کلیم اللہ جہان آبادی
پیش نظر مضمون کسی اشتہار کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ براہ مہربانی مضمون کے مواد کو غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے دوبارہ تحریر کریں اور فاضل روابط کو ختم کر کے اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ |
شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی سلسلہ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں۔
کلیم اللہ جہان آبادی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1650ء دہلی |
وفات | 17 اکتوبر 1729ء (78–79 سال) دہلی |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، صوفی |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیماسم گرامی:شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی۔لقب:شیخ المشائخ،عالم و عارف،محدثِ کامل،مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ۔ سلسلہ ٔنسب: شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی بن حاجی نور اللہ صدیقی بن شیخ احمد صدیقی۔ ۔آپ صدیقِ اکبر کی اولاد سے تھے۔آپ کے دادا عہد ِشاہجہانی میں ’’خُجَند‘‘ ترکمانستان موجودہ تاجکستان سے دہلی آئے۔
تاریخِ ولادت
ترمیمشاہ کلیم اللہ کی ولادت 24 جمادی الثانی 1060ھ مطابق 24 جون 1650ء، بروز جمعہ دہلی میں ہوئی۔
تحصیلِ علم
ترمیمشاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سے تھا۔بالخصوص فنِ تعمیرمیں جہاں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔اس وقت دہلی علوم وفنون کا مرکزتھا۔بڑے بڑے علما و صوفیا نے ظاہری و باطنی علوم کے میخانے سجا رکھے تھے۔ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بزرگ بھی تھے۔دہلی کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔سندِ حدیث شیخ ابوالرضا ہندی اور مولانا شیخ برہان الدین المعروف شیخ بہلول سے حاصل کی۔ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کو تمام علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔دہلی کے متبحر علما میں شمارکیے جاتے تھے۔ بیعت و خلافت: تحصیل ِ علم کے بعد کسی برترنسبت کی طلب ہوئی،تو ایک بزرگ ’’رسول نما‘‘کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور بیعت کے خواستگارہوئے۔صاحبِ بصیرت و عرفان بزرگ نے جواب دیا کہ تمھارا حصہ یہاں نہیں،حضرت شیخ یحیٰ مدنی کے پاس ہے۔اور وہ مدینہ منورہ میں ہیں، وہاں جاؤ اور اس دسترخوانِ محبت ومعرفت سے خوشہ چینی کرو۔بس یہ سننا تھا کہ طالبِ صادق عازم حجاز مقدس ہوئے،اور مدینہ منورہ میں شیخ یحیٰ مدنی کی خدمت میں حاضر ہو گئے،ان سے بیعت ہوئے،اور کچھ عرصہ تربیت میں رہے،مجاہدات و سلوک کے بعد خلافتِ عالیہ چشتیہ سے مشرف ہوئے۔اسی طرح قیام ِ حجاز میں ہی امیرِ محترم لاہوری سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور سید محمد کبریٰ سے سلسلہ عالیہ قادریہ کی خلافت پائی۔[1]
سیرت و خصائص
ترمیمشاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی کا شمار اکابر اولیائے ہند میں ہوتا ہے۔ ان کے خوارق عادات اور زہد و طاعت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ بڑے نامور شیخ تھے۔ علم و فضل میں یگانہ روزگار تھے۔بڑے بڑے علما ان کے تبحر علمی کے معترف تھے۔مدینہ منورہ سے دہلی میں واپسی پر خانم بازار کی ایک مسجد میں قیام کیا اور مسند تدریس آراستہ کی۔ علمی استطاعت تو حد درجہ کی تھی، کیونکہ اپنے وقت کے عظیم محدثین اور شیوخ سے تحصیلِ علم کی تھی۔ ان کا درس علم و معرفت کا بحرِ مواج ہوتا تھا۔ دور دور سے طلبہ شریک درس ہوتے۔کھانے پینے کا انتظام مفت تھا۔ حدیث کے درس کی شہرت عام ہو چکی تھی۔ ایک مرتبہ مرزا جانِ جاناں ملاقات کے لیے تشریف لائے تو شاہ کلیم صحیح بخاری کا درس دے رہے تھے۔[2]
تصانیف
ترمیمشاہ کلیم اللہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ تیس کے قریب تصانیف کے نام ملتے ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
- قرآن القرآن
- عشرہ کاملہ
- سواء السبیل
- کشکول
- مرقع
- تسنیم
- الہاماتِ کلیمی
- رسالہ تشریح الافلاک
- شرح القانون
رد روافض میں بھی بعض کتب تھیں اور اسی طرح شاعری کا مجموعہ بھی تاریخ میں ملتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہنگاموں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی نذر ہو گیا۔
تاریخِ وصال
ترمیم24/ربیع الاول 1142ھ کو واصل باللہ ہوئے۔دہلی میں قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان میں اپنی خانقاہ میں دفن ہوئے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم
ضیائے طیبہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL)