کلیلہ و دمنہ
کلیلہ و دمنہ اصلا پنچ تنتر کا عربی زبان میں ترجمہ شدہ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اسے دوسری ہجری میں خلافت عباسیہ میں مشہور عربی ادیب عبد اللہ بن المقفع نے عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ ابن المقفع نے اسے اپنے ہی انداز میں لکھا جو پنچ تنتر کا سب سے بہتر ترجمہ قرار پایا اور بعد کے دنوں میں عربی ترجمہ کے سوا پنچ تنتر کا کوئی دوسرا نسخہ باقی نہیں رہا اور بعد میں اسی عربی ترجمہ ہی سے دیگر ترجمے کیے گئے۔ محققین اب یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ابن المقفع نے کلیلہ و دمنہ کو سنسکرت کی کتاب پنچ تنتر سے ترجمہ کیا مگر اسلوب اپنا اختیار کیا۔ ابن المقفع سے قبل پنچ تنتر کو خسرو اول کے زمانہ میں پہلوی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا جس سے ابن امقفع نے عربی میں ترجمہ کیا۔
کتاب کے مقدمہ میں مذکور ہے کہ پنچ تنتر کو ہندوستان کے فلسفی اور معلم بیدبا نے وقت کے بادشاہ دبلشیم کے لیے لکھا تھا۔ مصنف نے کتاب میں جانوروں کے کردار پیش کیے ہیں۔ کتاب میں موجود کہانیاں کئی موضوعات پر مشتمل ہیں جن میں سب سے اہم موضوع بادشاہ اور رعایا کے درمیان میں تعلقات ہیں۔ کہانی کے ضمن میں حکمت و دانائی کی باتیں پیش کی گئی ہیں۔ جب خسرو اول کو کتاب متن اور اس کی اہمت کا اندازہ ہوا تو اس نے بورزیہ کو حکم دیا کہ ہندوستان کا سفر کرے اور فارسی پہلوی میں ترجمہ کرے۔ جارجیا کے بادشاہ وختنگ چہارم نے 18ویں صدی میں جارجیائی زبان میں ترجمہ کیا۔[1] وہ بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھا۔ اس کے بعد اس کے معلم سولخان-سابا اوربلیانی نے اس میں ترمیم کی اور یہی نسخہ بعد کے دنوں میں مرجع کی حیثیت سے دیکھا گیا۔[2]
کتاب میں 15 ابواب ہیں جن میں کئی کہانیاں ہیں اور تمام کی تمام جانوروں کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔ کہانی کا ایک اہم کردار شیر ہے جس سے مراد بادشاہ ہے۔ اس کا معاون بیل ہے۔ دو سیار بھی ہیں جن کا نام دلیلہ اور دمنہ ہے۔ کتاب کے شروع میں چار مزید ابواب ہیں۔ ایک تعارف، بروزویہ کا ہندوستان کا سفر، عبد اللہ بن مقفع کے ترجمہ کا تعارف اور بروزیہ کے ترجمہ کا تعارف۔ کتاب کی اصل تشہیر اور دیگر زبانوں میں ترجمے عربی زبان سے ہی ہوئے۔ کئی زبانوں میں ترجمے عربی سے براہ راست ہوئے۔
مزید دیکھیے
ترمیم- شیر اور بیل کی کہانی :
بادشاہ کے کہنے پروزیر نے دستاوند نامی بوڑھے کی کہانی سنائی جس ک تین بیٹے تھے۔ وہ اپنے تینوں بیٹوں کو کچھ نصیحتیں کرتا ہے۔ بڑا بیٹاّ اپنے دو بیلوں بندبہ اور شتربہ کے ساتھ میون نامی علاقے کو جاتا ہے۔شتربہ کیچڑ میں پھنس جاتا ہے۔ بڑا بیٹا اپنے ملازم کو وہاں چھوڑتا ہے جو آکے بتاتا ہے کہ بیل مرگیااورجنگل میں جانے والے شخص کی کہانی سناتا ہےجس کا سبق یہ ہے کہ جب موت آجاتی ہے تو کچھ نہیں کیاجاسکتا۔ادھربیل کیچڑ سے نکل آیا گھاس چرنے سے تنومند ہوگیا۔ شیر نے اسکی آواز سنی تو ڈر گیا۔وہیں دو گیدڑ بھائی دمنہ اور کلیلہ بھی رہتے تھے۔ دمنہ نے بھائی سے پوچھا یہ شیراپنی جگہ پڑا کیوں رہتا ہے۔ بھائی اسے بڑھئی کی کہانی سناتا ہے جسکا سبق یہ ہے کہ جس کا کام اسی کوساجھے۔ دمنہ کہتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہنا چاہیے اور میں بادشاہ ( شیر) کی قربت چاہتا ہوں۔کلیلہ اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اپنے طبقے میں رہنا اچھا ہے۔ کم مرتبے سے بلند مرتبے تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن تم بتا ئو تمہارا کیا ارادہ ہے۔ دمنہ کہتا ہے کہ میں بادشاہ کے معاملات میں مداخلت کرنا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی نصیحت کے ذریعے اس کے پاس اپنا مقام بنا لوں گاکیونکہ بادشاہ غیر یقینی کا شکار ہے۔ کلیلہ دریافت کرتا ہے تمہیں کیسے معلوم کہ شیر بے یقینی کا شکار ہے۔ دمنہ نے کہا کہ میں نے اپنی قوت احساس سے پتہ چلالیا ہے۔کلیلہ نے انگور کی بیل کی مثال دی جو بہترین درخت پر نہیں چڑھتی بلکہ قریبی درخت پر چڑھتی ہے ایسے ہی بادشاہ عقل والوں کی بات سننے کے بجائے ان کی بات سنتا ہےجو اسکے حلقہ احباب میں ہوتے ہیں۔ دمنہ نے کہا کہ جو لوگ اب قریبی ہیں وہ ہمیشہ سے قریبی نہیں تھےاس طرح کلیلہ و دمنہ کی تکرار چلتی رہتی ہے۔ بالاآخر دمنہ شیر کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن یہ قلیل مدتی ہوتا ہے ۔ وہ شیر کو بیل کے خطرےسے نجات تو دلادیتا ہے لیکن پھر شیر اور بیل کی دوستی سے جلنے لگتا ہے۔ اپنا پہلا منصب حاصل کرنے کےلیے وہ سازشیں سوچنے لگتا ہے اور بالاآخر بادشاہ یعنی شیر اور بیل میں غلط فہمی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 24 اکتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2020
- ↑ http://iliauni.edu.ge/uploads/other/17/17836.pdf