کھڑا آدمی
کھڑا آدمی دور: 1.9–0.07 ما Early وسط حیاتی دور – Middle وسط حیاتی دور | |
---|---|
Tautavel سے ایک نمونہ کی تعمیر نو، فرانس
| |
اسمیاتی درجہ | نوع [1] |
جماعت بندی | |
مملکت: | جانور |
جماعت: | ممالیہ |
طبقہ: | حیوانات رئیسہ |
خاندان: | Hominid |
جنس: | Homo |
نوع: | H. erectus |
سائنسی نام | |
Homo erectus[1][2] Eugène Dubois ، 1893 | |
مرادفات | |
*† Anthropopithecus erectus
|
|
درستی - ترمیم |
جنوبی مانس کے بعد کھڑے آدمی یا مستقیم القامت کا ظہور ایک اور انقالاب ہے۔ کھٹڑے آدمی کا زمانہ پندرہ لاکھ سال قبل سے تین لاکھ سال قبل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس رکاز گذشتہ سو سال سے دنیا کے مختلف میں دریافت ہو رہے ہیں۔ شروع کے چالیس سال تک تقریباً ہر دریافت کو الگ نسل ثابت کیا جاتا رہا ہے اور طرح طرح کے متفرق ان رکاز کے نام رکھے جاتے رہے۔ ان میں مقبول عام پتھے کن تھروپس، اٹلان تھروپس، سنان تھروپس تھے۔ لیکن زیادہ شواہد سامنے آجانے خیال کیا جاتا ہے کہ کہ سب ایک ہی نوع کھڑے آدمی HOMOERECRUS کے اعضائ ہیں۔
جنوبیی مانس کا بعد غالباً قابل آدمی کا رہا ہوگا اور اس کے بعد کھڑے آدمی کا زمانہ آتا ہے کھڑے آدمی کے بعد باشعور آدمی کا ظہور ہوتا ہے۔ مگر ان سب کا کچھ نہ کچھ زمانی تجاوز بھی ہے۔ پرانی نسل سے نئی نسل جنم لیتی ہے اور دونوں کچھ عرصہ ساتھ چلتی ہیں تا آئکہ قدیم نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے ۔
چین میں بسنے والے آدمی کوپیکنگ انسان PEKING MAN اور داکٹر دوابو کی دریافت، نام نہاد گم شدہ کڑی کو ۔۔۔ پتھے کن تھروپس ۔۔۔۔ جو درحقیقت کھڑا آدمی ہی تھا جاوا انسان کا نام دیا گیا۔ کھڑے آدمی کے رکاز دور دراز علاقوں میں کثرت سے ملے ہیں۔ پیکنگ انسان اور جاوا انسان کے علاوہ الجزائر میں ننزنی فائن کے مقام پر کھڑے آدمی کی ہڈیاں ملی ہیں۔ افریقہ کے دوسرے علاقوں میں آلڈووائی گھاٹی اور کوبی فورا میں بھی اس کے اعضائ ملے ہیں۔ مراکش میں رباط کے قریب ایک کھوپڑی کے کچھ حصے اور سدی عبد الرحمٰن میں جبڑے اور دانت ملے ہیں۔ ان میں آلڈووائی کے رکاز زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ اس طرح کینیا میں جھیل ترکانہ کے پاس سے کافی تعداد میں نہایت گرانقدار رکاز ملے ہیں۔ جنوبی مغربی افریقہ میں سالے کے مقام پر بھی اس کے اعضائ دریافت ہوئے۔ یورپ میں مشرقی جرمنی کے شہر زنگسل بن اور یونان میں پیٹرا لونا کے قریب اس ڈھانچے ملے ہیں ۔
اس کے علاوہ افریقہ میں کاب وے ( زمبیا ) جھیل دؤ و ( تنزانیہ ) میں آلڈووئی گھاٹی کے قریب اوموالائدس فوتیان، آتش دانوں کی غار Cave of Hearths اور بودو ( حبشہ ) کے مقامات پر اور یورپ میں سوانس کومبی، سٹین ہائم، بائش، ایرنگس ڈارف اور لاچیز کے مقام پر ایسے رکاز ملے ہیں۔ جن کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ کھڑے آدمی کے اعضائ ہیں یا باشعور آدمی کے تھے۔ غالباً ارتقائی اعتبار سے وہ مرحلہ تھا جب کھڑا آدمی باشعور آدمی کی جون میں ڈھل رہا تھا۔ یہ زمانہ چار سے پانچ لاکھ سال پرانا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھڑے آدمی کے جسمانی خصائس سر اور چہرے ( خصوصاً کھوپری اور جبڑوں ) کو چھوڑ کر موجودہ انسان سے ملتے ہیں۔ بازوؤں اور ٹانگوں کی ہڈیاں دونوں ایک جیسی ہیں۔ اس طرح کھڑے آدمی اور باشعور کے درمیان فرق بھی اصل فرق کھوپڑی اور دانتوں کی بناوٹ کا میں ہے۔ بازواؤں اور ٹانگوں میں چندان فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان اہم ترین فرق دماغی گنجائش کا ہے۔ کھڑے آدمی کے دماغ کی اوسطاً گنجائش 941 کیوبک سینٹی میٹر۔ اس نسل کے جتنے بھی رکاز ملے ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹی کھوپڑی کی دماغی گنجائش 750 کیوبک سینٹی میٹر ہے اور سب سے بڑی کھوپڑی 1300 کیوبک سینٹی میٹر ہے۔ جب کہ باشعور آدمی کی اوسطاً گنجائش 1450 ک سم ہے۔ موجودہ انسان کے دماغی گنجائش کم کم 1000 ک سم تک اور زیادہ سے زیادہ 2000 ک سم تک ہے۔ مختلف انسانی انواع کی اوسطاً دماغی گنجائشوں کا معاملہ درج ذیل موازنے سے واضح ہو جائے گا ۔
نازک اندام جنوبی مانس 400 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
گرانڈیل جنوبی مانس 519 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
قابل آدمی 640 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
کھڑا آدمی ( جاوا انسان ) 883 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
( پیکنگ آدمی ) 1075 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
باشعور آدمی 1450 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
باشعور باشعور آدمی ( موجودہ انسان ) 1000 تا 2000 ک سم ( کیوبک سینٹی میٹر )
کھڑے آدمی کی کھوپڑی کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس کا سر نیچا ہے پہلوں کی طرف سے اوپر سے نیچے کو ڈھلونی ہے اور اس کی استخوانی دیواریں موٹی ہیں۔ آنکھوں کے رخنوں کے اوپر کا ہڈی کا ابھار جھجے کی طرح آگے کو بڑھا ہوا ہے۔ کھوپڑی کے پچھلے حصے پر ہڈی کا ایک موٹا سا تختہ سا بنا ہوا ہے۔ پیشانی پیچھے کو ہٹی ہوئی ہے ناک چوڑی ہے۔ جبڑے اور تالو کی ہڈی چوڑی اور قدرے نمایاں ہے۔ دانت باشعور آدمی سے بڑے ہیں۔ لیکن جنوبی آدمی سے چھوٹے ہیں۔ سامنے کے دانت خصوصاً کاٹنے والے دانت اور انیاب انسانی مانسوں سے بڑے ہیں۔ تمام ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مجموعی طور پر کھڑے کی بتیسی کی ساخت انسانی مانسوں کی سی ہے، بندر مانسوں Pongid Apes کی سی نہیں ہے ۔
اس کے جسم کی ساخت یعنی بازو اور ٹانگیں اور آسن کا ڈھانچہ موجودہ انسان کے بہت قریب ہے ۔
چین میں چو کوئیان غار سے پیکنگ انسان کے جو رکاز ملے ہیں ان میں چھ مکمل کھوپڑیاں، نو کھوپڑیوں کے ٹکڑے، چہرے کی ہڈیوں کے چھ ٹکڑے، پندرہ جبڑے، 25 دانت، بازوؤں اور ٹانگوں کے سات ٹوٹے ہوئے رکاز۔ یہ سب رکاز چالیس سال سے زیادہ عمر کے افراد کے تھے ۔
پیکنگ انسان کی اوسط دماغی گنجائش موجودہ انسان کی اوسط دماغی گنجائش کا 83 فیصد بنتی ہے۔ جب کہ جنوبی مانس کا دماغ پیکنگ انسان کے دماغ کا 56 فیصدی تھا۔ اس کے رخسار کی ہڈیاں اونچی اور چپٹی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ناک چوڑی اور چہرہ چبٹا ہوگا۔ اس جبڑوں کے سائز متفرق تھا۔ یعنی مردوں کے جبڑے بڑے تھے اور عورتوں کے کے چھوٹے۔ جبڑا آگے کو بڑھا ہوا تھا اور ٹھوڑی نہ ہونے کے برابر تھی۔ موجودہ انسان سے بہت ملتی جلتی تھی۔ ران کی ہڈی اور پنڈلی کی ہڈی دونوں کا سائز، ان کی شکل اور ان کے ساتھ پٹھوں کا جوڑ، نیز مختلف اجزائ کا آپس میں جوڑ اور ان کے حجم کا تناسب سب جدید پیمانے کے مطابق تھا ۔
سماجی زندگی
ترمیمکھڑے انسان کی روز مرہ زندگی کی تفصیلات معلوم کرنے کا ایک تو ذریعہ تو اس کے رکاز کا تجزیاتی مطالعہ ہے اور دوسرا اس حقیقت میں بھی ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اور کس ماحول میں اس کی ہڈیاں ملی ہیں نیز ہو کس عہد سے تعلق رکھتی ہیں ۔
چین میں چو کوتیان میں ہڈیاں ملی ہیں۔ وہ سب غار میں سے ملی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ پیکنگ انسان غاروں میں رہتا تھا۔ اگر اس بات کو کافی ثبوت نہ بھی سمجھا جائے تو اس کے غار نشین ہونے کے دوسرے شواہد بھی ملے ہیں۔ مثلاً اس انسان کے اپنے جسم کے رکاز کے علاوہ وہاں پتھر کے اوزار بھی پائے گئے ہیں، جانوروں کی ٹوڑی ہوئی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ کچھ پودوں کے بیج بھی ملے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ آگ کے اثرار مدفون ملے ہیں ۔
چو کوتیان کے علاوہ چین میں لان تئین سے جو رکاز ملے ہیں، وہ کھلے میدانی علاقوں سے ملے ہیں۔ اس جگہ ایک کھوپڑی ایک بالائی جبڑا اور تین دانت ملے ہیں۔ ان کا زمانہ دس لاکھ سال سے بھی پرانا ہے۔ یہ انسان ( اولین پیکنگ انسان ) ہتھیار بھی بنا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کے دفینوں سے کچھ پتھر کے بھدے سے اوزار ملے ہیں۔ جو کھوپری سے کسی قدر بالائی چٹانوں میں مدفون تھے۔ مگر زمانہ وہی رہتا ہے۔ یہ زیادہ تر پھلوں اور سبزیوں پر گزارہ کرتا تھا۔ لیکن کچھ نہ کچھ گوشت بھی کھایا کرتا تھا۔ اس کے ہم عصر جانور شیر، چیتے، ہاتھی، گھوڑے، سور اور ہرن تھے۔ ان میں ہرن خاص کر اس کا شکار بنتے تھے۔ جسے یہ بھون کر کھا جاتا تھا۔ اس کے اوزار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اجتماعی طور پر ٹھکانے بنا کر رہتے تھے۔ ان کے ٹھکانے دریاؤں کے کنارے ہوتے تھے تاکہ خود بھی پانی سہولت سے پی سکیں اور پانی پینے والے جانوروں کا شکار کرسکیں۔ ان کے اوزاروں میں ایک چھ لاکھ سال پرانا پتھر کا گولہ ملا ہے جو اس عہد میں ایک عظیم ایجاد تھی ۔
اس طرح سماٹرا ( انڈونیشیا ) میں تری گاؤں کے قریب جاوا میں موجود کرتو اور سنگیران کے قریب جو رکاز ملے ہیں وہ سب میدنی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔
الجزئر میں ترنی فائن ہے ملے والے رکاز اور شمالی تنزانیہ میں آلڈووئی گھاٹی کے مشہور رکاز میدانی ہیں۔ البتہ ان بیشتر ندیوں یا جھیلوں یا کسی بھی پانی کے قریب ہہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخلوق کھلی جگہ میں رہتی تھی ۔
ہنگری میں بوڈاپسٹ سے پچاس کلومیٹر دور ورتیسولوس کے مقام پر جو پتھرائی ہوئی ہڈیاں اور دیگر باقیات ملی ہیں، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ کھڑا آدمی مٹی کے گھرندوں میں رہتا تھا، جو دریائے دینوب کے ایک معاون دریا کے پانی نے اور چشموں نے مٹی اور معدنیات کے ڈھیر لگا کر قدرتی طور پر بنادیئے تھے۔ یہاں پر شکار شدہ جانوروں کی باقیات ملی ہیں اور آگ کے استعمال کے نشانات بھی۔ چوتیان اور ورتے سولوس کے دفینے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ انسان آگ کے استعمال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آگ پر قابو پانے کے نتیجے میں اس نے مسلسل مصروف رہنے کا بجائے کہیں پناہ گاہوں میں قیام کی ضرورت محسوس ہوگی، جہاں آگ کا ذخیرہ کیا جاسکے۔ ایک چولھا ہو جس میں مسلسل آگ جلتی رہے ۔
آگ نے جہاں ان کو مستقبل یا نیم مستقبل ٹھکانوں میں رہنا سکھایا، وہیں ان پر دو بڑے اہم اثرات مرتب کیے۔ ایک تو یہ آگ کی مدد سے زیادہ ٹھنڈے علاقوں میں جانے اور رہنے کے قابل ہو گئے۔ یورپی علاقوں کی طرف سفر زیادہ آسان ہو گیا اور دوسرے وہ اپنی خوراک بھون کے یا باقیدہ پکا کر کھانے کے قابل ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں انھیں بڑے اور مظبوط دانتوں کی ضرورت نہیں رہی اور بقا اصلح قانون کے تحت بڑے دانٹ بقا کی لازمی شرط نہ رہے۔ اب بقا کی خونخوار جنگ میں بڑے دانت کی بجائے بہتر عقل کو قوفیت حاصل ہو گئی۔ جس کا اظہار آگ کے استعمال ۔۔۔۔ گوشت بھونے اور دشمن کی بھگانے کے لیے ۔۔۔ اور اجتماعی زندگی کی شکل میں ہونے لگا ۔
کھڑے انسان کی عملی زندگی پر روشنی ڈالنے والی دوسری بڑی چیز پتھر کے وہ اوزار، چاقو، چھریاں، ٹوکے ہیں، جو ان کے جسموں کے پاس مدفون ملے ہیں۔ اس صنعت کو قابل تاریخ کے جنوب مشرقی ایشیا کی چاقو و چھری کی صنعت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس قسم کے اوزار ہیں جو ایک پتھر کو دوسرے پھتر سے تراش کر نوکدار بنا کر تیار کیے گئے ہیں۔ اس ہتھیار کا جو حصہ ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے وہ اپنی قدرتی حالت میں گول اور ہموار ہے۔ جب کہ دوسرے سرے کو نوک دار بنایا گیا ہے۔ اس طرح ہڈیوں کو ٹور کر اور پتھروں کے چھری سے کاٹ کر ان کو بھی اوزاروں کی شکل دے دی گئی۔ یعنی اوزار کی مدد سے اوزار بنائے گئے ۔
ادھر افریقہ اور یورپ میں نسبتاً بڑے دو ھاری ہتھیار جنہیں چاقو کی بجائے کلہاڑا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسی انسان کی باقیات سے ملے ہیں۔ افریقہ کی اس صنعت کو اکیولین صنعت ASHULIAN ANDUSTRY نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
پتھر کے ان ہتھیاروں کی فروانی اور جانوروں کی ٹوٹی اور ترشی ہوئی ہڈیاں یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ انسان شکاری تھا۔ جب کہ اس کا پیش رو جنوبی مانس مردار خور تھا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جنوبی مانس کے دفینوں میں یا تو بڑھے جانوروں کی ہڈیاں ملی ہیں یا جانوروں کے بچوں کی ہڈیاں ملی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے باقعدہ شکار کرکے تازہ گوشت بھون کر کھاتا تھا۔ البتہ اس کے علاوہ وہ پھل و سبزیاں اور پتے ضرور کھاتا ہوگا۔ کیوں کہ ان کی باقیات بھی اس کے دفینوں سے ملی ہیں ۔
پیکنگ، لان تئین، جاوا اور آلڈوائی۔ یہ مقامات ایک دوسرے سے آٹھ ہزار میل دور ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے قدیم انسان ان جگہوں پر پھیلا۔ ظاہر ہے اگر وہ ایک جگہ پیدا ہوا اور باقی جگہوں پر وہاں گیا تو یقناً پیدل گیا ہوگا۔ راستے میں بڑی روکاوٹیں بھی تھیں۔ دریا بھی تھے سمندر بھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ یقنا ایک انتہائی کامیاب مخلوق تھا۔ جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے یہ چلنے کی زبردست صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کی ٹانگوں کی جو ہڈیاں ملی ہیں ان کو جدید انسان سے امتیاز کرنا بے حد مشکل ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس کا باقیدہ جسم بھی انسان سے ملتا جلتا ہوگا۔ اس کا دماغ بھی تو 750 سے لے کر 1300 کیوبک سینٹی میٹر کے دائرے میں تھا ۔
مانس اور دماغ میں فرق سائز کا بھی ہے۔ مانس کا دماغ چھوٹا اور انسان کا بڑا ہے۔ لیکن دونوں کے دماغ کی ساخت تقریباً ایک جیسی ہے۔ دونوں کے دماغ کے مماثل حصے مماثل کام سر انجام دیتے ہیں۔ عقبی حصہ اور معلومات کی ذخیری اندوزی کرتا ہے۔ مرکز اور طرفین میں ایسے حصے ہیں، جو گفتگو، یاداشت، جسمانی محسوسات اور جسمانی حرکت کو کنڑول کرتے ہیں اور دماغ کا سامنے کا حصہ سوچنے کا کام کرتا ہے۔ چھوٹا دماغ کم فہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس میں دماغی خلیوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ نیز مختلف خلیوں کے رابطہ سادہ ہوتے ہیں۔ ظاہر جتنا بڑا دماغ ہوگا اتنے ہی زیادہ پیچیدہ خلیاتی رابطے ہوں گے۔ اتنی ہی دماغ کی سوچنے کی صلاحیت زیادہ ہوگی ۔
بن مانس کے دماغ میں وہ خلیے سرے سے نہیں ہوتے ہیں، جو گفتگو کا باعث بنتے ہیں، لہذا بن مانس کو آپ گھر میں بھی پال لیں اور لاکھ بولنا سیکھائیں بولنا نہیں سیکھیں گے۔ کیوں اس کے دماغ میں وہ مشنری سرے سے ہی موجود نہیں جو بولنے کے عمل کو جنم دیتی ہے ۔
کھڑے آدمی کے دماغ کے سائز یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں سوچنے کی صلاحیت یقیناً تھی، اگرچہ زیادہ سوچ بچار کی نہیں۔ اس کے دماغ کا سامنے کا حصہ انسان کے دماغ کے اس کی نسبت کافی چھوٹا تھا مگر ضرور تھا ۔
کھڑے آدمی نے انتہائی قدیم پتھریلے چاقوؤں سے لے کر زیادہ کار آمد دستی کلہاڑے بنانے تک کے اوزار سازی کے فن میں ترقی کی۔ لہذا وہ کہیں بہتر شکاری تھا اور بڑے بڑے جانوروں کا شکار کر سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے منصوبہ بندی اور تعاون کی ضرورت تھی۔ لہذا وہ مل جل کر رہتا تھا۔ چاہے غاروں میں اور چاہے کھلے میں۔ اجتماع میں کسی نہ کسی قسم کی گفتگو کی لازمی ضرورت تھی۔ لہذا کچھ نہ کچھ گفتگو ضرور ہوا کرتی گی۔ کوئی نہ کوئی زمان ۔۔۔ اشاروں، کنایوں اور آواز کے مفاہیم کی زبان ضرور رہی ہوگی ۔۔ چیالان نے ابتدائی نطق کے امکان کو تسلیم کیا ہے ۔
سپین میں طرالیہ اور امبرونہ کے مقامات پر جو رکاز ملے ہیں، ان میں لاتعداد ہڈیاں ہاتھیوں کی تھیں۔ ان میں ایک معدوم جانور کی ہڈیاں بھی تھیں، جو ہاتھی کی طرح دیکھانے والے دانت رکھتا تھا جو سیدھے تھے۔ اس کا جسم موجودہ ہاتھی سے بڑا تھا۔ ان کی ہڈیاں ایک ہی جگہ پر اتنی زیادہ ملی ہیں کہ ان کا ایک جگہ اتفاقاً وہاں جمع ہو جانا خارج امکان تھا۔ ہاتھی کی ہڈیاں کئی بڑی بڑی ہڈیاں توڑی گئیں تھیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ منصوبہ بندی کے ساتھ مل جل کر شکار کیے گئے تھے۔ اپنا شکار اپنے ٹھکانے پر لا کر مارتے تھے اور مل جل کر گوشت کھاتے تھے۔ جو بھون کر کھاتے تھے۔ پتھر کے بے شمار اوزاروں کے علاوہ نوکدار لکڑیاں بھی یہاں سے ملی ہیں اور آگ کے آثار بھی وافر مقدار میں ملے ہیں۔ یہ یاتھی اس جگہ آگ کے ذریعے ہنکا کر دلدل میں پھنسا کر مارتے تھے۔ کیوں کہ ایک جگہ مارنا اور پھر گھسیٹ کر لے جانا بعید از قیاس ہے۔ ۔۔۔ اس جگہ پر انسانی مجحر نہیں ملا۔ شاید وہ وہاں رہتے نہیں تھے۔ بلکہ یہ ان کی شکار گاہ تھی۔ کھڑا آدمی یا تو ایسا خانہ بدوش تھا۔ جو بعض جگہوں پر باقیدہ پلٹ کر آتا تھا یا پھر وہ بعض ٹھکانوں کا نیم باشندہ۔ لباس کے استعمال یا عدم استعمال کے بارے میں معلوم نہیں ہے ۔
اس انسان کے بارے میں کسی قسم کے مذہبی رجحانات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مثلاً کسی قبر کا یا لاش کو باقیدہ دفن کرنے کا ایک بھی یا آدھا یا ادھورا سا ثبوت بھی نہیں ملا۔ زرد مٹی سے بنائے ہوئے وہ نشانات بھی کہیں نہیں ملے جو بعد کی نسلوں میں نظر آتے ہیں۔ اس طرح مردم خوری یعنی اپنی ہی نوع کے افراد کو کھانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ان کے پاس پتھر کے ہتھیار بنانے، آگ کو استعمال کرنے، جانوروں کو شکار کرنے اور خوردونی نباتات ڈھونڈ کر کھانے کی طبیعیات تو بھی لیکن مابعد الطبعیات کوئی نہیں تھی۔ ابھی مرحلہ تسخیر فطرت کا تھا۔ انسان کے ہاتھ دوسرے انسان کی محنت کا استحصال ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔
لیکن اتنی بات طے ہے کہ ان لوگوں نے اپنا ایک سماجی ڈھانچہ یقیناً ترتیب دیا تھا۔ جس کی مدد سے وہ دوسرے جانوروں سے اپنا دفاع کرتے تھے اور اپنا شکار مار لیتے تھے۔ گو ان کے بدن جارحانہ اعضا سے محروم تھے۔ مثلاً سینگ، ان کی جسمانی قوت اور بھاگنے کی رفتار بھی دووسرے جانوروں سے کم تھی۔ لیکن بہتر ذہانت کے بل پر سو دو سو افراد کے گروہ بنا کر دوسرے جانوروں کو چکمہ دے کر مختلف چالوں سے ان کو زیر کرلیتے تھے اور اپنی خوراک حاصل کر لیتے تھے۔ ان کی یہی سماجی صلاحیت ان کی آئندہ نسلوں کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی ۔
اس طرح انسانی ارتقائ جاری رہا۔ دماغ کا حجم بڑھتا گیا اور اس کی اندرونی ساخت پیچدہ ہوتی گئی۔ نتیجتہً اس کی ذہنی صلاحیت بڑھتی گئیں اور یہ ابتدائی انسان آئندہ مرحلے پر پہنچ گیا ۔
مختلف ماہرین نے اس بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں کہ آیا کھڑے آدمی کی نسل سے ہی براہ راست باشعور آدمی نے جنم لیا ہے یا درمیان میں کوئی اور کڑیاں ہیں اور جو بھی کچھ صورت بھی اس ارتقائ کی رہی ہو اس کی عملی تفصیل کیا ہے۔ ایک نظریہ و یہ کہتا ہے کہ کھڑے آدمی سے ہی باشعور آدمی نے براہ راست جنم لیا ہے۔ یہ لیکن یہ واقع ایک ہی بار نہیں ہوا، بلکہ پانچ مرتبہ ہوا ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے ارتقائ کا مرحلہ طے ہوا ہے۔ اس نظریہ کے سب سے بڑے مبلغ امریکی سائندان سی ایس کون ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ افریقہ میں کھڑے آدمی کے باشعور آدمی میں تبدیل ہونے سے دو لاکھ سال پہلے یورپ میں یہ عمل شروع ہو چکا تھا۔ اس طرح موجودہ انسان کی نسلیاتی تقسیم کا آغاز بھی کھڑے آدمی بلکہ اس پہلے کے زمانے ڈھونڈتے ہیں۔ مگر وہ اپنے نظریے کی تائید میں کوئی خارجی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ موصوف کے نظریہ کو زیادہ پزرائی نہیں ملی ۔
زیادہ تر تسلیم شدہ نظریہ یہی ہے کہ کھڑے آدمی سے باشعور آدمی نے جنم لیا۔ گو کہ باشعور آدمی کے ظہور کے بعد بھی پرانی نوع یک لخت ختم نہیں ہو گئی۔ بلکہ طویل عرصہ دونوں نے ساتھ ساتھ رہے اور پرانی نوع کے مکمل ختم ہونے میں کافی وقت لگا۔ اس زمانی تجاوز کی غلط توجیہ کرنے کے باعث سی ایس کون نے اپنا مفروضہ پیش کیا ۔[3]
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیم- کھڑا آدمی ماخذ - فوصل ریکارڈ ایکسپلور - بریڈشا فاؤنڈیشن
ویکی ذخائر پر کھڑا آدمی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- آثار قدیمہ کی معلوماتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archaeologyinfo.com (Error: unknown archive URL)
- Homo erectus – سمتسونین انسٹیٹیوشن کا اصلِ انسان پروگرام
- Possible co-existence with کھڑا آدمی – بی بی سی
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ عنوان : Genera of the human lineage — جلد: 100 — صفحہ: 7688 — شمارہ: 13 — https://dx.doi.org/10.1073/PNAS.0832372100 — https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/12794185 — https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC164648
- ↑ "معرف Homo erectus دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2024ء
- ↑ یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور