کلاچی شہر پاکستان کے خیبر پختون خواہ صوبے میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کا ایک شہر اور صدر مقام ہے۔ یہ 209 میٹر (688 فٹ) کی بلندی پر 31° 55' 49N 70°27'31N پر واقع ہے۔ یہ ڈیرہ اسماعیل خان سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر کوہ سلیمان سلسلے کے دامن علاقہ "دامان" میں واقع ہے اور دریائے گومل جس کو مقامی طور پر "لونی" یا "خوَڑہ کہتے ہیں، کے کنارے پرآباد ہے، جودریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے۔

کلاچی شہر کا مرکزی دروازہ

اس شہر کے اردگرد چار دیواری ہے جو اس کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس میں کراس کی شکل میں چار بازار شامل ہیں۔ بازاروں کا مرکز چوگلہ (چوک) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شہر کی تقریباً 25,000 آبادی بنیادی طور پر پشتون اور سرائیکی لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہاں دو زبانیں بولی جاتی ہیں: پشتو اور سرائیکی ( جسے مقامی طور پر ہندکو بھی کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ وہ ہندکو نہیں ہے جیسا کہ پشاور کوہاٹ، ایبٹ آباد اور دیگر جگہوں پر بولی جاتی ہے)[1]

شہر کی تاریخ ترمیم

اس شہر کو بلوچوں کی ایک شاخ کلاچی (جسے کولاچی بھی لکھا جاتا ہے) کے سردار حسین خان کلاچی نے آباد کیا تھا۔ اور انہی کے نام پر اس کا نام کلاچی مشہور ہو گیا بعد میں جب گنڈہ پور قبیلہ اس علاقے میں آباد ہوا تو انھوں نے کلاچی بلوچوں سے جنگ کی اور انھیں شہر اور گرد و نواح سے بے دخل کر دیا۔ کلاچی بلوچوں کو ڈیرہ اسماعیل خان اور پروآ کے قریب ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا اور اب صرف چند بلوچ خاندان ہی شہر میں رہتے ہیں۔

امپیریل گزٹیئر انڈیا، جلد 16، صفحہ 13 نے کلاچی کو مندرجہ ذیل طور پر بیان کیا ہے۔ - "اسی نام کی تحصیل کا ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان، صوبہ خیبر پختونخوا، 31' 56" N. اور 70' 28" E. میں، لونی نالہ کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے 45 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ اس کی آبادی 1901 کی مردم شماری کے مطابق 9,12,5 تھی۔ یہ ایک باقاعدہ قصبے کی بجائے سولہ الگ الگ بستیوں یا محلوں کا مجموعہ ہے۔ اس کو 1867 میں میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا اور اس کی آمدنی 1902 کے اختتام پر اوسطاً 6,900 روپے اور 1903میں 7200 روپے آمدنی تھی۔ (بنیادی طور پر آکٹروائی سے ماخوذ؛ ) اور خرچہ 7100 روپے تھا۔ اس جگہ پہلے پہاڑیوں کے وزیروں کے ساتھ تیزی سے تجارت ہوتی تھی، جو الحاق سے پہلے ختم ہو گئی تھی، لیکن اس کے بعد سے کچھ حد تک بحال ہو گئی، کلاچی میں ایک سرکاری ہسپتال ہے اور ایک پرنسپل تعلیمی ادارہ ایک اینگلو ورناکولر مڈل اسکول ہے جسے ڈسٹرکٹ بورڈ کے زیر انتظام رکھا جاتا ہے".

13 اگست 1955ء کو اس شہر میں سیلاب آیا تھا اور اس کا آدھا شمالی علاقہ ڈوب گیا تھا جن میں محلہ کمال خیل، یعقوب زئی، محلہ شخی، نتھو زئی، شمالی موسیٰ زئی، محلہ بھیماں والا، محلہ اندرون بہلول خیل اور جعفر زئی شامل ہیں۔ اور حصہ اکثر کچے مکانات گر گئے تھے۔ یہاں کے مکینوں کا بہت زیادہ مالی نقصان ہو گیا تھا۔

(تاریخ گنڈاپور کے مصنف نے کلاچی شہر کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے تاریخ گنڈہ پور باب دوم صفحہ نمبر 405 سے صفحہ نمبر 407 تک

"مجموعی طور پرگنڈہ پور علاقہ کے 22 پٹوار مواضعات ہیں ۔ ان میں سے بعض تو بے چراغ ہو گئے ہیں بعض میں صرف چند گھر آباد ہیں جن میں کلاچی شہر علاقہ گنڈہ پور کا سب سے بڑا اور اہم گاؤں ہے۔ یہ تحصیل کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ شہر 31' 56" طول بلد شمالی اور 71' 30" عرض بلد مشرقی پر واقع ہے۔ سمندر سے اس کی بلندی 580 فٹ ہے۔ اس کی آبادی کے متعلق عوام میں غلط اور بے بنیاد روایات مشہور ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں گاؤں کی ںنیاد کلاچی بلوچوں نے رکھی تھی ۔ اور یہی قوم یہاں آباد تھی ، لیکن گنڈہ پوروں نے بزورشمشیر ان سے یہ شہر لے لیا تھا اور انھیں گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا اور خود یہاں آباد ہو گئے تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی کی پہلی چوتھائی تک یہاں کوئی آبادی نہیں تھی ۔ سارا علاقہ بنجر اور بیابان تھا کہیں کہیں چراگاہیں تھیں۔ اس زمانہ میں گنڈہ پوروں کی اکثریت لونی شہر میں آباد تھی۔ لونی ایک بارونق شہر تھا۔ گنڈہ پوروں کا خان یا رئیسِ اعظم برہ خان بھی لونی میں رہتا تھا۔ 1727ء میں حسین خان نامی ایک شخص جو قوم کا کلاچی بلوچ تھا اور ڈیرہ فتح خان کا رہنے والا تھا، اپنی برادری سے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے کنبہ سمیت لونی چلا آیا اور برہ خان رئیسںِ گنڈہ پور کا ہمسایہ بنا۔ پشتون روایات کے مطابق برہ خان نے اسے رہنے کے لیے لونی میں گھر دیا اور کاشت کے لیے زمین بھی دی۔ حسین خان تین سال تک برہ خان کی زمین کاشت کرتا رہا۔ 1730ء میں برہ خان نے موجودہ شہر کلاچی کی نواحی زمین اسے کاشت کرنے کو دی ۔ حسین خان جفاکش اورمحنتی آدمی تھا۔ پہلے اس نے اپنے اور اپنے کنبے کے لیے مکان تعمیر کیا ۔ پھر اپنا کنبہ لونی سے یہاں منتقل کر دیا اور گرد و نواح کی زمین کو قابل کاشت بنانے میں مصروف ہو گیا۔ اس زمانے میں رود لونی کے تل میں پینے کا پانی کافی ہوتا تھا۔ زمینیں بھی کافی پڑی تھیں حسین خان کی دیکھا دیکھی روڑی اور لونی سے چند گنڈہ پور قبیلے بھی یہاں منتقل ہو آئے ۔ اس طرح بہت تھوڑے عرصہ میں یہاں ایک اچھا خاصا گاؤں آباد ہو گیا۔ یہ گاؤں کلاچی بلوچ کے نام کی نسبت سے کلاچی کہلانے لگا۔ شہر کو آباد ہوئے ابھی دس ہی سال ہوئے تھے کہ میاں خیل قوم کے لشکر نے 1740ء میں اس شہر پر حملہ کر دیا، شہر کو لوٹا اور پھر اسے نذرِ آتش کر دیا لیکن بہت جلد اسے دوبارہ آباد کیا گیا۔ 1747ء تک یہ پھر سے ایک بارونق اور آباد شہر بن گیا ۔ چنانچہ اسی سال رئیس اعظم برہ خان اور روڑی و لونی سے بہت سے دیگر گنڈہ پور گھرانے بھی یہاں منتقل ہو گئے۔ اسی سال گاؤں کی ملحقہ بستیاں رانہ زنی، زرنی خیل، بہلول خیل وغیرہ بھی آباد ہوئیں۔ 1813ء میں شہر کو ایک بار پھر نقصان پہنچا وہ اِس طرح کہ نواب ڈیرہ اسمٰعیل خان کی فوج نے شہر کے کافی بڑے حصہ کو نذر آتش کیا ۔ بہت سے معزز گھرانے نواب کے ڈر سے وطن چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ۔ 1817ء میں نواب اور گنڈہ پوروں کے مابین پھر مصاحت ہو گئی ۔ اور گنڈہ پور گھرانے واپس وطن آگئے ۔ کلاچی شہر پھر سے پُر رونق اور آباد ہو گیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں یہ بہت بڑا تجارتی شہر تھا۔ اس زمانے میں یہاں پر تین سو دکانوں مشتمل ایک پُر رونق بازار تھا ۔ انگریزوں کے دور حکومت میں اسے مزید ترقی ملی۔ 1856ء میں بازار کو منظم اور پختہ کیا گیا۔ 1857ء میں اس شہر کو تحصیل کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا ۔ اور اسی سال یہاں تھانہ اور تحصیل کی سرکاری عمارتیں تعمیر ہوئیں ۔ 1867ء میں یہاں شہر کی کمیٹی قائم ہوئی. 1870ء میں یہاں ایک پرائمری اسکول اور ایک شفاخانہ قائم کیا گیا۔ نیز شہر کے اردگرد ایک چھوٹی سی فصیل بھی تعمیر ہوئی۔ 1827ء میں اس شہر کی آبادی 7824 نفوس پر مشتمل تھی جس میں سے 2481 ہندو اور سکھ تھے۔ 1914ء میں قبائلیوں کے خطرہ کے پیش نظر شہر کی چھوٹی فصیل کو گرا کر 14 فٹ بلند نئی فصیل تعمیر کی گئی ۔ اس فصیل میں چھ عظیم دروازے اور 12 بُرج بنائے گئے ۔ کلاچی ڈیرہ روڈ براستہ مڈی ایک بہت پرانی سٹرک موجود تھی ۔ 1925ء میں کلاچی تا ہتھالہ ایک پکی سڑک تعمیر ہوئی اور اس کا رابطہ ڈیرہ ٹانک روڈ سے کر دیا گیا ۔ 1927ء میں شہر کے مردانہ مڈل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا ۔ پاکستان بننے سے پہلے یہ ضلع کا مشہور تجارتی شہر تھا۔ اس کی آبادی دس ہزار نفوس سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اس میں ایک چوتھائی کے قریب آبادی ہندوؤں اور سکھوں کی تھی پاکستان بننے کے بعد اپریل 1948ء میں فسادیوں نے سارے بازار کو نذرِ آتش کر دیا۔ جس میں اکثر ہندوؤں کی دُکانیں تھیں۔ ان کے کھنڈر آج بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ ہندو ترک وطن کر گئے مسلمانوں میں اتنی سکت نہیں تھی که بازار کو از سرِ نو تعمیر کر سکیں سو بازار اب بھی ملبے کا ڈھیر نظر آرہاہے۔ تجارت ختم ہو گئی ۔ کاروبار بند ہو گیا۔ مسلمانوں کی 20% آبادی بھی شہر چھوڑ گئی")[2]

موجودہ دور میں ایک مردانہ ڈگری کالج، ایک زنانہ کالج، دو ھائ اسکول، ایک ہسپتال اور کئی پرائمری اسکول واقع ہیں۔ یہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہے اور یہاں اسسٹنٹ کمشنر اور سول جج کے دفاتر بھی ہیں۔[3]

سٹی سیکٹرز ترمیم

(سیکٹرز / محلوں) کا نام گنڈا پور قبیلے کے ذیلی قبائل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس طرح اب کلاچی کو درج ذیل محلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

فصیل شہر کے اندر

*محلہ شخی

*محلہ ابراہیم زئی

*محلہ حسین زئی

*محلہ یعقوب زئی

*محلہ موسیٰ زئی (شمالی)

*محلہ موسیٰ زئی (جنوبی)

*محلہ برہ خیل

*محلہ کمال خیل

*محلہ خدر خیل

*محلہ جتاں والا

*محلہ عثمان خیل

*محلہ جعفر زئ

* محلہ نتھو زئی

فصیل شہر سے باہر

*محلہ رانا زئی

*محلہ زرنی خیل

*محلہ بہلول خیل

* محلہ کھد بستی یا کھڈ وستی ( نشیبی قصبہ )

* محلہ چھوٹی لونی یا قاسم آباد (قاسم خان نے آباد کیا، جو اپنے گاؤں لونی کے دوسرے لوگوں کے ساتھ خونی جھگڑے کے بعد لونی گاؤں سے اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کر گیا تھا؛ اس لیے اس کے نئے ٹھکانے کو "چھوٹی لونی" کہا جاتا تھا)

* محلہ ہارون آباد (1980 کی دہائی میں عظیم صوفی میاں باران صاحب کے پوتے صاحب زادہ ہارون صاحب آف بہلول خیل نے آباد کیا)

*مدینہ کالونی[4]

کلاچی میں آباد پشتون قبائل ترمیم

 
مدے خان گیٹ

کلاچی میں درج ذیل قبائل آباد ہیں:


*اللہ داد خیل

*بہادر خیل

 
شخی گیٹ

*برہ خیل

*بہلول خیل

*بازید خیل

*شہزاد خیل

*ضحاک زئ

*ہمڑ (یہ بھی گنڈا پور کے کزن ہیں)

*حسین زئی

*ابراہیم زئی

*اختیار خیل

*کمال خیل

*خدر خیل

*خواجی خیل

* مانی خیل

*موسیٰ زئی

مریڑہ (گنڈہ پور کے کزن)

*نکندر زئی

 
جتاں والا گیٹ

*نتھو زئی

*سفر زئی

*شخی (شخی ترائی یا ٹیری خان کا بھائی تھا)

*عثمان خیل

یاخیل (یا یحییٰ خیل)

*یعقوب زئی

*زرنی خیل

ذیلی قبائل میں سے کچھ اگرچہ گنڈا پور کے ساتھ رہتے ہیں انھیں اصل شاخ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ وہ درج ذیل ہیں:

*غورنی

*مڑہیل

(افغانستان میں گنڈہ پور کو ترہ کئی قبیلے کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس بات کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے)

اس کے علاوہ دیگر قوموں میں آرائیں، کمھار، سیال، مروت، وٹو، استرانہ وغیرہ یہاں رہتے ہیں۔[5]

 
مڈی گیٹ

شہر کی چاردیواری اور گیٹ ترمیم

یہ دیوار شہر کو حملہ آور قبائل جیسے کہ محسود وزیر قزاقوں سے بچانے کے لیے 1914ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ آس کو "کوٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے (وادی سندھ میں قلعوں یا قلعوں کی دیواروں کے لیے یہ لفظ عام طور پر استعمال ہوتا ہے)۔ اس کے چھ تاریخی دروازے ہیں، جو زیادہ تر اچھی حالت میں ہیں۔ دروازوں کا نام محلہ کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں وہ واقع ہیں (جیسے کہ شخی گیٹ) یا اس گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر بنائے گئے ہیں (جیسے کہ مڈی گیٹ) تو انھیں قریبی گاؤں کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دروازے 19ویں صدی کے مغل اور ہندوستانی فن تعمیر کی عمدہ مثالیں ہیں۔

شخی دروازے سے گھڑی کی سمت شروع کرتے ہوئے، چھ دروازوں کے نام درج ذیل ہیں:

*شخی گیٹ

*مڈی گیٹ

*عثمان خیل گیٹ

*جتاں والا گیٹ

 
عثمان خیل گیٹ

*مٹھو گیٹ

*مدے خان گیٹ[6]

معیشت ترمیم

کلاچی ایک زرعی شہر ہے۔ یہ سلسلہ کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے اور اس وجہ سے کوہ سلیمان کے سیلابی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ آبپاشی کے نظام کو رود کوہی کہا جاتا ہے (رود کا مطلب ہے چینل اور فارسی میں کوہ کا مطلب پہاڑ ہے) اور اسی لیے یہ پہاڑی چینلز یا پہاڑی دھاروں کا نظام ہے جو دامان کی پوری وادی میں شامل ہو جاتا ہے۔ رود کوہی کا نظام برطانوی استعمار نے بہت اچھی طرح سے تیار کیا تھا اور 1947 سے پہلے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے زرعی ریونیو میں کلاچی کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ کلاچی کا خربوزہ پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ یہ بہت لذیذ اور مزیدار ہے۔ کیپٹن جے اے رابنسن 1934 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "نوٹس آن نوماد ٹرائب آف ایسٹرن افغانستان" میں لکھتے ہیں،

"پہلی جنگ عظیم، بنگال میں فصلوں کی ناقص پیداوار، زرعی مصنوعات کی کم قیمتیں، پوندوں کا غلط رویہ، سود کی بلند شرح (75سے لے کر 225 فیصد سالانہ)، عمومی تجارتی مندی اور آل انڈین نیشنل کانگریس کی سرگرمیاں کلاچی کی معیشت کے زوال کا باعث بنیں۔ کسی زمانے میں کلاچی پورے علاقے کا بازار تھا۔ یہ افغانستان کے لوگوں کا پہلا پڑاؤ تھا جب خانہ بدوش کوہ سلیمان سے اترتے تھے تو ان کا پہلا ٹھکانہ کلاچی ہوتا تھا۔ لیکن بعد میں دوسرے راستے اہمیت اختیار کر گئے یعنی جنوبی وزیرستان-ٹانک-ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب-درابن-ڈیرہ اسماعیل خان۔ اورکلاچی کی تجارت زوال پزیر ہونا شروع ہو گئی"۔

موجودہ دور میں اپریل 2011 میں گومل زام ڈیم کی تکمیل سے اس علاقے میں زرعی ترقی عروج پر ہے اور زمیندار اور دوسرے لوگ خوش حال ہو گئے ہیں۔[7]

دستکاریاں ترمیم

کلاچی مختلف نوادرات اور دستکاری کے لیے مشہور ہے۔

*کلاچیوال چاکو (چھری)۔ آرائشی ڈیزائن والی چھوٹی چھریاں "پورتہ بازار" (مغربی بازار) میں کاریگروں کے ذریعے چھوٹے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔ یہ خوبصورت فن سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے معدوم ہونے کے دہانے پر ہے۔

* دستکاری: اس علاقے میں ملتانی دستکاری کے انداز سے ملتے جلتے خوبصورت دستکاری کی مختلف شکلیں بنائی جاتی ہیں۔

 
مٹھو گیٹ

* آرائشی جوتے۔ "تلے والی جوتی" کے نام سے مشہور مقامی موچیوں کے بنائے ہوئے سجاوٹی جوتے علاقے میں بہت مشہور ہیں۔ یہ دامان کے کھیتوں میں لمبی سیر کے لیے بھی بہترین ہیں۔[8]

http://www.fallingrain.com/world/PK/3/Kulachi.html

https://www.citypopulation.de/en/pakistan/distr/admin/dera_ismail_khan/60704__kulachi/

  1. Aminullah Khan Gandapur, Tarikh-e-Sarzamin-e-Gomal, National Book Foundation Islamabad 2008, Page-261-62[9]
  1. "Kulachi"۔ Digital South Asia Library۔ اخذ شدہ بتاریخ 22.10.2022 
  2. Khan Qadardad (1975)۔ تاریخ گنڈاپور۔ Peshawar: Hameedia Press۔ صفحہ: 405–407 
  3. Rana Zai Qadir Dad Khan (1975)۔ تاریخ گنڈہ پور۔ Hameedia Press Peshawar 
  4. Khan Abdur Rahman۔ Kulachi City۔ Madni Publishers 
  5. Lodhi Marwat Khan (September 13, 2013)۔ "Afghan Tribes Database"۔ Pakistan Defence 
  6. "Population" 
  7. "Kulachi"۔ Academic۔ Academic Dictionaries and Encyclopedia 
  8. Aminullah Khan Gandapur (2008)۔ Aminullah Khan Gandapur, Tarikh-e-Sarzamin-e-Gomal, National Book Foundation Islamabad 2008, Page-261-62۔ Isalm Abad Pakistan: National Book Foundation Islamabad۔ صفحہ: 261–262 
  9. Aminullah Khan Gandapur, Tarikh-e-Sarzamin-e-Gomal, National Book Foundation Islamabad 2008, Page-261-62