کروشی
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
کروشی(کرویش) بھارت کی ریاست کرناٹک ضلع بلگام کی ایک گرام پنچایتی رہائشی علاقہ ہے۔ کروشی ،بلگام ضلع کی علمی و ادبی بستی ہے، جو ضلع بلگام کے چکوڑی تعلقہ کا ایک قدیم گرام پنچایت قصبہ ہے۔ مشہور و معروف بزرگ زبدة الواصلين قدوة السالکین حضرت شاہ راجی نور صاحب رحمتہ اللہ علیہ عرف شاہ نور باباؒ کی وجہ سے یہ بستی آس پاس کے شہروں اور گاؤں میں مشہور ہے کروشی میں پٹیل برادی بڑی تعداد میں موجود ہے یہ ساری پٹیل برادری دراصل زبدة الواصلين قدوة السالکین حضرت شاہ راجی نور صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی بہن کے بیٹے محمد میراں پٹیل کی اولاد میں سے ہے زرخیز زمینوں سے اُگنے والی ہر ی بھری فصلیں، اِس بستی کے حسن میں اِضافہ کرتی ہیں۔ یہاں کے عوام کا پیشہ کاشتکاری ہے اس کے علاوہ اساتذہ کا ایک بڑا طبقہ دور و دراز کے شہروں میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے، اس کے علاوہ اس بستی کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ نوکریوں کے سلسلے میں یورپی ممالک، عرب ممالک اور بھی دیگر ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔یہ بستی شعر و شاعری کے لیے بھی معروف ہے یہاں کیء کل ہند مشاعرے بھی منعقد کیے ہوءے ہیں استاد شاعر مرحوم حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی دیگر شعرا میں محبوب پاشا سحر، شاہد شاہ نوری، عرفان شاہ نوری، ناظم شاہنوری،آفتاب عالم شاہ نوری، قاضی ذکی،سلیم ساقی علمی و ادبی شخصیتوں میں حیات چاند پٹیل، شہاب الدین پٹیل،عبدالطیف قاضی،عبد الستار پٹیل،سید تاج الدین جمعدار ابا صاحب پٹیل، اقبال پٹیل (وکیل)،عبد الماجد پٹیل ،عطامحمدقاضی،اقبال عمرخان،کا شمار ہوتا ہے، یہاں کے تعلیمی اداروے کی شہرت کی وجہ سے اطراف و اکناف کے طلبہ علم سیکھنے کروشی آتے ہیں
Karoshi | |
---|---|
قصبہ | |
عرفیت: کرویش | |
ملک | بھارت |
ریاست | کرناٹک |
ضلع | بلگام |
بلندی | 536 میل (1,759 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 8,481 |
زبانیں اردو | |
• دفتری | کنڑا |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 591226 |
ٹیلی فون کوڈ | 08338 |
جغرافیہ
ترمیمیہ گاؤں بلگام سے67 کلومیٹر کے فاصلے پر شمالی کرناٹک میں آباد ہے۔ مہاراشٹرا سے لگے ہوئے کئی شہر ہیں جیسے سانگلی, کولہھاپور, میرج وغیرہ
تاریخ
ترمیمچکوڑی سے 5 کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود یہ گاؤں یہاں پر موجود حضرت راجی نور شاہ رحمۃ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کی ذات اقدس اور گٹی بسونا مندر کی وجہ سے عام و خاص کا مرکوز نظر رہا ہے۔درگاہ حضرت راجی نور شاہ رحمۃ اللہ علیہ عرف شاہ نور بابا ؒ کے تعلق سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں ہر آسیب زدہ انسان بابا کی کرامت کی وجہ سے تندرست ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب و بان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کا ہمیشہ ایک اژدھاررہا کرتا ہے۔کروشی کو چکوڑی کی ایک بڑی اور اہم بستی ہونے کا فخر حاصل ہے۔اس مقام کو ایک اہم تعلیمی مرکز ہونے کا بھی شرف رہا ہے۔اس گاؤں کا جغرافیائی رقبہ 2407.6 ہیکٹر ہے۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 8،481 بتائی جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق یہاں پر کم و بیش 1،919 مکانات ہیں۔یہ علاقہ اپنی زراعت اور کاشتکاری کے لیے مانا جاتا ہے۔
حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ درگاہ
کروشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس سر زمین کو دارالاولیا ء و بیت الفقراء ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس سر زمین پر حضرت راجی نور عرف شاہ نور باباؒ ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ " یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور عہد کرلیتے ہیں ، اس کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے ۔"(13 رعد 3 ع
اُس وقت بیجاپور علوم و فنون کا مرکز مانا جاتا تھا جہاں بڑے برے صاحب کشف و کرامات بزرگان موجود تھے۔ آپ کی ذاتِ اقدس بھی کشف کرامات تھی اور ہمہ وقت اپنی خانقاہ میں ریاضت اور مجاہدات میں مشغول رہنے لگے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں روشنی کا وجود بہت جلد پہچانا جاتا ہے، آپ کی آمد اور قیام کی خبر دور دور تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، بادشاہ وقت یوسف عادل شاہ تک بھی یہ خبر پہنچ گئی جو اس وقت تخت نشین تھا۔ آپ کی خانقاہ میں دور دور سے لوگ پہنچ کر فیوض سے مستفیض ہونے لگے۔ یوسف عادل شاہ بھی آپ کے حلقہ ارادت کا طلب گار ہوا اور ہر ماہ کم سے کم دو ایک بار آپ کی خدمت میں پہنچنے لگا۔
روایت ہے کہ یوسف عادل شاہ کو آپ سے گہری نسبت تھی ایک دن جب بادشاہ آپ کے پاس تھا ، خبر ملی کے کہ کرویش گاؤں فتح ہو گیا ہے۔بادشاہ نے اس کو حضرت شاہ نور بابا کی دعاؤں کا نتیجہ سمجھ کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ گاؤں محض آپ کی دعاؤں کی وجہ سے فتح ہوا ہے اس لیے یہ گاؤں آپ کو مبارک ہو۔عادل شاہ نے فرمان شاہی جاری کرتے ہوئے کروشی کی جاگیر آپ کے نام معنون انعام کردی اور اس کی پیشگی کا فرمان جاری فرمایا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ کرویش روانہ کر دیا کہ اس گھٹاٹوپ اندھیر میں اسلام کی شمع روشن ہو سکے
حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ
کہا جاتا ہے کہ اپنے کئی سال تک کرویش کے پٹیل کی حیثیت سے اس گاؤں کا نظم و نسق سنبھالا لیکن آپ کی شخصیت ایک مجر سیاح کی تھی جو خانگی امور کی جکڑ بندیوں سے مبرا رہا کرتا ہے دنیاداری آپ کا شیوا نہ تھا لیکن بادشاہ وقت کی دی گئی انعامی زمین سے دستبردار ہونا بھی ناگوار تھا۔اس لیے آپ نے پوری جاگیر اپنی بہن کے بیٹے حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردی اس طرح آج پانچ سو سال کا عرصہ ہوا کہ اس گاؤں کی پٹیلگی اور زمینداری حضرت محمد میراں رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد در اولاد میں جاری و ساری ہے۔اور اس خاندان کے لوگ آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت عوامی خدمات کا کام کر رہے ہیں۔ان کی اولاد میں آج حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی )اس کتاب کی تالیف کے وقت حیات ہیں اور انھیں کی سعی مسلسل کی وجہ سے حضرت راجے نور عرف شاہ نور رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے آگاہی ہوئی ہے
کرویش کی حوالگی اور زمین داری کے تعلق سے سلطان عادل شاہ کی طرف سے جاری کردہ شاہی فرمان آج بھی درویش کے پٹیل خاندان کی تحویل میں باب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مقدس امانت کے طور پر نسل درنسل محفوظ ہے ،یہ وہ فرمان ہے جس پر عادل شاہ کی مہر ثبت ہے۔ اس میں درج ہے کہ حضرت راجے نور شاہ درویش کو بادشاہ کی فرمائش پر کرویش کی زمین عطا کر دی گئی ہے اور اس خاندان کو کلی اختیارات دیے گئے ہیں کہ سال در سال اس زمین کا محصول حاصل کرتے رہیں۔ اسی خانوادے سے حضرت صوفی نثار احمد اخترؔ پٹیل (قادری چشتی جنیدی ) ہیں
حضرت شاہ نور بابا رحمتہ اللہ علیہ کا آستانہ کرویش میں حضرت شاہ نور بابا رحمۃ اللہ علیہ کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں پر آج بھی ہزاروں عقیدت مند اور ارادت مند لوگوں کا ایک جم غفیر اور ہجوم ہوا کرتا ہے آپ جس مقام پر آسودہ خاک ہیں اس مزار مقدس پر ایک بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر کیا گیا ہے ہر سال گھڑی پاڑوا کے کچھ عرصہ بعد آپ کا عرس بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلاتفریق مذہب وملت شریک ہوتے ہیں۔ [1]