونیورسٹی سے بزنس اینڈ مینجمنٹ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی[7] [8]۔

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

سنہ 2016ء میں کرشمہ کو دبئی میں جوبلی گیمز کے لیے کھیلنے والی بین الاقوامی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن کر پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا۔ ٹیم نے کھیلوں میں چاندی کا تمغا جیتا۔ 2017 ء میں کرشمہ آسٹریلین فٹ بال لیگ انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی ویمنز ٹیم کا حصہ بنیں۔

کامیابیاں

ترمیم

اپنے فٹ بال کیریئر کے علاوہ، کرشمہ کو اپنے سماجی کام اور اپنے لوگوں کے لیے لگن کی تعریف کی جاتی ہے۔ انھوں نے کھیلوں میں لڑکیوں کی پوزیشن کو بڑھانے کے لیے چترال ویمنز اسپورٹس کلب کی بنیاد رکھی ہے، خاص طور پر فٹ بال یہ کلب چترال کا پہلا ویمنز اسپورٹس کلب ہے۔ وہ نوجوانوں کی تنظیموں کا بھی حصہ ہیں اور سی این این اور فوربس، جیسے تنظیموں کی طرف سے اس کی فلاح و بہبود کے کام کے لیے تعریف کی گئی ہے۔[9]

چترال ویمنز سپورٹ کلب

ترمیم

2016 ء میں جوبلی گیمز سے واپس آنے کے بعد کرشمہ علی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آبائی شہر کے پسماندہ لوگوں کے لیے کام کرنے کے لیے متاثر ہوئیں اور انھوں نے گرلز اسکولز کے لیے فٹ بال ٹریننگ کیمپوں کا بندوبست شروع کیا۔ ابتدا میں دس لڑکیوں کے لیے ہفتے کا طویل کیمپ لگایا گیا تھا لیکن مثبت اثر کے بعد اس کیمپ نے ستر لڑکیوں کو مزید شامل کر لیا۔[10] تربیتی سیشن چند رضاکاروں کے ساتھ پہاژروں میں رکھے گئے تاکہ لڑکیوں کو کھیلنے کے لیے محفوظ ماحول مل سکے۔ ایک انٹرویو میں کرشمہ علی نے کہا "دس سال بعد میں چاہتی ہوں کہ دس بیس لڑکیاں اپنے خواب پورا کرنے کے بعد واپس چترال آئیں تاکہ ان لڑکیوں کو تک پہنچ سکیں جن تک میں نہیں پہنچ سکی۔ آہستہ آہستہ میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک ترقی پسند معاشرہ جنم لے رہا ہے جس میں لڑکیاں روایتی رواج اور رسومات سے پریشان نہیں بلکہ وہ آزادی سے جو کرنا چاہتی ہیں وہ کر سکیں اور اور میں دیکھ سکوں کہ اس تبدیلی کا حصہ ہوں"۔ کرشمہ علی لڑکیوں کے لیے اسلام آباد فٹ بال کلب کے ساتھ مل کر ایک تبادلہ پروگرام بھی بنا رہی ہیں۔

چترال ویمنز ہینڈی کرافٹ سینٹر

ترمیم

کرشمہ نے چترال ویمن دستکاری سینٹر کا آغاز کیا، جو چترال کی خواتین کے تیار کردہ روایتی لباس، زیورات اور دستکاری کی نمائش کرتا ہے [11]۔ کرشمہ کے اس اقدام کو ڈیوک اور ڈچس آف کیمبرج نے تسلیم کیا اور دستکاری میں ملن فیشن شو کو بھی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔

نیشنل یوتھ کونسل

ترمیم

کرشمہ علی کو وزیر اعظم کی نیشنل یوتھ کونسل کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو وزیر اعظم کی قیادت میں ایک پلیٹ فارم ہے۔[12][13] کونسل ملک سے منتخب نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں پاکستان کے نوجوانوں کے لیے قیادت اور فیصلے کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

سائی سوم 2019 برونائی

ترمیم

برونائی میں کامن ویلتھ یوتھ کے سینئر عہدے داروں کے اجلاس کے لیے کرشمہ علی کا انتخاب کیا گیا، جہاں انھوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ تقریب میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے رہنما شریک تھے۔ اجلاس کے شرکاء نے خطے میں نوجوانوں کی پالیسیوں پر عمل درآمد میں ملک کے مخصوص چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کیا[14]۔

فوربز 30 انڈر 30

ترمیم

کرشمہ علی کو فوربز 30 کم 30، 2019 [15]، کھیل اور تفریح زمرے میں شامل کیا گیا۔ فوربس کے مطابق: "چترال کی کرشمہ علی، پاکستان اپنے آبائی شہر کی پہلی لڑکی ہے جس نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر فٹ بال کھیلا ہے۔ وہ دبئی میں ہونے والے جوبلی گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں اور ان کی ٹیم اے ایف ایل انٹرنیشنل کپ میں شرکت کرنے والی پاکستان کی پہلی ویمن ٹیم تھی۔ کرشمہ علی چترال ویمنز اسپورٹس کلب کی بانی بھی ہیں [16]۔

= سٹیلا جین کے ساتھ تعاون

ترمیم

2019ء میں ہیٹین اطالوی ڈیزائنر سٹیلا جین نے اپنی کلیکشن لیبارٹری آف نیشنز کے حصے کے طور پر پاکستان کا سفر کیا، جہاں ڈیزائنر کا مقصد اٹلی اور اس کے نو منزلہ مشن کے درمیان خلا کو پُر کرنا تھا، جن میں سے ایک پاکستان تھا[17]۔ مقصد اقوام متحدہ کے تزویراتی ترقی کے اہداف کو فروغ دینا اور دیہی علاقوں سے خواتین کو با اختیار بنانا تھا۔ پاکستان میں، جین نے کرشمہ علی کے ساتھ چترال اور کلاش کے علاقے سے روایتی کڑھائی کا استعمال کرتے ہوئے ڈیزائن بنائے ۔ مرکز سے چھیالیس خواتین نے چار سو میٹر کی کڑھائی کی، جسے جین نے اپنے مجموعے میں استعمال کیا اور ووگ میں اس کی نمائش ہوئی۔ میلان فیشن ویک 2019 میں کرشمہ باہمی اشتراک سے بنائے گئے ڈیزائن پہن کر واک کی۔ بعد ازاں کرشمہ نے ڈیزائنر کا شکریہ ادا کیا جس نے پاکستان کی خواتین کی بنائی کڑھائی کو اپنے مجموعے میں شامل کیا۔[18]

تنقید

ترمیم

خاتون فٹ بال کھلاڑی کی حیثیت سے کرشمہ کے اس کارنامے کو عوام کی جانب سے بہت زیادہ تجسس اور تنقید ملی۔ قیاس تھا کہ کرشمہ چترال سے نہیں بلکہ کسی بڑے شہر سے تھی جہاں وہ اپنا سنگ میل حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ ایک انٹرویو میں، کرشمہ نے موصول ہونے والے رد عمل کا انکشاف کیا: "مجھے نہیں لگتا تھا کہ مجھے اتنی نفرت ملے گی اور خاص طور پر جب یہ سلسلہ مہینوں اور مہینوں چلتا رہے"۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Chitral footballer Karishma in Forbes list | Pakistan Today"۔ www.pakistantoday.com.pk (7 اپریل 2019)۔ 13 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  2. "Inclusion in Forbes' list an honour: Karishma"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  3. Sohail Imran۔ "Karishma Ali says becoming part of Forbes '30 under 30' list an honour"۔ www.geo.tv (7 اپریل 2019)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  4. "5 Pakistanis and a startup make it to Forbes 30 under 30 Asia 2019 list"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 4 اپریل 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  5. "Pakistan shines at Milan Fashion Week 2019"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  6. "GameChangers: Karishma Ali - More than football | Football News |"۔ the-AFC (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  7. Ehtisham Khan۔ "Pakistani footballer Karishma featured in the Forbes '30 Under 30'"۔ www.tribune.com.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  8. Aimee Lewis CNN۔ "She made history by playing football. Now she's changing lives"۔ CNN۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2020 
  9. "Footballer Karishma Ali recognised in US for philanthropic work"۔ www.geosuper.tv (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  10. HoursTV (2020-10-13)۔ "Who Is Pakistani Footballer Karishma Ali and What Are Her Contributions"۔ Hours TV (بزبان انگریزی)۔ 10 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  11. "Stella Jean's MFW collection incorporates northern Pakistan's craft"۔ ARYNEWS۔ 23 September 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  12. The World With MNR Team (2019-09-22)۔ "Meet Pakistani Football Star and Girl Hero: Karishma Ali"۔ theworldwithmnr (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  13. "Four Ismailis among thirty-three members selected for the National Youth Council by Pakistan's Prime Minister"۔ the.Ismaili (بزبان انگریزی)۔ 2019-07-13۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  14. commonwealth commonwealth (2019)۔ "CYSOM2019" (PDF) 
  15. "Pakistani footballer Karishma Ali featured in Forbes 30 under 30 list"۔ Daily Pakistan Global (بزبان انگریزی)۔ 2020-10-13۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  16. "Karishma Ali"۔ Forbes (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2020 
  17. "Pakistan shines at Milan Fashion Week 2019"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  18. "How Chitral stole the show at the Milan Fashion Week 2019"۔ www.tribune.com.pk (23 ستمبر 2019)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019