کلیم اللہ جہان آبادی
شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی سلسلہ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں۔
کلیم اللہ جہان آبادی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1650 دہلی |
وفات | سنہ 1729 (78–79 سال) دہلی |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم، صوفی |
درستی - ترمیم ![]() |
نام و نسبترميم
اسم گرامی:شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی۔لقب:شیخ المشائخ،عالم و عارف،محدثِ کامل،مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ۔ سلسلہ ٔنسب: شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی بن حاجی نور اللہ صدیقی بن شیخ احمد صدیقی۔ ۔آپ صدیقِ اکبر کی اولاد سےتھے۔آپ کے دادا عہد ِشاہجہانی میں ’’خُجَند‘‘ ترکمانستان موجودہ تاجکستان سےدہلی آئے۔
تاریخِ ولادتترميم
شاہ کلیم اللہ کی ولادت 24 جمادی الثانی 1060ھ مطابق 24 جون 1650ء، بروز جمعہ دہلی میں ہوئی۔
تحصیلِ علمترميم
شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سےتھا۔بالخصوص فنِ تعمیرمیں جہاں میں اپنا ثانی نہیں رکھتےتھے۔اس وقت دہلی علوم وفنون کا مرکزتھا۔بڑے بڑے علما و صوفیا نے ظاہری و باطنی علوم کےمیخانے سجا رکھےتھے۔ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کےبزرگ بھی تھے۔دہلی کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔سندِ حدیث شیخ ابوالرضا ہندی اور مولانا شیخ برہان الدین المعروف شیخ بہلول سےحاصل کی۔ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کو تمام علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔دہلی کے متبحر علما میں شمارکیے جاتےتھے۔ بیعت وخلافت: تحصیل ِ علم کےبعد کسی برترنسبت کی طلب ہوئی،تو ایک بزرگ ’’رسول نما‘‘کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور بیعت کے خواستگارہوئے۔صاحبِ بصیرت و عرفان بزرگ نے جواب دیا کہ تمہارا حصہ یہاں نہیں،حضرت شیخ یحیٰ مدنی کےپاس ہے۔اور وہ مدینہ منورہ میں ہیں، وہاں جاؤ اور اس دسترخوانِ محبت ومعرفت سے خوشہ چینی کرو۔بس یہ سننا تھا کہ طالبِ صادق عازم حجاز مقدس ہوئے،اور مدینہ منورہ میں شیخ یحیٰ مدنی کی خدمت میں حاضر ہو گئے،ان سے بیعت ہوئے،اور کچھ عرصہ تربیت میں رہے،مجاہدات و سلوک کےبعد خلافتِ عالیہ چشتیہ سے مشرف ہوئے۔اسی طرح قیام ِ حجاز میں ہی امیرِ محترم لاہوری سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور سید محمد کبریٰ سے سلسلہ عالیہ قادریہ کی خلافت پائی۔[1]
سیرت و خصائصترميم
شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی کا شمار اکابر اولیائے ہند میں ہوتا ہے۔ ان کے خوارق عادات اور زہد و طاعت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ بڑے نامور شیخ تھے۔ علم و فضل میں یگانہ روزگار تھے۔بڑے بڑے علما ان کے تبحر علمی کے معترف تھے۔مدینہ منورہ سے دہلی میں واپسی پر خانم بازار کی ایک مسجد میں قیام کیا اور مسند تدریس آراستہ کی۔ علمی استطاعت تو حد درجہ کی تھی، کیونکہ اپنے وقت کے عظیم محدثین اور شیوخ سے تحصیلِ علم کی تھی۔ ان کا درس علم و معرفت کا بحرِ مواج ہوتا تھا۔ دور دور سے طلبہ شریک درس ہوتے۔کھانے پینے کا انتظام مفت تھا۔ حدیث کے درس کی شہرت عام ہو چکی تھی۔ ایک مرتبہ مرزا جانِ جاناں ملاقات کے لیے تشریف لائے تو شاہ کلیم صحیح بخاری کا درس دے رہے تھے۔[2]
تصانیفترميم
شاہ کلیم اللہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ تیس کے قریب تصانیف کے نام ملتے ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
- قرآن القرآن
- عشرہ کاملہ
- سواء السبیل
- کشکول
- مرقع
- تسنیم
- الہاماتِ کلیمی
- رسالہ تشریح الافلاک
- شرح القانون
رد روافض میں بھی بعض کتب تھیں اور اسی طرح شاعری کا مجموعہ بھی تاریخ میں ملتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہنگاموں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی نذر ہو گیا۔
تاریخِ وصالترميم
24/ربیع الاول 1142ھ کو واصل باللہ ہوئے۔دہلی میں قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان میں اپنی خانقاہ میں دفن ہوئے۔[3]
حوالہ جاتترميم
ضیائے طیبہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL)