فرانس کے صوبہ ( فرنچ ڈیپارٹمنٹ ) دور دون میں لے آئزی دوتیاک کے مقام پر شاہراہ کی توسیع کے سلسلے میں کھدائی ہوئی اور ایک پہاڑی کاٹنی پڑی۔ اس پہاڑی میں غاریں تھیں۔ جس کو پرانی مقامی بولی میں کرو منگنان CRO MAGNON کہا جاتا تھا۔ جس کا مطلب ہے ’ بڑی غار ‘۔ ان غاروں میں اس انسان کی اس کی بہت سی باقیات ملی ہیں۔ جو آخرٰی برف کے زمانے میں فرانس اور یورپ میں رہتا تھا۔ ان کھدائیوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ مقام ہزاروں سال گنجان آباد رہے ہیں۔ خاص طور پر آئزی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قبل تاریخ زمانے میں دنیا پھر کا دار الحکومت تھا۔ ظاہر ہے قدیم ابتدائی سماج میں عالمی سلطنت کا وجود فرض کرنا محض جزباتی سی بات ہے۔ بہر حال اس علاقے میں گنجان ہونے سے سماج کی زبر دست ترقی کا ثبوت ضرور ملتا ہے ۔

کرو میگنان سے ملے والے جسمانی اعضائ کے مالک کو ’ کرو میگنان آدمی ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا زمانہ 35 ہزار سال قبل سے لے کر دس ہزار سال قبل تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ مشرق وسطیٰ سے نکلے تھے اور وہاں سے یورپ میں داخل ہوئے اور پورے یورپ میں چھاگئے ۔

کرو منگنان آدمی کو ایک خاص نسل انسانی ’ کرو میگنان ‘ نسل کا نمائندہ سمجھنا چاہیے۔ جس وقت ان غاروں میں کھدائی ہوئی تو تو تقریباً پندرہ افراد کی لاشیں یہاں سے ملیں۔ لیکن ان میں کافی لاشیں ضائع ہوگئیں اور اب ان میں صرف چھ افراد کے ڈھانچوں کے کچھ ٹکرے محفوظ ہیں۔ ان میں ایک پچاس سالہ مرد کی کھوپڑی اور اس کا نچلا جبڑا بھی شامل ہے۔ اسے کرو مینگنان کا بڑھا کہا گیا ہے۔ باقی مجحرات دوسرے افراط کہ ہیں۔ کچھ ہڈیوں کے ٹکڑے ایک قبل از وقت پیدائش بچے کے ہیں یا یہ ہو سکتا ہے نہ نوزائدہ بچہ ہو۔ ان میں سب میں مشہور کرو میگنان کا بڑھا ہے۔ جس کو اس نسل کا نمائندہ فرد قرار دیا گیا ہے فنکارو ے اس کا مجسمہ بھی بنایا ہے ۔

اس کی کھوپڑی لمبوتری ہے اور اوپر سے دیکھیں تو مخمس نما لگتی ہے۔ جس میں طرفین کی ہڈی باہر کو ابھری ہوئی ہے۔ دماغی گنجائش 1600 کیوبک سینٹی میٹڑ ہے۔ پیشانی سیدھی ہے اور ابروؤں کی ہڈی کا ابھار بہت معمولی سا ہے۔ خانہ مغز کی محراب چپٹی سی ہے اور کھوپڑی کی عقبی ہڈی باہر کو نکلی ہوئی ہے۔ بحثیت مجموعی کھوپڑی نسبتاً زیادہ لمبی اور کم چوڑی ہے۔ اس کے مقابلے میں چہرے کی لمبائی کم اور چوڑائی زیادہ ہے۔ یہ خصوصیات کرو میگنان نسل کی مشترکہ خصوصیات تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بڑھے کی آنکھوں کے رخنے اندر کو دھنسے ہوئے ہوئے، چوڑے اور چوکور تھے۔ ناک کی ہڈی کے سوراخ تنگ اور باہر کو ابھرے ہوئے تھے۔ نچلا جبڑا مظبوط اور ٹھوڑی نمایاں تھی، اس بڑھے کے منہہ میں صرف ایک دانت تھا۔ باقی دانت یا تو بڑھاپے کی وجہ سے گر گئے تھے یا پھر ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد ضائع ہو گئے ہوں۔ دیگر افراد کے دانت صحیح سلامت ملے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نسل کے دانت کی ساخت ہوبہو موجودہ انسان کے مطابق تھی ۔

دنیا میں دوسرے علاقوں سے اس کے جو مجحرات ملے ہیں، مثلاً گلیمورگن شائر میں پاوی لینڈ، بلجیم میں ایگنس، فرانس میں لامیدیلین، برونی کے چانس لید اور مینتن، اٹلی میں گری مالدی، چیکوسلوویکیہ میں پریم دوست اور یورپ و ایشیا اور شمالی افریقہ کے دیگر مقامات سے ان سب کو سامنے رکھ کر کرو میگنان آدمی کی زندگی کی ایک واضح شکل سامنے آتی ہے ۔

کرو میگنان نسل ی دماغی گنجائش 1600 کیوبک سینٹی میٹر اور قد 166 سے 171 سم تک ( پانچ فٹ پانچ انچ سے پانچ فٹ سات انچ تک ) تھا۔ اٹلی سے ملنے والے ڈھانچوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا قد اوسطاً 177 سم ( تقریباً چھ فٹ ) تھا۔ بعض ماہرین نے بعض افراد کا قد چھ فٹ تین انچ تک بتایا ہے۔ بحثیت مجموعی یہ نسل دارز قامت یا کم از کم متوسط القامت تھی۔ پستہ قد ہر گز نہ تھی ۔

یہ سوال کہ آیا کرو میگنان آدمی برا راست نی اینڈر تھال آدمی کی اولاد تھا یا نہیں۔ ابھی حتمی طور پر طے نہیں ہوا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مشرقی وسطیٰ سے یورپ میں داخل ہوئے اور انھوں نے نی اینڈر تھال نسل کو یا تو ختم کر دیا یا دونوں باہم جذب ہو گئے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ رہتا ہے کہ آیا مشرقی وسطیٰ سے نکلنے والا کرو میگنان مشرقی وسطیٰ کے نی اینڈر تھال کی اولاد تھے یا نہیں؟ تاہم بہت سے قدیم انسانی مجحرات کا زمانہ پانچ لاکھ سال سے ایک لاکھ سال پہلے تک کا ہے اور جو یقناً نی اینڈر تھال ہیں اور ان کے نسلی اثرات آج بھی انسانوں میں دریافت کیے گئے ہیں۔ کرو میگنان مجحرات قدیم حجری دور کے وسطی حجری دور اور جدید حجری دور میں پائے گئے ہیں۔ یورپ میں یہ دونوں اعلی الترتیب آٹھ ہزار ق م تا پانچ ہزار ق م اور پانچ ہزار ق م تا دو ہزار ق م پر محیط ہیں۔ اس لیے یہ باور کرنا مناسب ہے کہ کرو میگنان آدمی نی اینڈر تھال نسل کا تسلسل تھا ۔

کرو میگنان اپنی شکل کی ساخت میں جدید یورپی انسان کے انتہائی قریب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی جدل سفید تھی۔ کرو میگنان نسلی اثرات موجودہ انسانی گروہوں میں پائے گئے ہیں۔ بالعموم فرانس، اسپین اور شمالی افریقہ اور خاص طور پر ڈال نسل کے لوگوں میں، جو سویڈین کے وسطی صوبہ ڈال میں یہ اثرات بے حد تک نمایاں ہیں ۔

کرو میگنان کے بنائے ہوئے پتھر اور ہڈی کے اوزاروں کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ یہ محض ٹوڑ پھوڑ سے بنائے گئے اوزار نہیں ہیں، بلکہ ان کو رگڑ کر ملائم اور ان کے پھل کو تیز کیا گیا ہے۔ کھرچنے کے اوزار، چھینی، ستھری جیسے اوزار اور ہڈیوں سے بنائے گئے نفیس اوزار مثلاً لمبے اور چپٹے اور نوکدار پھل جیسے نیزے کے ہوتے ہیں۔ دو شاخہ پھل، چمڑے میں سوراخ کرنے کے لیے تیز دھار والا نالی نما اوزار، چمڑے کی سطح چھیلنے اور صاف کرنے والے اوزار، اس طرح سینگوں اور ہڈیوں کے ڈنڈے جن میں سوراخ کیے گئے ہیں ۔

ان کے ٹھکانے زیادہ تر غاروں میں تھے یا قدرتی پہاڑی چھجوں کے نیچے تھے۔ یہ لوگ خود گھر بنا کر بھی رہتے تھے۔ یہ خود ساختہ گھر بھی پہاڑی چٹانوں کے ساتھ مزید پتھر جوڑ کر مصنوعی دیواریں اٹھا کر بنائے جاتے تھے۔ ان لوگوں کے یہ گھر مسقل رہاہش کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ لوگ خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش نہیں تھے۔ البتہ ان کی گذر اوقات چونکہ شکار پر تھی۔ اس لیے ان کے علاقے میں شکار کے جانور ناپید ہوجاتے ہوں گے تو ان کا آمادہ سفر ہونا مشکل بھی نہ ہوگا۔ جن جانوروں کا شکار کرتے تھے ان میں رینڈیر، ارنے، جنگلی گھوڑے اور میمٹھ شامل تھے ۔

یہ لوگ نی اینڈر تھال سے ذہنی، فکری اور ثقافتی طور پر کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ وہ نہ صرف ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ تھے بلکہ فن میں بھی۔ اس انسان کی سجائی ہوئی ستر غاریں فرانس میں ملی ہیں۔ ان کا زمانہ تخلیق 28000 ق م تا 10000 ق م تک سمجھا جاتا ہے۔ ان میں غار کی چھت اور دیواروں پر بنی ہوئی تصویریں، چٹانوں پر کی ہوئی بنت کاری اور کندہ کاری، چٹانوں پر ابھرے ہوئے مجسمے، پتھر کے بنے ہوئے عورتوں کے ننے منے مجسمے شامل ہیں۔ یہ ساری نقش گری جانوروں کے شکار اور زندگی کے دیگر عملی کاموں کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ایک غار میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ یہ غاروں میں طویل انسانی قیام کا ثبوت ہیں۔ غاروں کے فرش میں مدفون مختلف سطحوں پر لاتعداد انسانی ڈھانچے، چولھے اور اوزار ملے ہیں۔ جوں جوں زمانہ حال کے قریب آتے جاتے ہیں مجسموں کی جسامت بڑی ہوتی جاتی ہے ۔

مصور چھتوں والے غاروں کی چھتیں اتنی تنگ غاروں میں ہیں کہ انسانی رہاہش ناممکن تھی۔ لہذا ان تصویروں کا مقصد دوسرے انسانوں کو لذت نظارہ دینا نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد ’ جادو ‘ تھا۔ کرو میگنان انسان شکاری تھا اور بدقسمتی سے بچنے اور خوش قسمتی کے لیے تصویریں بناتا تھا۔ یہ حقیقت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اکثر تصویریں جانوروں کی ہیں۔ جن کو یا نیزے چبھے ہوئے ہیں یا جن کے جسموں پر نیزوں کے جسموں کے نشانات ہیں اور اکثر کو کسی نہ کسی طرح حذف بنیایا گیا ہے ۔

یہ انسان صرف مصور نہ تھا بلکہ سنگ تراش اور مجسمہ ساز بھی تھا۔ اس نے جانوروں کی تصویریں کھودیں اور تراشی ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں کے ابھار کو چٹان کے قدرتی پیچ و خم سے ہم آہنگ کرکے مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ عورتوں کے جو مجسمے ملے ہیں وہ چند انچ قد کے ہیں۔ یہ مجسمے یورپ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور مشرق میں سائبیریا تک کئی مقامات سے ملے ہیں ۔

عورتوں کے مجسموں میں سر چھوٹے بنائے ہیں اور بالوں یا چہرے کے نقوش پر توجہ نہیں کی گئی ہے۔ بازو اور ٹانگیں بھی انتہائی چھوٹی بنائی گئیں ہیں۔ ساری توجہ چھاتیوں اور کولھوں صرف کی گئی ہے، جو انتہائی مبالغہ آمیزی سے بنائے گئے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ ذرخیزی اور تخلیق کی علامت ہیں۔ ذرخیزی اور تخلیق کے جادو میں استعمال ہوتی ہوں گی۔ ان کی عمر بیس سے پچیس ہزار برس ہے اور یہ سب انسان کی عملی زندگی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی عمدگی اور نفاست کا معیار اتنا بلند ہے کہ بلاشبہ یہ فن کے شہکار دینے کے قابل ہیں ۔

ان فن پاروں میں خاص طور پر ’ براسم پائی کی وینس ‘ کا مجسمہ اور ’ ہنہناتے گھوڑے ‘ کے سر کا مجسمہ جو ّری ایج ( فرانس ) کے مقام پر بنایا گیا تھا یا میڈیلین کے مقام پر جو ارنا ملا ہے وہ دنیا فن کے شہکاروں میں شمار ہوتا ہے۔ فن کا یہ اعلیٰ معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں کی سنگتراشی، اوزار سازی، رنگ سازی کی صنعت اتنی ترقی کرچکی تھی کہ وہ یہ سب کچھ کرسکتے تھے۔ یقیناً ان لوگوں کو ٹیکنالوجی، سائنس اور فن کی تعلیم دی جاتی ہوگی۔ چاہے اس کی سطح اور شکل کچھ بھی ہو۔ ماہر سے نو آموز کی طرف، استاد سے شاگرد کی طرف تعلیم، علم تجربے اور ہاتھ کی مہارت کی منتقلی کا سلسلہ شعور کی بلند تر سطح پر شروع ہو چکا تھا۔ ان کے فن کے اعلیٰ نمونے جن غاروں میں موجود ہیں ان میں فرانس کی لے آئزی اور فونت دوگام کی غاریں اور اسپین میں التمیرہ کی غاریں زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا پھر میں اس قسم کی غاریں یورپ سے لے کر سائبیریا تک پھیلی ہوئی ہیں ۔

کرو میگنان کے مرحلے پر آکر ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی ارتقا کا سلسلہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سے آگے ذہنی، فکری اور سماجی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ مقام جسمانی ارتقائ کی انتہا اور سماجی و فکری ارتقا کی ابتدا ہے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور