شاہ جہاں

مغلیہ سلطنت کا پانچواں شہنشاہ جس نے 19 جنوری 1628ء سے 31 جولائی 1658ء تک حکومت کی۔
اس صفحہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے؛ استفسارِ وجوہات اور متعلقہ گفتگو کے لیے تبادلۂ خیال کا صفحہ استعمال کریں۔


شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول  یا مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم (پیدائش: 5 جنوری 1592ء— وفات: 22 جنوری 1666ء) سلطنت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دَور تھا اور اِس دور کو عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 1627 میں جہانگیر کی موت کے بعد ، شاہ جہاں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی شہریار مرزا کو شکست دی اور آگرہ قلعہ میں خود کو شہنشاہ کا تاج پہنایا۔ انھوں نے لال قلعہ، شاہ جہاں مسجد اور تاج محل سمیت کئی یادگاریں تعمیر کیں۔ ستمبر 1657 میں ، شاہ جہاں بیمار تھا اور اس نے اپنے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس نامزدگی کے نتیجے میں اس کے تین بیٹوں کے درمیان جانشینی کا بحران پیدا ہوا ، جس میں سے شاہ جہاں کا تیسرا بیٹا اورنگ زیب (1658–1707) فاتح بن گیا اور ولی عہد دارا شکوہ سمیت اپنے تمام زندہ بھائیوں کو پھانسی دے کر چھٹا شہنشاہ بن گیا۔ جولائی 1658ء میں شاہ جہاں کی بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد اورنگ زیب نے اپنے والد کو جولائی 1658ء سے جنوری 1666ء میں اپنی وفات تک آگرہ قلعہ میں قید کر رکھا۔  انھیں تاج محل میں اپنی بیوی کے بغل میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔[6]

شاہ جہاں
(فارسی میں: شهاب‌الدین مُحمَّد شاهجهان ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 جنوری 1592ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعۂ لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 جنوری 1666ء (74 سال)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعہ آگرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن تاج محل  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ممتاز محل (30 اپریل 1612–17 جون 1631)
عزالنساء بیگم (2 ستمبر 1617–22 جنوری 1666)
قندھاری بیگم (12 دسمبر 1609–)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد پرہیز بانو بیگم،  جہاں آرا بیگم،  دارا شکوہ[3]،  شاہ شجاع،  روشن آرا بیگم،  اورنگزیب عالمگیر،  مراد بخش،  گوہر آراء بیگم  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد نورالدین جہانگیر  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ جگت گوسائیں  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان تیموری خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
مغل بادشاہ (5 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
19 جنوری 1628  – 31 جولا‎ئی 1658 
نورالدین جہانگیر 
اورنگزیب عالمگیر 
دیگر معلومات
پیشہ شاہی حکمران[4]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی[5]،  عربی،  چغتائی،  ہندوستانی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مغل حکمران
ظہیر الدین محمد بابر 1526–1530
نصیر الدین محمد ہمایوں 1530–1540
1555–1556
جلال الدین اکبر 1556–1605
نورالدین جہانگیر 1605–1627
شہریار مرزا (اصلی) 1627–1628
شاہجہان 1628–1658
اورنگزیب عالمگیر 1658–1707
محمد اعظم شاہ (برائے نام) 1707
بہادر شاہ اول 1707–1712
جہاں دار شاہ 1712–1713
فرخ سیر 1713–1719
رفیع الدرجات 1719
شاہجہان ثانی 1719
محمد شاہ 1719–1748
احمد شاہ بہادر 1748–1754
عالمگیر ثانی 1754–1759
شاہجہان ثالث (برائے نام) 1759–1760
شاہ عالم ثانی 1760–1806
[[بیدار بخت محمود شاہ بہادر] (برائے نام) 1788
اکبر شاہ ثانی 1806–1837
بہادر شاہ ظفر 1837–1857
برطانیہ نے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ کیا

1658ء میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے معزول کر دیا۔ شاہ جہاں کی تعمیرات سے دِلچسپی اور اُس کے عہد میں تعمیر ہونے والے تعمیری شاہکار آج بھی قائم ہیں۔ اُسے مغلیہ سلطنت کا عظیم ترین معمار شہنشاہ یا انجنئیر شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کی وجہ شہرت تاج محل اور ممتاز محل سے اُس کی محبت کی داستانیں ہیں۔[7]

ابتدائی زندگی ترمیم

ولادت ترمیم

 
شاہ جہاں تین شہزادوں دارا شکوہ، شاہ شجاع، اورنگزیب اور ابوالحسن آصف خان کے ہمرا۔ (1628ء)

شاہ جہاں کی ولادت بروز بدھ 30 ربیع الاول 1000ھ مطابق 5 جنوری 1592ء کو دار السلطنت لاہور میں ہوئی۔[8] شاہ جہاں کی ولادت اُن کے دادا اکبر اعظم کی حکومت کے 36 ویں سال میں ہوئی۔ اُس وقت لاہور مغل سلطنت کا دار السلطنت تھا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم 1586ء سے مغل شاہی خاندان کے یہیں مقیم تھا۔ پیدائش کے چھٹے روز جہانگیر نے اپنے والد جلال الدین اکبر کو مدعو کیا تاکہ وہ نوزائیدہ بچے کا نام تجویز کریں۔ شہنشاہ اکبر نے نوزائدہ بچے کا نام خرم رکھا اور رقیہ سلطان بیگم کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ اِس کی تربیت کرسکیں۔ [9]شاہ جہاں ابتدائی ایام سے ہوش سنبھالنے تک اور ہوش سنبھالنے کے بعد تین سال تک رقیہ سلطان بیگم کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا۔[10][11]

 
شاہ جہاں۔ (1630ء)

والدین ترمیم

شاہ جہاں کے والد مغل شہنشاہ جہانگیر اور والدہ جگت گوسائیں تھی۔جگت گوسائیں راجہ ادھے سنگھ کی بیٹی تھی جس سے جہانگیر نے 26 جون 1586ء کو شادی کی تھی۔[12][13][14]

حلیہ و مشابہت ترمیم

شاہ جہاں کا قد میانہ تھا اور رنگ گندمی تھا۔ اُس کی پیشانی کشادہ، بھویں اُبھری ہوئی، ناک کسی قدر جھکی ہوئی لیکن ستواں، آنکھیں چمکدار اور بھورے رنگ کی لیکن پتلیاں سیاہ تھیں۔ آواز شیریں تھیں، فصاحت کے ساتھ فارسی زبان بولنے پر اُس کو قدرت حاصل تھی۔ باپ داد کے برعکس اُس کی داڑھی متشرع مسلمانوں کی داڑھی جیسی دراز تھی۔ ہاتھ نہ تو بہت دراز تھے اور نہ بہت چھوٹے۔ دست راست کی چار اُنگلیوں پر تل تھے جو نیک فال کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اِس لحاظ سے وہ شاہانہ اقتدار کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔[15]

تعلیم ترمیم

 
شاہ جہاں اور مغل شہزادہ دارا شکوہ۔ (جولائی 1638ء)
 
شاہ جہاں۔ (غالباً 1656ء)

شاہ جہاں کی عمر جب چار سال چاہ ماہ چار یوم ہوئی تو اُسے مکتب بٹھایا گیا اور اِس خوشی میں غالباً مروجہ شان و شوکت کے مطابق جشن منایا گیا۔ شاہ جہاں کے پہلے اُستاد ملا قاسم بیگ تبریزی تھے جو مرزا جان تبریزی کے شاگرد تھے۔ اِن کے علاوہ ممتاز عالم دین اور علوم عقلی کے ماہر اور صوفی منش انسان بھی تھے۔ مرزا قاسم بیگ تبریزی کے بعد شاہ جہاں کے اتالیق حکیم علی گیلانی مقرر ہوئے جو مشہور طبیب اور گراں قدر خوبیوں کے حامل تھے۔ حکیم علی گیلانی علم طبابت میں اپنے ماموں حکیم الملک شیرازی اور اُن کے بعد شاہ فتح اللہ گیلانی کے شاگرد تھے۔ علوم دینیہ میں وہ شیخ عبدالنبی کے شاگرد تھے۔شاہ جہاں کو دِیگر اُساتذہ کی بجائے زیادہ سروکار حکیم علی گیلانی سے رہا۔ علاوہ ازیں شاہ جہاں کے دِیگر اُساتذہ میں شیخ صوفی بھی شامل تھے جو میاں وجیہ الدین گجراتی کے شاگرد تھے۔ یہ خوش مذاق شاعر اور شگفتہ مزاج شخصیت تھے۔ شیخ ابوالخیر اور شیخ ابوالفضل بھی متوازن مزاج شخصیات تھیں کہ جن سے شاہ جہاں کو علم حاصل ہوا۔ شاہ جہاں اپنے والد نورالدین جہانگیر کی نسبت مفکرانہ ذہنیت کا مالک نہ تھا بلکہ وہ عملی ذہن کا حامل تھا۔ فارسی زبان بہت جلد سیکھ لی اور اِس کے اِظہارِ بیان پر قدرت حاصل کی۔ ترکی زبان شاید اُسے پسند نہ تھی جس کے سیکھنے کی طرف وہ مائل نہ ہوا۔[16] ترکی زبان سے بیگانگی کی شکایت ایک بار اُس نے رقیہ سلطان بیگم سے بھی کی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے ترکی زبان کے سیکھنے سے کوئی شغف نہ تھا۔[17] شہنشاہ اکبر نے ایک بار اُسے ترکی زبان سکھانے کی کوشش کی تھی کہ تاتار خان کو اُس کا ترکی زبان کے لیے استاد مقرر کیا مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُس نے شاہ جہاں میں اِس زبان کے لیے کوئی شوق پیدا کیا یہ نہیں۔[18] البتہ شاہ جہاں کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کند ذہن لڑکا نہ تھا بلکہ اُس کا ذہن تیز اور حافظہ غیر معمولی تھا۔ تفصیل پسندی اور اُس پر عبور حاصل کرنے کی اُس میں خاص صلاحیت تھی جو مرتے دم تک اُس کے ساتھ رہی۔[19]

جسمانی و آہنی تربیت ترمیم

شہنشاہ اکبر نے شاہ جہاں کی مکتب کی تعلیم کے ساتھ اُس کی جسمانی تربیت کا بھی خیال رکھا۔ 1587ء میں جب شہنشاہ اکبر آخری بار کشمیر جا رہا تھا تو شاہ جہاں کو لاہور میں میر مراد جوانیسی کی زیرنگرانی چھوڑ گیا اور میر مراد کے ذمے یہ حکم لگایا تھا وہ شاہزادے کو تیراندازی سکھائے اور تعلیم قور کی روزانہ مشق کروائے۔ بعد ازاں شاہ جہاں دادا شہنشاہ اکبر کے ساتھ جب دکن گیا تو بندوق چلانا سیکھی اور بندوق کی مشق راجا سلیوان کے ذمے رہی۔ دکن میں اُس نے سواری و تیغ زنی کی مشقیں بھی کیں اور روزانہ ورزش اُس کا معمول بن گئی ۔ فن عروض و خطابت جیسے خشک موضوعات کے مقابلے میں اُس کو اُن فنون میں دلچسپی رہی کہ اپنے والد کی طرح وہ تیر کمان اور بندوق کے استعمال کا ماہر ہوا۔[20]

خسرو کی بغاوت ترمیم

27 اکتوبر 1605ء کو شہنشاہ اکبر نے وفات پائی اور اِس کے ایک ہفتے بعد نورالدین جہانگیر بحیثیت مغل شہنشاہ کے 3 نومبر 1605ء کو تخت نشین ہوا۔ اِس تخت نشینی کے ساتھ ہی خسرو مرزا کی بغاوت شروع ہو گئی جو حکومت کے ساتھ ہلچل کرتی گئی۔ خسرو 6 اپریل 1606ء کی شام کو آگرہ سے بہانہ کرکے نکل گیا کہ وہ شہنشاہ اکبر کی قبر پر جا رہا ہے لیکن وہ پنجاب کی طرف بڑھا اور راستے میں اُس کو حسین بیگ بدخشی اور عبد الرحمٰن مل گئے۔ خسرو کے فرار سے جہانگیر پریشان ہوا اور شیخ فرید بخاری کو حکم دیا کہ باغی خسرو کا پیچھا کرے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود بھی اِس مہم کے لیے فوراً روانہ ہو لیکن آگرہ دار السلطنت تھا اور اِس کا انتظام بھی ضروری تھا، اِس لیے جہانگیر نے ایک مجلس وزارت تشکیل دی اور اِس مجلس وزارت میں شیخ علاء الدین (جو شیخ سلیم چشتی کے پوتے تھے)، مرزا غیاث بیگ تہرانی، دوست محمد خواجہ جہاں اور راجا راؤ سنگھ بھرتبا شامل تھے۔ شاہ جہاں کو اِس مجلس کا صدر بنایا گیا۔ یہ شاہ جہاں کے لیے عوامی رابطے کا پہلا موقع تھا۔ سوہدرہ کے مقام سےخسرو کی جلد گرفتاری کے ساتھ بغاوت دم توڑ گئی اور 1607ء میں خسرو کو آگرہ کے قلعے میں اندھا کرکے قید کر دیا گیا۔ 1616ء سے 1620ء تک وہ ابوالحسن آصف خان کی تحویل میں رہا۔ 1620ء میں وہ شاہ جہاں کی تحویل میں دے دیا گیا اور 26 جنوری 1622ء کو شاہ جہاں کے حکم پر خسرو کو دکن میں قتل کر دیا گیا۔[21][22][23][24][25]

ازواج ترمیم

جنوری 1610ء میں شہنشاہ جہانگیر نے شاہ جہاں کی نسبت مرزا مظفر حسین صفوی خانوادۂ شاہ اسماعیل (ایران) کی لڑکی قندھاری بیگم سے کردی تھی حالانکہ اِس سے قبل شاہ جہاں کی نسبت ارجمند بانو بیگم سے ہو چکی تھی۔ قندھاری بیگم بعد میں محل میں موجود رہی اور شاہ جہاں نے اُسے اپنی بیوی کی حیثیت سے اپنائے رکھا۔ یہ معاملہ مؤرخین کے لیے زیادہ مشکوک نظرآتا ہے۔ قندھاری بیگم سے شادی مزید ایک سال مؤخر کردی گئی اور بعد ازاں ارجمند بانو بیگم سے شادی کردی گئی۔[26] 30 جنوری 1607ء کو شاہ جہاں کی نسبت ابوالحسن آصف خان کی بیٹی ارجمند بانو بیگم سے ہو چکی تھی جسے بعد ازاں ممتاز محل کے نام سے پکارا گیا۔ اُس وقت شاہ جہاں کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ اِس نسبت کے پانچ سال بعد 30 اپریل 1612ء کو آگرہ میں رخصتی عمل میں آئی۔ یہ عقد انتہائی کامیاب ترین رہا اور تاریخ میں ایک مثالی جوڑے کے نام سے یاد کیا گیا۔[27] یہ عقد 19 سال قائم رہا اور ممتاز محل شاہ جہاں کی چہیتی بیوی کے طور پر اپنی حیثیت قائم رکھنے میں برقرا رہی۔ گوہر آراء بیگم کی پیدائش کے کچھ ہی گھنٹوں بعد 17 جون 1631ء کو ممتاز محل اِس دنیا سے رخصت ہو گئی۔[28][29] ممتاز محل کو اولاً برہانپور میں امانتاً سپردِ خاک کیا گیا اور بعد ازاں تاج محل کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد اُس کی قبرکشائی کرکے اُسے تاج محل میں دفن کیا گیا۔ 23 اگست 1617ء کو شاہ جہاں نے تیسری شادی عبد الرحیم خان خاناں کی بیٹی سے کی جو دکن میں سر انجام پائی۔ یہ شادی مصلحتاً سیاسی تھی۔[30]

ابتدائی فوجی مہمات ترمیم

خسرو کی بغاوت ختم کرکے جہانگیر نے لاہور میں قیام کیا۔ قیامِ لاہور کے دوران ہی شاہ جہاں کو 21 مارچ 1607ء کو پہلا فوجی منصب یعنی ہشت ہزاری ذات اور پنج ہزاری سوار مع طومان، تغ و طبل و علم تفویض ہوئے۔ نومبر 1607ء میں شاہ جہاں کو اجین کی جاگیر اور حصار فیروزہ کی سرکار تفویض ہوئی۔ اِس کے علاوہ شہنشاہ جہانگیر کی طرف سے شہزادے کو یہ اجازت دِی گئی کہ وہ سرخ خیمہ نصب کرسکتا ہے (یہ اجازت خصوصاً عنایت خاص کے اعتبار سے سب سے بڑے شہزادے کو دی جاتی تھی)۔ اِس اعزازات کے علاوہ مزید یہ کہ ایک شاہی مہر اُس کے سپرد کردی گئی اور حکم دِیا گیا کہ جملہ فرامین اور پروانوں پر اُس کی مہر ضرور ثبت ہونی چاہیے[31]۔ 27 مارچ 1612ء کو ملکہ نورجہاں کے مشورے پر شہنشاہ جہانگیر نے شاہ جہاں کو بارہ ہزار ذات اور پانچ ہزار سوار کا منصب عطاء کیا۔[32]

شہزادہ خرم نے غیر معمولی فوجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ خرم کو اپنی فوجی طاقت کو آزمانے کا پہلا موقع راجپوت ریاست میواڑ کے خلاف مغل مہم کے دوران تھا ، جو اکبر کے دور حکومت سے مغلوں کی دشمن قوت تھی۔[33]

ایک سال کی سخت جنگ کے بعد ، رانا امر سنگھ اول نے مغل افواج کے سامنے مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے اور میواڑ کی مغل مہم کے نتیجے میں مغل سلطنت کی جاگیر دار ریاست بن گئے۔[34] 38ء میں خرم نے امر سنگھ کے وارث کنور کرن سنگھ کو جہانگیر کے حوالے کیا۔ خرم کو ان کی والدہ اور سوتیلی ماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور بعد میں جہانگیر نے انھیں انعام سے نوازا۔  اسی سال ، اس کے منسب کو 12000/6000 سے بڑھا کر 15000/7000 کر دیا گیا ، جو اس کے بھائی پرویز کے برابر تھا ۔[35][36]

1616ء میں خرم کی دکن روانگی پر جہانگیر نے انھیں شاہ سلطان خرم کے لقب سے نوازا۔[37]

1617ء میں خرم کو دکن میں لودھیوں سے نمٹنے کی ہدایت کی گئی تاکہ سلطنت کی جنوبی سرحدوں کو محفوظ بنایا جا سکے اور اس علاقے پر شاہی کنٹرول بحال کیا جا سکے۔ ان مہمات میں کامیابیوں کے بعد 1617ء میں واپسی پر خرم نے جہانگیر کے سامنے قرآنش کا مظاہرہ کیا جس نے انھیں جھروکا بلایا اور اپنی نشست سے اٹھ کر انھیں گلے لگایا۔ جہانگیر نے اسے شاہ جہاں (فارسی: "دنیا کا بادشاہ") کا لقب بھی دیا[38] اور اس کے فوجی عہدے کو30000/20000 تک بڑھا دیا اور اسے اپنے دربار میں ایک خاص تخت کی اجازت دی ، جو ایک شہزادے کے لیے ایک بے مثال اعزاز تھا۔[39]  ایس ہولڈن لکھتے ہیں ، "وہ کچھ لوگوں کی طرف سے خوش تھے ، دوسروں سے حسد کرتے تھے ، کسی سے محبت نہیں کرتے تھے۔[40]

1618ء میں شاہ جہاں کو اس کے والد نے جہانگیر نامہ کی پہلی کاپی دی جو اسے "ہر چیز میں میرا سب سے پہلا بیٹا" سمجھتا تھا۔[41]

باغی شہزادے ترمیم

مغلیہ سلطنت میں شاہی بیٹوں نے فوجی کامیابیوں کے حصول اور عدالت میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے مقابلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے اکثر بغاوتیں اور جانشینی کی جنگیں ہوئیں۔ نتیجتا شاہجہاں کے ابتدائی برسوں میں مغل دربار کو ایک پیچیدہ سیاسی ماحول نے گھیر لیا۔ 1611ء میں ان کے والد نے نور جہاں سے شادی کی جو ایک فارسی سردار کی بیوہ بیٹی تھی۔ وہ تیزی سے جہانگیر کے دربار کی ایک اہم رکن بن گئیں اور اپنے بھائی آصف خان کے ساتھ مل کر کافی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔ ارجمند آصف خان کی بیٹی تھی اور خرم سے اس کی شادی نے دربار میں نورجہاں اور آصف خان کے عہدوں کو مستحکم کیا۔

تاہم عدالت کی سازشوں میں نورجہاں کی جانب سے شہزادہ خرم کے سب سے چھوٹے بھائی شہزادہ شہریار سے اپنی پہلی شادی سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا فیصلہ اور تخت کے حصول کے لیے ان کی حمایت شامل ہے۔ شہزادہ خرم اپنے والد پر نورجہاں کے اثر و رسوخ سے ناراض تھے اور اپنے پسندیدہ شہریار، سوتیلے بھائی اور داماد کے دوسرے کردار پر ناراض تھے۔ جب فارسیوں نے قندھار کا محاصرہ کیا تو نور جہاں معاملات کی قیادت کر رہی تھی۔ اس نے شہزادہ خرم کو قندھار کی طرف مارچ کرنے کا حکم دیا ، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ شہزادہ خرم کی جانب سے نورجہاں کے احکامات ماننے سے انکار کے نتیجے میں قندھار پینتالیس روزہ محاصرے کے بعد فارسیوں کے ہاتھوں کھو گیا۔  خدشہ تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں نورجہاں اس کے والد کو اس کے خلاف زہر دینے کی کوشش کرے گی اور جہانگیر کو اس کی جگہ شہریار کا نام دینے پر راضی کرے گی۔ اس خوف نے شہزادہ خرم کو فارسیوں کے خلاف لڑنے کی بجائے اپنے والد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کیا۔[42]

1622ء میں شہزادہ خرم نے ایک فوج کھڑی کی اور اپنے والد اور نورجہاں کے خلاف مارچ کیا۔  مارچ 1623 میں اسے بلوچ پور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں انھوں نے مہارانا کرن سنگھ دوم کے ساتھ ادے پور میواڑ میں پناہ لی۔ انھیں پہلے دلواڑہ کی حویلی میں رکھا گیا تھا اور بعد میں ان کی درخواست پر جگمندر محل منتقل کر دیا گیا تھا۔ شہزادہ خرم نے مہارانا کے ساتھ اپنی پگڑی کا تبادلہ کیا اور وہ پگڑی آج بھی پرتاپ میوزیم، ادے پور میں محفوظ ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ جگمندر کے موزائیک کام نے انھیں آگرہ کے تاج محل میں موزائیک کام کو استعمال کرنے کی ترغیب دی۔ نومبر 1623ء میں آگرہ اور دکن سے نکالے جانے کے بعد اسے بنگال صوبہ میں محفوظ پناہ مل گئی۔ وہ مدناپور اور بردوان سے گزرتے ہوئے آگے بڑھا۔ اکبر نگر میں ، اس نے بنگال کے اس وقت کے صوبیدار ابراہیم خان فتح جنگ کو 20 اپریل 1624 کو شکست دی اور قتل کر دیا۔  میں داخل ہوا اور "حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام ہاتھی، گھوڑے اور 48،4،000 روپے اس کے حوالے کر دیے گئے"۔ مختصر قیام کے بعد وہ پٹنہ چلے گئے۔  ان کی بغاوت آخر میں کامیاب نہیں ہوئی اور الہ آباد کے قریب شکست کے بعد انھیں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگرچہ شہزادے کو اس کی غلطیوں کے لیے معاف کر دیا گیا تھا ، لیکن نور جہاں اور اس کے سوتیلے بیٹے کے مابین تناؤ سطح کے نیچے بڑھتا رہا۔

1627 میں جہانگیر کی موت کے بعد ، وزیر آصف خان ، جو طویل عرصے سے شہزادہ خرم کا خاموش حامی تھا ، نے شہزادہ شہریار کو تخت پر بٹھانے کے لیے اپنی بہن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے غیر متوقع طاقت اور عزم کے ساتھ کام کیا۔ اس نے نور جہاں کو قید میں ڈال دیا۔ اس نے شہزادہ خرم کے تین بیٹوں کا کنٹرول حاصل کیا جو اس کے ماتحت تھے۔ آصف خان نے شہزادہ خرم کی تخت نشینی کو یقینی بنانے کے لیے محل کی سازشوں کا بھی انتظام کیا۔  شہزادہ خرم ابوالمظفر شہاب الدین محمد صاحب القران الثانی شاہ جہاں پادشاہ غازی یا شاہ جہاں کے نام سے مغل تخت پر فائز ہوئے۔[43]

حکمران کی حیثیت سے اس کا پہلا کام اپنے اہم حریفوں کو پھانسی دینا اور اپنی سوتیلی ماں نور جہاں کو قید کرنا تھا۔ شاہ جہاں کے حکم پر ، 23 جنوری 1628 کو متعدد پھانسیاں دی گئیں۔ جن لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ان میں ان کا بھائی شہریار بھی شامل تھا۔ اس کے بھتیجے داوڑ اور گرشاسپ ، شاہ جہاں کے پہلے سزائے موت پانے والے بھائی شہزادہ خسرو کے بیٹے تھے۔ اور ان کے چچا زاد بھائی تہموراس اور ہوشنگ مرحوم شہزادہ دانیال مرزا کے بیٹے ہیں۔  شاہ جہاں کو بغیر کسی جھگڑے کے اپنی سلطنت پر حکمرانی کرنے کی اجازت دی۔[44][45]

گورنری ترمیم

چتوڑ کی مہم ترمیم

1568ء میں شہنشاہ اکبر نے میواڑ کے دار الحکومت چتوڑگڑھ کو فتح کر لیا تھا اور چتوڑ واحد ایسی ریاست تھی جس نے دیر تک مغلوں کا مقابلہ کیا۔

عہد حکومت اور واقعات حکومت ترمیم

28 اکتوبر 1627ء کو مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے راجوری کے مقام پر وفات پائی۔ جہانگیر کی وفات کے وقت شاہ جہاں جُنَّار (یا جُنَّیر) کے مقام پر تھا۔ جہانگیر کی وفات کے بعد شاہ جہاں کے خسر ابوالحسن آصف خان نے اُس کے دوسرے بھائی خسرو مرزا کے بیٹے داور بخش کو تخت پر بطور مغل شہنشاہ کے بٹھا دِیا۔ یہ مسند داور بخش کے لیے عارضی ثابت ہوئی اور جب خاندان کے دوسرے شاہزادے یعنی دانیال مرزا کے بیٹے ہوشنگ مرزا، طہماسپ اور طہمورث شاہ جہاں کے زیرعتاب آئے تو ابوالحسن آصف خان نے داور بخش کو ایران فرار ہوجانے کا موقع دے دیا لیکن یہ موقع اُس کے لیے پائیدار ثابت نہ ہو سکا اور اسی دوران لاہور میں 30 دسمبر 1627ء کو شاہ جہاں کو مغل شہنشاہ تسلیم کر لیا گیا اور 23 جنوری 1628ء کو شاہ جہاں کے حکم پر لاہور میں چاروں شہزادوں کو قتل کر دیا گیا۔[46][47][48]

1628ء – 1633ء ترمیم

شاہ جہاں اپنی تیس سالہ حکومت کے دوران اندازہً نصف مدت تک دار السلطنت کے باہر رہا۔ اِس موقع پر اُس کے نجی معاملات کا مختصر سا بیان باعث دلچسپی ہے کہ تخت نشینی کے سال کے اندر ہی اُسے آگرہ چھوڑ کر گوالیار جانا پڑا تاکہ وہ جھجھار سنگھ کی سرکوبی کرسکے۔ جھجھار سنگھ نے اطاعت قبول کرلی اور شاہ جہاں کو ایک مہینے سے کچھ زائد کی مدت کی غیر حاضری کے بعد آگرہ واپس آنا پڑا۔ دسمبر 1629ء میں اُسے دوبارہ آگرہ چھوڑ کرجانا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خان جہاں لودھی کو دکن بھاگ جانے پر سزا دے سکے۔ شاہ جہاں رنتھنبور کے راستے سے چاندا سے ہوتا ہوا مالوہ سے یکم مارچ 1630ء کو برہانپور پہنچا اور یہاں دو سال تک مقیم رہا۔ برہانپور میں قیام کے دوران ہی ممتاز محل کا انتقال ہوا۔ 6 مارچ 1632ء کو شاہ جہاں برہانپور سے روانہ ہوکر ماہِ جون 1632ء میں واپس آگرہ پہنچا اور یہاں مزید دو سال تک مقیم رہا۔ 1632ء کے آخری مہینوں میں شاہ جہاں نے بڑے فرزند دارا شکوہ کی شادی کی تقاریب منعقد کیں اور یہ شادی 25 جنوری 1633ء کو طے پائی۔ یکم فروری 1633ء کو تقاریب عروسی منعقد ہوئیں اور شاہ جہاں ممتاز محل کے انتقال کے بعد سے جاری ایامِ سوگ ترک کرکے زندگی نغمہ سنج میں واپس آگیا۔ دارا شکوہ کی شادی کے فوراً بعد ہی 23 فروری 1633ء کو شاہ شجاع کی شادی بھی کردی گئی۔[49]

دکن میں قحط ترمیم

1630ء سے 1632ء کے وسطی عرصے میں دکن میں قحط پڑا۔ گجرات، خاندیش میں فصلیں تباہ ہوگئیں جس سے دو لاکھ کے قریب افراد قلت خوراک کے باعث جاں بحق ہوئے۔ شاہ جہاں نے ہنگامی بنیاد پر لنگرخانے تشکیل دیے تاکہ دکن کی آبادی پر تیزی سے قحط پر قابو پایا جاسکے۔[50][51][52]

1632ء – 1640ء تک کے واقعات ترمیم

1632ء سے 1636ء تک احمد نگر سلطنت کے متعلق مہمات جاری رہیں۔ 1632ء میں شاہ جہاں نے دولت آباد کا قلعہ تسخیر کر لیا جس سے احمد نگر سلطنت کے آخری حکمران مرتضیٰ نظام شاہ سوم کو قید کروا دیا۔ 1635ء میں گولکنڈہ اور 1636ء میں بیجاپور بھی شاہ جہاں کے قبضہ اقتدار میں آگئے۔ شاہ جہاں نے شاہزادہ اورنگزیب کو دکن کے علاقوں دولت آباد، صوبہ برار، تلنگانہ، خاندیش پر بطور نائب السلطنت کے مقرر کر دیا۔ بعد ازاں شہزادہ اورنگزیب نے 1656ء میں گولکنڈہ اور 1657ء میں بیجاپور تسخیر کرلیے۔[53] 1636ءسے 1657ء کے وسطی عرصے میں دکن کی باقی ماندہ تین سلطنتوں مغلیہ سلطنت میں شامل ہوگئیں۔ 1636ء میں احمد نگر سلطنت ختم ہو گئی اور باقی ماندہ دو سلطنتوں یعنی بیجاپور سلطنت اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کو شہزادہ اورنگزیب نے مجبور کر دیا کہ وہ مغلیہ سلطنت کے شاہی اقتدار کو تسلیم کریں اور باجگزار ہوجائیں۔ [54]

ہُگلی کی بندرگاہ پر مغل تسلط ترمیم

جون 1631ءسے اکتوبر 1632ء تک چار مہینوں کے محاصرے کے بعد پرتگالیوں سے دریائے ہُگلِی کی بندرگاہ چھین لی گئی جن پر اُن کا مدتِ دراز سے قبضہ چلا آ رہا تھا۔ مغل صوبیدار قاسم خان جوینی کی قیادت میں ایک مہم ہُگلِی بندرگاہ کو پرتگالیوں کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے بھیجی گئی۔ قاسم خان جوینی کی اِس مہم پر پرتگالی جنگ پر آمادہ ہو گئے اور میدانِ کارزار میں 10,000 پرتگالی قتل ہوئے۔ 25 ستمبر 1632ء کو ہُگلی پر مغل سلطنت کا پر تسلط قائم ہو گیا۔[55]

1633ء سے 1635ء تک کے واقعات ترمیم

1633ء میں شاہ جہاں پہلی بار علیل ہوا مگر تین دِن کی علالت کے بعد صحت یاب ہو گیا۔ ماہِ جنوری 1634ء میں آگرہ سے کشمیر کی سیر کو روانگی ہوئی۔ راستے میں دارا شکوہ بیمار ہو گیا اور خاندانی طبیب حکیم شیخ علیم الدین انصاری المشہور بہ وزیر خان کو علاج کے لیے طلب کر لیا گیا۔ لاہور میں مختصر قیام کے بعد شاہ جہاں نے دوبارہ سفر کشمیر جاری رکھا اور 5 جون 1634ء کو وہ کشمیر پہنچا۔ ماہِ ستمبر 1634ء کے پہلے ہفتے میں وہ کشمیر کو خیرباد کہہ کر لاہور کے لیے روانہ ہوا اور 16 نومبر 1634ء کو لاہور پہنچ گیا۔ لاہور میں قیام 2 مہینے رہا اور یہاں سے دار السلطنت آگرہ کے لیے روانہ ہوا۔ دہلی میں چند دِن قیام کرکے 12 مارچ 1635ء کو آگرہ پہنچا۔[56]

دکن کا سفر اور 1636ء تک کے واقعات ترمیم

 
شاہ جہاں کی ذاتی زرہ کی قمیص 1632-1633

شاہ جہاں جب سفر کشمیر اور لاہور میں مقیم تھا تو شہنشاہ کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھا کر جھجھار سنگھ کو جاہ طلبی کا اِرادہ ہوا۔ دکن کی غیر اطمینانی صورت حال اور جھجھار سنگھ کی دوبارہ بغاوت سے مجبور ہوکر شاہ جہاں کو ماہِ ستمبر 1635ء کے اواخر میں آگرہ چھوڑنا پڑا۔ باری دوآب پہنچ کر شاہ جہاں نے راستہ تبدیل کر لیا اور بندیل کھنڈ پہنچ گیا اور جنوری 1636ء کے ابتدائی دِنوں میں اُس نے دریائے نربدا پار کیا اور سیدھا دولت آباد کی طرف کوچ کیا۔ چھ مہینوں کی شدید مشقت کے بعد صوبہ احمد نگر میں اَمن و اَمان قائم کرنے اور بیجاپور اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت سے خاطرخواہ صلح کرنے میں کامیاب ہوا۔ جولائی 1636ء کے اوائل میں شاہ جہاں دکن سے روانہ ہوا اور اجین اور مانڈو سے ہوتے ہوئے 25 نومبر 1636ء کو اجمیر پہنچا اور ایک ہفتے کے قیام کے بعد وہ 5 جنوری 1637ء کو آگرہ پہنچا۔[57]

1637ء کے واقعات ترمیم

مارچ 1637ء میں شاہ جہاں بیمار ہوا اور 29 دِن کی علالت کے بعد صحت یابی ہوئی۔ اپریل 1637ء میں شہزادہ اورنگزیب کی شادی منعقد کی گئی۔ یہ شادی 8 مئی 1637ء کو سر انجام پائی۔[58]

1638ء سے 1643ء تک کے واقعات ترمیم

ماہِ فروری 1638ء میں صفوی حاکم قندھار علی مردان خان نے قندھار مغل افسروں کے سپرد کر دیا۔ قندھار جہانگیر کے زمانہ حکومت میں مغل سلطنت کے ہاتھوں سے نکل کر صفوی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا۔ علی مردان خان کی سپردگیٔ قندھار کے بعد آئندہ کے 15 سال تک شاہ جہاں کی توجہ شمال مغربی سرحد پر مرکوز رہی۔ شہنشاہ نے پہلی بار کابل کا سفر اگست 1638ء میں شروع کیا اور اِس سفر کے دو مقصد پیش نظر تھے: اول یہ کہ قندھار پر ایرانیوں کے مجوزہ حملوں کی روک تھام کی جاسکے اور دؤم یہ کہ ما وراء النہر کی صورت حال سے آگہی رکھی جاسکے۔ 18 مئی 1639ء کو شہنشاہ کابل پہنچا اور تخمیناً چار مہینوں کے قیام کے بعد وہ ستمبر 1639ء کو واپس لاہور آگیا۔ لاہور سے کشمیر چلا گیا اور اب کشمیر میں قیام دو سال رہا۔ کشمیر میں اقامت کے دوران ہی ابوالحسن آصف خان، وزیر اعظم کا انتقال لاہور میں ہوا۔ جولائی 1641ء میں شہزادہ مراد بخش کی شادی منعقد ہوئی۔ اوائل جنوری 1643ء میں شاہ جہاں دوبارہ آگرہ واپس آگیا۔[59]

1643ء سے 1647ء تک کے واقعات ترمیم

آگرہ واپسی کے چند روز بعد شاہ جہاں اجمیر گیا اور وہاں سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں قیام دو سال تک رہا۔ قیامِ لاہور کے دوران مارچ 1644ء میں شاہزادی جہاں آراء بیگم کے لباس میں آگ لگ گئی جس سے شاہزادی بری طرح جل گئی۔ اِس کے علاج میں شاہ جہاں نے کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی۔ شفاء کلی حاصل ہونے کے بعد ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی اور اِس تقریب میں 25 نومبر 1644ء کو شہزادہ اورنگزیب جس سے شاہ جہاں ناراض تھا، نے جشن کے اختتام پر اپنی بہن کی سفارش پر اورنگزیب دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ اوائل 1645ء میں شاہ جہاں آگرہ سے روانہ ہوا اور تین سال مغربی صوبہ جات میں گزارے۔ 1645ء کے موسم گرما میں وہ کشمیر کی سیر کو گیا اور بلخ اور بدخشاں کی مہمات کی نگرانی میں دوبارہ کابل جانا ہوا۔ نتیجۃً یہ ثابت ہوا کہ ہندوکش کے پہاڑوں کے پار قبضہ رکھنا ناممکن ہے۔ اِس لیے شہنشاہ نے اپنی افواج واپس بلوا لیں۔ جون 1647ء کے آخری ہفتے میں وہ کابل سے روانہ ہوکر لاہور سے ہوتے ہوئے دہلی کے راستے سے آگرہ پہنچ گیا۔[60]

لال قلعہ میں رہائش اختیار کرنا ترمیم

1638ء میں شاہ جہاں کی خواہش پر پرانی دہلی کو شاہ جہان آباد کا نام دے کر بطور نئے دار السلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ 12 مئی 1639ء کو لال قلعہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اب جب شاہ جہاں آگرہ واپس ہو رہا تھا تو دہلی میں مختصر قیام کے دوران دہلی کے افسروں کو حکم جاری کرتا گیا کہ دہلی کی عمارات کی تعمیر کا کام تیزی سے مکمل کر لیا جائے۔ دو مہینوں کے اندر ہی افسروں نے دہلی محل کو اقامت و رہائش کے قابل بنا دیا اور شہنشاہ نے دہلی کے لیے 27 مارچ 1648ء کو آگرہ سے روانگی اختیار کیا۔ 8 اپریل 1648ء کو شہنشاہ کے تلا دان کی قمری تاریخ تھی اور اِسی کے پیش نظر نئے محل کی رسم افتتاح بھی ادا کی گئی۔ شاہ جہاں کے دہلی میں لال قلعہ میں رہائش اختیار کرنے سے لال قلعہ آئندہ تین صدیوں تک مغلیہ سلطنت کی سرکاری رہائش گاہ بنا رہا۔[61]

1638ء سے 1652ء تک کے واقعات ترمیم

قندھار فروری 1638ء میں مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا تھا لیکن صفوی سلطنت کی جانب سے خطرات کم نہ ہوئے تھے۔ اِنہی خطرات نے شاہ جہاں کو مغربی سرحد پر آنے پر مجبور کر دیا۔ شاہ عباس دؤم نے قندھار پر حملہ کر دیا اور قبضہ بھی کر لیا۔ مغل افواج کا مطالبہ تھا کہ قندھار واپس لیا جائے۔ اِس مطالبے کے پیش نظر شاہ جہاں نومبر 1648ء کے اوائل میں ہی دہلی چھوڑ کر مغربی سرحد پر پہنچا۔ 18 مہینوں تک دار السلطنت سے باہر گزارے اور اضطراری طور پر قندھار کی واپسی کے لیے کوشش کی مگر یہ کوشش بیکار ثابت ہوئی۔ بالآخر شاہ جہاں نے اپنا خیمہ جنگ کابل میں منتقل کر لیا اور 4 جنوری 1650ء کو واپس آگرہ آگیا۔ قندھار کی تسخیر نامکمل رہ جانے کے باعث شاہ جہاں نے نئے دار السلطنت دہلی کی خوشی میں ضیافتوں کا اہتمام شروع کیا گیا۔ تخت طاؤس آگرہ سے منگوایا گیا۔ طویل ترین اِن تقاریب و ضیافتوں کا اختتام 10 مارچ 1650ء کو ہوا۔ تقریباً ایک سال کے بعد ماہِ فروری 1651ء کو شاہ جہاں آخری بار کشمیر کی سیر کو روانہ ہوا۔ آئندہ موسم گرما وہیں بسر کی۔ ستمبر 1651ء کے وسط میں لاہور آیا اور دوبارہ قندھار کی مہم کے سلسلے میں افواج کی رہنمائی کی۔16 فروری 1652ء کو لاہور چھوڑا، 21 اپریل 1652ء کو کابل پہنچا اور وہاں سے واپس دار السلطنت 2 دسمبر 1652ء کو پہنچ گیا۔[62]

1653ء سے 1657ء تک کے واقعات ترمیم

1652ء سے 1654ء تک شاہ جہاں شاہجہان آباد کے لال قلعہ میں قیام پزیر رہا۔ اِس مدت میں وہ صرف دو بار مختصر وقفے کے لیے باہر گیا۔ ایک بار آگرہ اور ایک بار اجمیر۔ نومبر یا دسمبر 1653ء میں موتی مسجد دیکھنے گیا۔ جنوری 1654ء میں ایک مراٹھی بہروپیے نے شہنشاہ پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن کوتوال محل کے حملہ سے وہ قتل ہوا۔[63]

1657ء سے 1658ء کے سیاسی حالات اور شہزادوں کی جنگ تخت نشینی ترمیم

 
داراشکوہ کی تحریر کردہ کتاب "دی بحرین مال" سے دو اخبارات۔ اس نے اسلام اور ہندو ازم کو ملانے کی بات کی۔
 
داراشخ اور اس کے دو بھائیوں اورنگزیب اور مراد بخش کی افواج کے درمیان سموگڑھ کی لڑائی کی تصویر کشی کی گئی ایک ڈرائنگ جس میں اورنگزیب کی فتح اور اس کی حکمرانی کو مضبوط کیا گیا۔

مغلیہ سلطنت کے صوبوں میں امن و اَمان کی صورت حال تھی اور رعایا اطمینان سے زندگی بسر کر رہی تھی کہ اچانک شاہ جہاں کی علالت نے ملک کی سیاسی صورت حال کو بدل کر رکھ دِیا۔ 16 ستمبر 1657ء کو شاہ جہاں حبس البول کے عارضہ میں مبتلاء ہوا۔ اِسی سبب پاؤں میں وَرم نے مرض کو بڑھا دِیا۔ علاج معالجہ جاری رہا مگر مرض جوں کا توں رہا۔ اطباء کے علاج سے 9 دن بعد شاہ جہاں نے بستر علالت سے دربار میں قصر شاہی کے جھروکہ سے درشن کروایا۔[64] شاہ جہاں کے ایام علالت کے دوران سیاسی حلقوں میں شہنشاہ کی تخت وسلطنت سے غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ شاہزادوں میں سیاسی مخالفت عروج پکڑگئی۔تقاضائے عقل تھا کہ دور علاقوں میں اَمن و اَمان برقرار رکھنے کے لیے ہر خبر درست پہنچتی لیکن دارا شکوہ نے ڈاک کی ترسیل منقطع کردی اور دوسرے شاہزادوں کے وکیلوں کو قید کروا دِیا۔ دارا شکوہ کی اِس حرکت سے ملک کا نظم و نسق تباہ ہو گیا اور فتنہ و فساد برپا ہوا۔ مفسدپردازوں نے غیر مصدقہ خبریں شاہزادوں کو بھیجنا شروع کر دیں اور اِنہی ایام میں شاہ جہاں نے امرا کو جمع کرکے دارا شکوہ کی ولی عہدی کا حلف لیا۔ دارا شکوہ کو اپنے بھائیوں سے بہترین سلوک کرنے کی ہدایت کی۔ اِسی ناگفتہ بہ حالات کے زمانے میں یہ خبرآئی کہ شہزادہ مراد بخش نے دیوان میر علی نقی کو بلا وجہ اور بے خطا قتل کر دیا اور گجرات میں اپنے نام کا سکہ مضروب کروا کر رائج کر دیا اور اپنے نام کا خطبہ جاری کر دیا۔ بنگال میں شاہ شجاع نے مقامی زمینداروں کی حمایت و مدد سے بادشاہی خزانے پر قبضہ کر لیا اور قابض بن بیٹھا اور جنگ پر مستعد ہو چکا ۔ شاہ جہاں نے اولاً شاہ شجاع کے معاملہ پر توجہ اور سلیمان شکوہ کی سربراہی میں دس ہزار پیادہ فوج مع بندوقچیاں دے کر شاہ شجاع کی سرکوبی کے لیے روانہ کر دیا۔ راجا جے سنگھ کو سلیمان شکوہ کا اتالیق مقرر کیا اور بے شمار خزانہ، جنگی ہاتھی اور نامی گرامی منصب دار ساتھ بھیجے۔ اِن ایام میں شاہ شجاع بنارس میں خیمہ زن تھا۔ راجا جے سنگھ نے ایسا انتظام کیا کہ کہ شاہی لشکر نے شاہ شجاع کو حکمت عملی کے ذریعے آلیا۔ سلیمان شکوہ غالب آگیا اور شاہ شجاع کے سپاہی بھاگ نکلے۔ سپاہیوں کی بھگدڑ سے شاہ شجاع خود میدان میں آیا تو فضا بدل چکی تھی۔ جان بچا کر کشتی میں سوار ہوکر پٹنہ کی طرف بھاگ نکلا۔ شاہ شجاع کی لشکرگاہ کو سلیمان شکوہ کے سپاہیوں نے لوٹ لیا اور شاہ شجاع پلٹتے ہوئے راج محل سے مونگیر کی دشوار گھاٹیوں میں پناہ گزیں ہوا۔ بعد ازاں معافی و خواستگاری کا طالب ہوا۔ شاہ جہاں نے شفقت پدری کے باعث اُس کی تقصیر معاف کی اور دوبارہ بنگال کی نظامت پر مقرر کر دیا۔ اِس واقعے کے بعد جب شاہ جہاں نے سیر کا ارادہ کیا تو دارا شکوہ نے کچھ ایسے کام کیے کہ جن سے رعایا پریشان ہوئی اور ملک میں فساد دوبارہ جنم لینے لگا۔ دارا شکوہ نے شاہ جہاں کے دِل میں یہ بات بٹھا دِی کہ شہزادہ مراد بخش سرکش ہو چکا ہے اور اُسے صوبہ احمد آباد یعنی گجرات کی صوبیداری سے معزول کرکے علاقہ برار کی جاگیر پر بھیج دیا جائے۔ نیزیہ شہزادہ اورنگزیب شہزادہ شاہ شجاع کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کمربستہ ہو چکا ہے اور اب شہزادہ مراد بخش کو کمک و رسد پہنچاتا ہے اور علاوہ اِس کے حضرت (یعنی شاہ جہاں) کی مزاج پرسی کا بہانہ کرکے اپنی ذاتی فوج کو لے کر دار السلطنت (دہلی) میں پہنچ کر فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتا ہے، اُس نے قطب الملک سے پیشکش کی کہ جو رقم وصول کی ہوئی ہے، وہ اُسے شہنشاہ کی اجازت کے بغیر فوج بھرتی کرنے میں صرف کررہا ہے۔ اِس لیے بہتر ہے کہ بیجاپور کی تسخیر کے لیے جو شاہی لشکر اُس کے تابع ہے، اُسے اور اُس لشکر میں تعینات امرا کو واپس بلوا لیا جائے اور اِس بات کی پیشکش کی کہ رقم دار السلطنت بھیجنے کا تقاضا بھرپور کیا جائے تاکہ اُس کی جاہ و حشمت میں فرق دیکھتے ہوئے امرا عالمگیر سے بدظن ہوجائیں۔ اگرچہ شاہ جہاں کو دارا شکوہ کی یہ باتیں پسند نہ آئیں اور وہ اِن باتوں کو خلاف ہوشمندی سمجھتا تھا۔ لیکن دارا شکوہ نے والد کو اِس قدر اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا کہ وہ فرمان بھیجنے پر آمادہ ہو گیا۔ اُن دِنوں میں عالمگیر بیجاپور کی مہم میں اُس شہر کا محاصرہ کیے ہوا تھا کہ شاہی قاصد فرمان لیے دہلی سے بیجاپور آپہنچے۔ شاہی امرا کا دِل بدظن ہو گیا اور بہت سے امرا بغیر اجازت کے آگرہ واپس چلے گئے۔[65]

سلطنت کی توسیع ترمیم

انتظامی کامیابیاں ترمیم

 
مراٹھی کمانڈر شاہ جی کی تصویر کشی۔

شاہجہاں ان فتوحات کو مکمل کرنا چاہتا تھا جو اس کے والد اور دادا نے دکن میں شروع کی تھیں، جن میں سے کچھ میں اس نے خود بھی جہانگیر کے دور میں حصہ لیا تھا۔ ایک وجہ تھی جس نے مغل سلطانوں کو دکن کے پورے ملک کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرنے پر اکسایا اور اسی وجہ سے اس نے 1600ء اور 1605ء کے درمیانی عرصے میں اس علاقے کو فتح کرنے کے لیے اپنی سب سے بڑی فوجی کوششیں مرکوز کیں اور وہ اس قابل ہو گیا کہ وہ خاندیش ایک بڑے حصے کو ضم کر سکے۔[66] جہانگیر نے اپنے والد کے طرز عمل کی پیروی کی اور ان کی پالیسی پر عمل کیا، لیکن اس نے عنبر حبشی کے بادشاہ میں ایک ٹھوس اور مضبوط دشمن پایا اور اسی وجہ سے دکن میں اس کی پالیسی کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ شاہجہان کو دکن میں فوجی کامیابی حاصل کرنے میں جس چیز نے مدد کی وہ یہ تھی کہ وہ اس ملک کے چھوٹے بڑے حالات سے بخوبی واقف تھا۔ جیسے ہی عنبر کا بادشاہ فوت ہو تو اس کے بعد کوئی ایسا قابل رہنما یا حکمران ظاہر نہیں ہوا جو مغلوں کا مقابلہ کر سکے۔[67]

 
مغلوں نے دولت آباد کی دیواروں کا محاصرہ کیا اور بمباری کی۔
 
مغلوں کو جگھر سنگھ اور اس کے بیٹے "بکرمگیت" کے سر "گونڈ" لوگوں کے رہنماؤں سے ملتے ہیں جنھوں نے سلطان کی فوج کے سامنے سے بھاگنے کے بعد انھیں قتل کر دیا۔

شاہجہاں اور مہابت خان کی روانگی کے بعد دکن میں مغل ریاست کی عملداری کمزور پڑ گئی اور عادل شاہی اور قطب شاہی ریاستوں کے حکمرانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس عرصے کے دوران، شاہی ریاست میں امور حکومت کو "شاہجی" نامی ایک مراٹھی رہنما کے ذریعے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اقدامات اس بات کی دلیل تھے کہ شاہجہان کو دکن پر حملہ کرنے کی ضرورت تھی، اس لیے اس نے پہلے دو ریاستوں کے مالکان عادل شاہی اور قطب شاہی کو بھیجا کہ وہ شاہ جی کو ٹیکس ادا کرنے سے باز رہیں اور اس کے اختیار کو تسلیم کریں، لیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مغلوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور وہ ریاست نظام شاہ کے صدر مقام دولت آباد پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کر لیا اور شہر ان کے ہاتھ آ گیا اور اس کا سلطان حسین بن برہان جس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کی قید میں آ گیا۔ مغلوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور شاہجی کی ریاست کے پورے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا۔ قطب شاہی عبد اللہ بن محمد نے دوبارہ مغلوں کی اطاعت کا اعلان کرنے میں پہل کی اور شاہجہان کے پاس اس عہد سے آیا کہ خلفائے راشدین ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی توہین کو روکنے کے لیے اس کی تابعداری کی جائے۔ دوسری طرف سلطان العدل شاہی نافرمان رہا، چنانچہ شاہجہان نے مارچ کیا اور اس کے دار الحکومت بیجفور کا محاصرہ کر لیا، لیکن قحط اور خشک سالی کی شدت نے اسے محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کر دیا اور 1040 ہجری میں اپنی سلطنت کے دار الحکومت آگرہ میں واپس آ گیا۔[68]

جھجھار سنگھ کی دوبارہ نافرمانی ترمیم

جھجھار سنگھ نے پانچ سال وفاداری کے ساتھ مغل سلطنت کی خدمت کی اور دولت آباد پر قبضہ کرنے اور نظام شاہی ریاست کو زیر کرنے میں سلطان شاہجہان کی مدد کی۔ لیکن 1044 ہجری بمطابق سن 1634ء میں اس نے گونڈوانا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاکہ 1038 ہجری میں مغلوں سے جو زمینیں اس نے 1629ء میں کھو دی تھیں اس کی تلافی کی جائے۔ جھجھار سنگھ نے شاہجہان کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور اپنی فوجوں کو طلب کیا، جو دکن میں مغل فوج کے ساتھ خدمات انجام دے رہے تھے، جس سے شاہجہان ناراض ہوا اور اس نے اس بغاوت کو دبانے کے لیے اپنے بیٹے اورنگزیب کو بھیجا۔ اورنگزیب نے جھجھار سنگھ کی طرف جو اُرگہ کے قصبے میں تھا کی طرف کوچ کیا اور اس پر حملہ کر دیا، ہندو باغی اس سے پہلے رامونی اور پھر شورغر کی طرف بھاگے اورنگزیب نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنے خاندان اور خزانے کے ساتھ دکن کی طرف واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ جواہر سنگھ نے مغل فوج کے ساتھ ایک مایوس کن جنگ لڑی اور اپنے بیٹے "بکرماگیٹ" کے ساتھ جنگلوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگ گیا، لیکن وہ "گونڈ" لوگوں کی مقامی آبادی کے ہاتھوں مارے گئے۔ سلطان نے اورشا کا قصبہ جواہر سنگھ کے بھائی ڈیوے سنگھ کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ اس کے نام پر حکومت کرے اور اس نے اس مہم میں مغلوں کی مدد کی تھی۔[69]

قندھار بحالی مہم ترمیم

 
صفویوں نے قندھار کی چابیاں منگول فوج کے سربراہ "کلیج خان" کے حوالے کر دیں۔

دکن کو فتح کرنے کے بعد، شاہجہان نے وسطی ایشیا میں پھیلنے اور ما ورا النہر ، خاص طور پر اس کا قصبہ ، سمرقند میں اپنے تیموری آبا و اجداد کا وطن، جسے ہندوستان کے مغل سلاطین میں سے کسی نے بھی جب بھی موقع ملا اسے بحال کرنے کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ تیموریوں کو شیبان ازبکوں کو اپنے ملک سے نکال دیا تھا۔ قندھار اور کابل کے شہر ہندوستان کے داخلی راستے جو جاتے تھے، اس لیے مغلوں کو ان دونوں گذر گاہوں کو اپنے ملک تک کنٹرول کرنے اور شمال سے آنے والے کسی بھی حملے سے بچانے کے لیے اس پر قبضہ کرنا پڑا۔

شاہجہان نے قندھار کو پر امن طریقے سے بحال کرنے کی کوشش کی، لہذا اس نے اس کے امیر، "علی مردان خان بن کنج علی الکردی" کو لکھا کہ وہ قبضہ کرے، لیکن اس کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ علی مردان نے صفوید شاہ ، صفی الدین سام بن محمد باقر کو خط لکھا، اس سے کہا کہ وہ اسے سپاہی اور سازوسامان فراہم کرے تاکہ وہ مغل افواج کو اپنی سر زمین سے پیچھے ہٹا سکیں۔ لیکن شاہ نے قندھار پر اپنے نائب کے عزائم پر سوال اٹھائے اور اس کی درخواست رد کر دیا اور اسے پکڑ کر دار الحکومت اصفہان بھیج دیا۔ اور جب علی مردان رہا ہوا اس نے فوری طور پر شاہجہان سے مدد طلب کی اور شاہجہان نے اپنی فوجیں شہر کی طرف بھیجنے میں جلدی کی اور 1638ء میں امن کے ساتھ اس شہر میں داخل ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں صفوید شاہ کی فوجوں کو اس سے دور دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور علی مردان نے مغلوں سے پناہ کی درخواست کی اور دہلی شہر میں پناہ مانگی تو شاہجہان نے اس کا استقبال کیا۔[70][71]

بلخ اور بدخشاں کا الحاق ترمیم

 
عبد العزیز خان بن نذر محمد خان، بلخ اور بدخشاں کے خلاف منگول مہم کے دوران ازبک فوجوں کا کمانڈر۔

قندھار کے بعد، شاہجہان نے بخارا کے خانات میں ہونے والے خاندانی تنازع کی وجہ سے ازبکوں سے بلخ اور بدخشاں کی طرف توجہ مبذول کی۔ چنانچہ شاہجہان نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلخ میں مداخلت کی اور پچاس ہزار گھڑ سواروں اور دس ہزار پیادوں پر مشتمل ایک بڑی فوج اس کے بیٹے شہزادہ مراد اور کمانڈر علی مروان کی قیادت میں روانہ کی، چنانچہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے 17 جمادی الاول 1056 ہجری کو بلخ میں داخل ہو گئے اور 26 جولائی 1646ء کو واپس روانہ ہوئے۔ مغلوں نے اس شہر میں زیادہ دیر قیام نہیں کیا، کیونکہ شہزادہ مراد جو تفریح اور اسراف کی زندگی کا عادی تھا، بنجر پہاڑیوں والے اس ملک میں رہنا پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے اپنے والد سے ہندوستان واپس جانے کی اجازت طلب کی، تو شاہجہان نے اسے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔[72]

 
منگول فوج کے کمانڈر شہزادہ اورنگزیب کو بلخ اور بدخشان کی بازیابی کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس عرصے کے دوران، شہزادہ اورنگزیب نے اپنے والد کی طرف سے اس ملک پر آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد، دار الحکومت آگرہ واپس آنے کے لیے دکن چھوڑ دیا تھا۔ اس کی واپسی کی وجہ یہ تھی کہ اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کا بڑا بھائی داراشکوہ شاہجہان کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور ریاست کے معاملات اس کے مشورے کے بغیر نہیں چلائے جا سکتے تھے، اس کا مطلب ایک ممکنہ ولی عہد کے طور پر اس کی حیثیت کو خطرہ تھا۔ وہ فوری طور پر دار الحکومت واپس آیا۔ [73]وہ اپنی بہن جہانارا کی صحت کے بارے میں فکر مند تھا۔ شاہجہان ، اورنگزیب سے خوش ہوا اور اسے بلخ اور بدخشاں بھیجا تاکہ وہ کابل پر دوبارہ قبضہ حاصل کر سکے اور وہ وہاں سے براہ راست کابل پر قبضہ کر لے۔ اورنگ زیب، ازبکوں پر شدید ضربیں لگانے کے بعد بلخ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا، لیکن وہ وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرا اور کئی عوامل کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گیا۔[74]

  • ازبکوں نے ایک لاکھ جنگجوؤں کی ایک بڑی فوج کو متحرک کیا اور مغلوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے شہر پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اور اورنگزیب کے ساتھ باقی ماندہ سپاہیوں کی تعداد تقریباً پچیس ہزار تھی، جس سے ازبکوں کے حق میں دونوں جماعتوں کے درمیان فوجی توازن ختم ہو گیا۔
  • مغل فوج کے رہنماؤں اور شہزادوں کی سخت اور خشک براعظمی آب و ہوا کو اپنانے میں ناکامی ہوئی۔
  • مغلوں کے ساتھ تصادم کے دوران، ازبکوں نے کازاک فوجی فن کا استعمال کیا جس سے مغلوں کو واقفیت نہیں تھی، جس نے انھیں الجھا دیا اور ان کے فوجی منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

اورنگ زیب بلخ کے تخت پر بیٹھا اور اپنے والد شاہجہان کے نام پر ملک پر حکومت کرنے کے لیے اور ہندوستان واپس آنے میں جلدی کی۔ شاہجہاں کا خیال تھا کہ بخارا کو محمد خان کے حوالے کر دیا جائے، اس شرط پر کہ وہ اس کی سلطنت کو تسلیم کرے اور مغلوں کے نام سے حکومت کرے اور کافی دیر تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد، دونوں فریقین نے 23 شعبان 1057ھ بمطابق 23 ستمبر 1647ء کو صلح کی شرائط پر اتفاق کیا۔ منگولوں کے بخارا اور بلخ کے حوالے کرنے کے بعد وہ ہندوستان واپس آگئے۔[75]

قندھار کا نقصان اور اس کی تلافی کی کوشش ترمیم

 
قندھار کی ایک تصویر، مغلوں اور صفویوں کے درمیان جھگڑے کی جگہ۔

صفویوں سے قندھار کے نقصان پر شاہ صفی الدین خاموش نہیں رہے اور وہ اسے مغلوں سے چھڑانے کی تیاری کر رہے تھے، لیکن ان کی وفات 12 صفر 1052 ہجری بمطابق 11 مئی 1642ء کو شہر کاشان میں ہوئی اور اس کے بعد ان کے بیٹے عباس دوم آف فارس کی جانشینی ہوئی۔ اور جب مغل فوجیں بدخشاں سے واپس آئیں، تو شاہ عباس نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے جلدی کی اور تیاری شروع کر دی، پھر اس نے 1649ء کے موسم سرما میں 1059 ہجری میں اپنی سلطنت کا دار الحکومت چھوڑا اور قندھار کی طرف روانہ ہو گئے۔

 
شہزادہ داراشکوہ ہاتھی پر سوار ہو کر اپنی فوج کے ساتھ سلطان شاہجہان کے دور میں تیسری اور آخری بار قندھار کے محاصرے کی طرف روانہ ہوا۔

شاہجہان نے صفویوں کے ہاتھوں قندھار کے زوال کو مغل ریاست کے وقار کے لیے دھچکا سمجھا۔ اس لیے اس نے ساٹھ ہزار گھڑ سواروں اور دس ہزار پیادوں کی ایک فوج اورنگزیب کی قیادت میں قندھار بھیجی۔ اورنگ زیب نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور تین ماہ اور بیس دن کے محاصرے کے بعد، اورنگزیب کو شاہجہان کی طرف سے حکم ملا کہ وہ محاصرہ اٹھا لے اور موسم سرما کے قریب آنے کی وجہ سے آگرہ واپس چلا جائے۔ قندھار کے محاصرے نے مغلوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، شاہجہان کو خدشہ تھا کہ اس سے صوبوں کے حکمران مغلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، اس لیے اس نے جلدی سے قندھار کی طرف دوسری مہم بھیجی جس میں پچاس ہزار سوار اور دس ہزار پیدل سپاہی تھے اور اس کی قیادت اورنگزیب اور اس کے ساتھی سعد اللہ خان اور رستم خان جیسے عظیم رہنما نے کی۔ مغل فوج نے 23 جمادی الاول 1062 ہجری کو 2 مئی [[1652ء] کو شہر کا محاصرہ کیا اور یہ دو ماہ اور آٹھ دن تک جاری رہا اور مغل اس حملہ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور مغل افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جس کی وجہ سے شاہجہان کو محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

1063 ہجری بمطابق 1653ء میں سلطان نے تیسری مہم اپنے بیٹے داراشکوہ کی قیادت میں قندھار کی طرف روانہ کی۔ اس میں ستر ہزار نائٹ، پانچ ہزار پیدل، دس ہزار سپاہیوں پر مشتمل توپ خانہ، خندق کھودنے کے لیے چھ ہزار، پتھر کاٹنے کے لیے پانچ سو سپاہی اور اسے بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیا۔ اس بڑی فوجی قوت نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور داراشکوہ کو امید تھی کہ یہ کچھ ہی عرصے میں گر جائے گا، لیکن یہ مہم شہر پر حملہ کرنے میں ناکام رہی اور صفوی افواج نے مغل افواج پر اپنی فوجی برتری ثابت کر دی۔ داراشکوہ کو سات ماہ بعد محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا گیا اور وہ جہاں سے آیا تھا وہاں سے واپس لوٹ گیا۔ اس طرح قندھار کی بحالی کے لیے مغل ریاست کی کوششیں بے سود رہیں اور یہ ناکام مہمات شاہجہان کے قندھار کی بحالی کے خیال کو حتمی طور پر ترک کرنے کا باعث بنیں۔[76]

معزولی ترمیم

اورنگ زیب نے جنگِ تخت نشینی کے دوران باقاعدہ اعلان جاری کیا تھا کہ اُس کی لڑائی صرف دارا شکوہ سے ہے اور باپ سے اُسے کوئی پرخاش نہیں۔ لیکن اورنگ زیب کی تخت نشینی سے لے کر 1666ء تک شاہجہاں قلعہ آگرہ میں قیام پزیر رہا۔

 
تاج محل کی نچلی سطح میں ممتاز محل اور شاہ جہاں کے اصل مقبرے۔

ملا محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہاں نامہ میں شاہ جہاں کے سالِ تخت نشینی کے بعد اُس کے روزمرہ کے معمولات اور روزانہ کے اوقات پر مفصل بیان لکھا ہے کہ:

شاہ جہاں طلوع آفتاب سے دو گھنٹے قبل بیدار ہوتا، خود وضو کرکے خلوت گاہ سے متصل مسجد میں فجر کی نمازِ سنت اور پھر نماز فرض اداء کرتا۔ اِس کے بعد دعائیں اور وظائف اداء کرتا اور اِس تسبیح خوانی سے فراغت کے بعد حرم سرا میں آجاتا تھا۔ طلوع آفتاب کے وقت دریائے جمنا کے رُخ مشرقی دریچے میں، جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو درشن دیتا تھا۔ اُس وقت ہر شخص کورنش بجا لاتا اور ہر مظلوم کو بلا روک ٹوک کے شہنشاہ سے عرض کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ جھروکے سے اُٹھ کر دربارِ خاص و عام میں آجاتا اور اِس ایوان کے دروازوں پر ہیبت ناک داروغے پہرے پر موجود ہوتے تھے جو بغیر کسی اجازت کے کسی فرد کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ اِس ایوان میں وزراء مختلف ملکی و مالی مہمات انجام دینے والے اشخاص جمع ہوتے تھے اور معاملاتِ حکومت شہنشاہ کے گوش گزار کرتے تھے۔ فوج کے امرا یہاں اپنے ماتحتوں کو ترقی دِلانے کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد صوبیداروں کی درخواستیں دیکھنا ہوتی تھیں اور اِن درخواستوں پر مہر ثبت کرنا ہوتی تھی۔ اِس ایوان میں پانچ گھڑی قیام کے بعد اُٹھ کر نشیمن (غسل خانے) چلا جاتا جہاں مقربوں یا امرا کے سوا کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں دیوانِ مالِ خالصہ محالات کے آمد و خرچ کی تفصیل اور جاگیرداروں کی تنخواہ کا حساب شہنشاہ کو پیش کیا جاتا تھا۔ اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد جواہرات دیکھنے، گانا سننے یا تعمیرات کے متعلق احکامات جاری کرنے میں وقت بسر ہوتا تھا۔ اِس کے بعد شاہ جہاں شاہ برج میں چلا جاتا جہاں نشست محض چار یا پانچ گھڑی ہوتی تھی۔ شاہ برج میں شاہزادے یا وزیر اعظم ہی ملاقات کرسکتا تھا۔ دوپہر بارہ بجے محل سرا میں آتا اور کھانا تناول کرنے کے بعد قیلولہ اور قیلولہ کے بعد نمازِ ظہر کی ادائیگی ہوتی تھی۔ ظہر کے بعد ملکہ ممتاز محل کے ذریعے سے بیوہ اور بے سہارا خواتین کی امداد کرنا ہوتی تھی کہ انھیں نقد و جنس یا اراضی عطا کی جائے۔ نمازِ عصر کے بعد نشیمن جانا ہوتا تھا اور نمازِ مغرب سے چار گھڑی بعد تک اُمور دین و دنیا میں وقت صرف ہوتا تھا۔ اِسی نشست میں کبھی کبھار شہنشاہ ہندی موسیقاروں سے راگ بھی سن لیا کرتا تھا۔ اِس نشست کے بعد نمازِ عشا کی ادائیگی اور اُس کے بعد محل سرائے شاہی میں چلے جانا معمول تھا۔ شب کے وقت پردے کے پیچھے سے اشخاص خواب گاہ میں شخصیات کی سوانح عمریاں، واقعات تاریخ اور زمانہ ٔ ماضی کے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ لباس ہمیشہ معطر رہتا تھا اور نشست بخور یا روح افزا عطریات سے معطر رہتی تھی۔[77]

آخری ایام اور وفات ترمیم

 
شاہ جہاں کا انتقال

ملا صالح کمبوہ نے شہنشاہ شاہ جہاں کے اُن اواخر ایام کا تذکرہ "عمل صالح میں کیا ہے جو شاہ جہاں نے سنہ 1658ء سے 1666ء تک آگرہ کے قلعہ میں نظر بندی کی مدت میں گزارے۔ " شاہ جہاں قلعہ آگرہ میں نظر بند تھے، اِس کے باوجود اُن کے فیض و کرم کا دروازہ کھلا رہا۔ ضرورت مند ہمیشہ اُن تک پہنچ کر اُن کے جود و اِحسان سے فیض یاب ہوئے۔ سید محمد قنوجی سال 32 جلوس کے آغاز سے ہی ہمیشہ شاہ جہاں کی مجلسِ خاصہ میں حاضر رہتا، قرآن کریم کے نکتے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے حاضرین کو مستفید کیا کرتا۔ اِس مدت میں شاہ جہاں صبر و قناعت کے ساتھ قلعہ آگرہ میں گوشہ نشیں تھے۔ دِن رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرض و سنت نمازیں ادا کرنے، کلام اللہ کی تلاوت و کتابت میں بسر ہوتا۔ بزرگوں کے اقوال اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کرتے تھے، فیض و بخشش اور سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ [78]

ممتاز محل کی سب سے بڑی زندہ بیٹی جہاں آرا بیگم صاحب نے رضاکارانہ طور پر ان کی 8 سالہ قید گزاری اور ان کی دیکھ بھال کی۔ جنوری 1666ء میں شاہ جہاں بیمار پڑ گیا۔ بستر تک محدود رہنے کے بعد، وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتے گئے، یہاں تک کہ 30 جنوری کو، انھوں نے شاہی دربار کی خواتین، خاص طور پر اکبر آبادی محل کے بعد کے سالوں کی بیوی کو جہاں آرا بیگم کی دیکھ بھال کے لیے سراہا۔ کلمہ اور قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے بعد شاہ جہاں 74 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ شاہ جہاں کے پادری سید محمد قنوجی اور آگرہ کے قاضی قربان قلعے میں آئے، ان کی لاش کو قریبی ہال میں منتقل کیا، اسے دھویا، اسے ڈھانپا اور اسے چندن کے تابوت میں ڈال دیا۔ جہاں آرا بیگم نے ایک سرکاری جنازے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں شاہ جہاں کی لاش کے ساتھ ایک جلوس بھی شامل تھا جس کے بعد آگرہ کے قابل ذکر شہری اور عہدیدار غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے سکے بکھیر رہے تھے۔ اورنگزیب نے اس طرح کی تضحیک کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لاش کو تاج محل لے جایا گیا اور وہاں ان کی محبوب اہلیہ ممتاز محل کی لاش کے بغل میں سپرد خاک کیا گیا۔[79][80][81]

شاہجہاں کے کارنامے ترمیم

عدل اور انصاف ترمیم

شاہجہاں ایک قابل حکمران تھا، اس کے دور میں مغلیہ ریاست اپنے عروج پر پہنچی اور اس کی حیثیت اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف لوگوں کی نظروں میں بلند ہوئی، اس نے حکومتی امور کو منظم کرنے میں اپنے والد جہانگیر اور دادا اکبر کے طریقے پر عمل کیا۔انصاف کے حصول میں ناکام رہنے والے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والے غفلت کا باعث بنے۔ اور اگر یہ سلطان تاجروں پر نئے ٹیکس لگانے اور ان فیسوں کو دوبارہ عائد کرنے گیا جو ہندوؤں کو ان کے مقدس مقامات کی زیارت کے وقت ادا کرنے کا پابند تھا، تو اس نے اپنی رعایا کو اسی طرح دیکھا جیسے اس نے اپنے بچوں کو دیکھا۔ ان کے لیے ان کی شفقت اور ہمدردی اور ان کی دیکھ بھال ان کے دورِ حکومت کے آغاز میں ملک پر پڑنے والی خشک سالی اور قحط کو دور کرنے کے لیے کی جانے والی بہت سی کوششوں سے عیاں تھی اور اس کے کارناموں میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس نے اپنے کارکنوں کو حکم دیا کہ وہ ان بچوں کو خرید لیں جن کے والدین انھیں غربت کی وجہ سے بیچنے کے لیے پیش کر رہے تھے، بعد میں انھیں واپس کر دیں۔ شاہجہان اپنی سخاوت اور تحائف کی کثرت کے لیے بھی مشہور تھا اور اسے بادشاہی کی وہ دولت، استحکام اور وسعت دی گئی جو دوسرے سلطانوں کو میسر نہیں تھی، اس لیے مورخین نے اسے "خوش قسمت بادشاہ" کہا۔[82]

علم اور ثقافت ترمیم

 
امریکی مصور ایڈون لارڈ ویکس کی ایک خیالی پینٹنگ جس میں شاہجہان کے جلوس کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد دہلی کی گرینڈ مسجد سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

شاہجہان علوم وفنون کا دلدادہ تھا، تصنیف کی حوصلہ افزائی کرتا تھا اور مؤرخین کا ذکر ہے کہ عالم عبد الحکیم السیالکوٹی نے ان کے حکم پر بہت سی کتابیں لکھیں اور وہ اسے ایک لاکھ روپے دیتے تھے اور اسے اپنی مجلس میں شامل کرتے تھے اور اسے ایسی جائدادیں عطا کی تھیں جو اس کے رہنے کے لیے کافی تھیں۔ شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں اردو زبان کو ملک کی سرکاری زبان بنایا اور مختلف ذرائع سے اس کو پھیلانے کے لیے کام کیا، یہاں تک کہ اس نے مردوں کے لیے ایک بازار اور عورتوں کے لیے ایک بازار قائم کیا اور اسے فروغ پانے اور پھلنے پھولنے کے لیے اردو میں بولنے اور بولنے پر مجبور کیا۔ وہ خود عربی ، فارسی اور ترکی کے ماہر لسانیات تھے۔[83][84]

مذہبی رجحانات ترمیم

شاہجہان ایک قدامت پسند روحانی رجحان کا حامل تھا، وہ دیندار اور اسلام کی رسومات اور اہل سنت عقیدہ کا پابند تھا، وہ علما کے لیے بہت فیاض تھا یہاں تک کہ وہ ہر طرف سے علما اس کے پاس آتے تھے۔ اس کے باپ دادا کے ایجادکردہ مذہب میں یہ بھی شامل تھا سلام کے لیے جھکا جائے اور زمین کو چومنے جائے ۔ اس رسم کو شاہجہاں نے منسوخ کر دیا اور یہ سلام اس لیے واجب ہوا کہ جہانگیر نے ہندوستان کے ممتاز عالم امام احمد السہندی کو اس لیے قید کر دیا کہ اس نے ان کو سجدہ نہیں کیا۔[85]

انتظامی کامیابیاں ترمیم

 
جگر قلعہ میں توپ خانہ
 
شاہجہاں نے اپنے دربار میں تقریباً 1657ء کا عرصہ گزارا۔

شاہجہان کے دور حکومت میں منگول ریاست کی فوجیں، خاص طور پر 1648ء میں، 911,400 پیادہ، رائفل مین اور توپ خانے کے سپاہیوں اور 185,000 گھڑ سواروں تک پہنچیں، جن کی قیادت ملک کے شہزادے اور امرا کر رہے تھے۔ کچھ معاصر مورخین انتظامی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر اس سلطان کی کامیابیوں کو " تیموری نشاۃ ثانیہ " کی ایک شکل سمجھتے ہیں جس کا آغاز وسطی ایشیا میں اس شاہی خاندان کے آبا و اجداد تیمرلین سے ہوا تھا۔ اور یہ کہ شاہجہاں نے اپنے آبا و اجداد کی سرزمین کے خلاف اپنی فوجی مہمات کے ساتھ اس خطے کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات کو از سر نو استوار کیا اور یہ اس کی میراث میں شامل ہو گیا، جو ہندوستان کے تمام مغل سلاطین میں بنیادی طور پر ممتاز تھا۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں گھوڑوں کے پالنے والوں نے انتخابی ملاوٹ کے ذریعے گھوڑوں کی ایک نئی نسل تیار کی، جسے "مرواوی" گھوڑوں کے نام سے جانا جاتا ہے، جو راجستھان کے "مرواوی" علاقے کی نسبت سے ہے، جس میں اس کی جڑیں تھیں۔سلطان نے اسے اپنی فوجوں میں استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور شاہجہان نے فوجی صنعت کی دیکھ بھال کی، اس لیے وہ بڑے پیمانے پر توپیں پھینکنے اور اپنی فوج کو یہ ہتھیار فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا، جو اس کے زمانے میں جدید فوجوں کا سب سے نمایاں ہتھیار بن گیا تھا اور "جیگڑھ" کا قلعہ ہندوستانی سرزمین پر توپیں پھینکنے کے لیے سب سے نمایاں کردار تھا اور اس کے مطابق ریاست کے چند بڑے لیڈروں نے اپنی فوج کو چار مشینوں میں تبدیل کر دیا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ جہاں کیر کے زمانے میں تھا۔ اگرچہ اس سے ریاست پر مالی بوجھ میں اضافہ ہوا، لیکن یہ حالات شاہجہان کے پورے دور حکومت میں مستحکم رہے جس کی بدولت مرکزی انتظامی نظام اس سلطان نے اپنایا۔[86]

منگول سلطانوں کو ان کی ریاست کے گرین ہاؤسز میں کیا ہو رہا ہے اس سے آگاہ کرنے کی ضرورت نے ڈاک کے امور کی تنظیم کو فروغ دیا۔ ہر سمت تیزی سے اور باقاعدگی سے حرکت کرنے کے لیے اور یہ اب بھی کئی سمتوں میں چلتا ہے، اس لیے کوریئرز عوامی سڑکوں میں فاصلے اور فاصلے کے درمیان پیدل ہی اپنا کام بدلتے تھے اور رات کو نظر آنے والے سڑکوں کے اطراف سفید پتھر کھڑے کیے جاتے تھے تاکہ کورئیر والوں کو گمراہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ فرانسیسی سیاح Tavernier کا بیان ہے کہ شاہجہاں کے دور میں ہندوستان کی سڑکیں فرانس اور اٹلی کی سڑکوں سے بہتر تھیں۔ اور سپاہیوں کے محافظ سیاحوں کو روکتے تھے، اس لیے وہ بڑے شہروں میں رہنے والے اپنے لیڈروں کے لیے ان کے ساتھ آنے والوں کے لیے ہر چیز کے ذمہ دار تھے، اس لیے اگر وہ کسی سیاح کی دیکھ بھال کرنے میں ناکام رہے یا اس کا دفاع کرنے میں اچھے نہ تھے، تو وہ اپنی پنشن سے محروم ہوجائیں گے۔ شمالی ہندوستان میں اچھی سڑکیں اور آسان آمدورفت تھی اور ریاست کے صدر مقام سے بہت دور، متضاد دکن کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ شاہجہاں کے دور میں زمینوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا تھا: پہلی قسم میں وہ زمینیں شامل تھیں جو سلطان نے فوجی کمانڈروں کو اس شرط پر تفویض کی تھیں کہ وہ اپنی بٹالین پر خرچ کریں اور ہر سال خزانے کو ایک خاص رقم ادا کریں اور دوسری قسم میں وہ زمینیں شامل تھیں جو سالانہ الاؤنس دینے کے پابند تھے۔ اور چونکہ ان پیروکاروں کا ان کسانوں اور کسانوں پر مکمل اختیار تھا جنھوں نے ان کی باگ ڈور پر قبضہ کر لیا تھا، اس لیے وہ اکثر ان کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے اور ان میں بدحالی اور غربت پھیل جاتی تھی۔ فرانسیسی سیاح "فرانسس پرنیٹ" - جو شاہجہاں کے دور میں بارہ سال دہلی میں مقیم رہا - نے صوبیداروں کی ناانصافیوں، ان کی رشوت ستانی اور بدعنوانی اور کتنے رعایا اپنے والد جہانگیر کے قائم کردہ گھنٹیوں کی زنجیر کے ذریعے اپنے سلطان سے شکایت کرنے کے قابل نہیں تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ جو بھی ایسا کرے گا اس پر ظلم کیا جائے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ شاہجہاں جن انسپکٹرز کو شہروں میں اپنے کارکنوں کی جانچ پڑتال کے لیے بھیجتا تھا وہ اکثر ان کارکنوں سے رشوت لینے کے نتیجے میں غلط خبریں لے کر اس کے پاس واپس آ جاتے تھے، حالانکہ شاہجہان اپنی بصیرت کے ساتھ اس خبر کی سچائی یا جھوٹی حد سے واقف تھا، اس لیے وہ اپنے گورنروں کو تبدیل کرنے میں جلدی کرتا تھا، اگر وہ اپنے حکمرانوں کو تبدیل کر دیتا، اگر وہ اپنے حکمرانوں یا پریکٹس میں ناکام ہو جاتا۔ ان سے ان کی خیانت اور نافرمانی کے امکان کے اشارے نکلے۔[86]

سائنس اور آرٹس ترمیم

شاہجہاں کے دور میں علمی و ادبی تحریک جاری رہی اور عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں بہت سی کتابیں اور مضامین شائع ہوئے، مثال کے طور پر عنایت خان کی کتاب "شاہجہاں" اور مؤرخ عبد الحمید لاہوری کی تحریر کردہ "پادشاہنامہ"۔ جلد کو شاہجہان کے دور میں انجام پانے والے سب سے اہم نسخوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلطان کی سرکاری اور فوجی تاریخ سے متعلق ہے۔ یہ ایک جلد پر مشتمل ہے جس میں 99 تصاویر ہیں۔ دیگر کتب جو تقابلی تصوف کے موضوع سے متعلق ہیں ان میں شہزادہ داراشکوہ کی کتابیں "بحرین کمپلیکس" اور "صفینات الاولیاء" شامل ہیں۔ ملک گجرات ایران اور جزیرہ نما عرب سے متصل ساحلی مقام کی وجہ سے بہت سے علما کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہا اور یہ خاص طور پر علم حدیث کے لیے مشہور تھا۔[87]

خزانہ ترمیم

 
لال قلعہ کے دیوان میں مور کا تخت۔

اس کے دورِ حکومت کے آغاز میں ملک میں قحط اور خشک سالی کے باوجود اور کچھ ذیلی اور تاریک سیاست دانوں کے نتیجے میں رعایا کو جو تکلیف پہنچ رہی تھی، اس کے باوجود شاہجہان کی حکومت کا کل دور اس بات پر متفق ہے کہ یہ خوش حالی، دولت، استحکام اور خوش حالی کا دور تھا جس کا مشاہدہ ہندوستان نے پہلے نہیں کیا تھا۔ ہندوستانی مورخ سید ہاشمی نے ذکر کیا ہے کہ اس دور میں ریاستی بجٹ اس حد تک پہنچ گیا جو اس سے پہلے یا بعد میں نہیں پہنچا تھا، یہاں تک کہ جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا اور ان کی حکمرانی شاہجہاں سے زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ 27 کروڑ روپے یا 270 ملین روپے، کابل اور قندھار سے اکٹھے کیے گئے ٹیکس کے علاوہ لینڈ ٹیکس سے جمع ہوئے۔ ہاشمی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ رقم سلطان کے پاس بغیر کسی دباؤ اور ناانصافی کے آتی تھی اور انگریز بعد میں بہت سی زیادتیوں کے باوجود لوگوں سے اتنی ہی رقم وصول کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے دور حکومت میں لوگوں نے اچھی زندگی گزاری، سلطان کی ہمدردی اور انصاف سے لطف اندوز ہوئے۔ اس کے زمانے میں زراعت اور صنعت بہت خوش حال تھی، یہاں تک کہ منگول ریاست نے اپنے اچھے ٹیکسٹائل کی بڑی مقدار یورپ کو برآمد کی۔ برطانوی ماہر معاشیات انگس میڈیسن نے اندازہ لگایا کہ عالمی جی ڈی پی میں مغل ہندوستان کا حصہ 1600 AD میں 22.7% سے بڑھ کر 1700 AD میں 24.4% ہو گیا، اس میں چین کو پیچھے چھوڑ کر اس وقت دنیا کا امیر ترین ملک بن گیا۔ پاشا شاہجہان، جس نے اسے شان و شوکت کی ذمہ داری سونپی تھی، اپنا عالیشان تخت بنانے کی شان تک پہنچ گیا، " میور کا تخت کہا جاتا ہے، جو نایاب جواہرات کے ڈھیروں سے جڑا ہوا تھا، جس میں " کوہ نور " کے نام سے مشہور ہیرا بھی شامل تھا۔ اس میں ہیرے، نیلم اور زمرد اور زیورات اور یاقوت سے ڈھکی تین سیڑھیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ اس تخت کو بنانے میں سات سال لگے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور اس تمام اسراف کے باوجود 24 کروڑ روپے یا 240 ملین روپے شاہجہان کی موت کے بعد اس کے خزانے میں ملے اور اس نے جو سونا، چاندی اور جواہرات چھوڑے ان کی مالیت 15 کروڑ روپے یا 150 ملین روپے تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی رعایا پر ٹیکس وصول کرنے یا اس میں اضافہ کرنے کا حکم نہیں تھا۔ بہت سے اخراجات وہ خرچ کرتا ہے، یہ اسے خوش قسمت بادشاہ کہنے کی ایک اور وجہ تھی۔ جب شاہ نادر قلی الافشاری نے سنہ 1151 ہجری بمطابق 1739 ء میں ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے اس تخت کو اپنے ساتھ لے کر ایران کے حکمرانوں کو اس کے جواہرات سے مالا مال کر دیا اور شاہ فتح علی بن حسین القجاری نے کے بعد اس کے ملبے سے مستفید ہوئے اور اس کے لیے ایک نیا نام قائم کیا۔[88][89]

امورخارجہ ترمیم

صفویوں کے ساتھ شاہجہان کے تعلقات خراب تھے، ان کے والد اور دادا کے تعلقات کے برعکس اور قندھار کے ارد گرد جنگ کی وجہ سے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے بگڑ گیا۔ جہاں تک عثمانیوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا تعلق ہے، یہ اچھا اور دوستانہ تھا۔ جب سلطان مراد چہارم نے عثمانی اور صفوی ریاستوں کے درمیان باہمی جنگ کے دوران صفویوں سے بغداد شہر دوبارہ حاصل کیا تو شاہجہان نے اس کے لیے دو سفیر میر ظریف اور میر برقہ بھیجے۔ سلطان نے انھیں عزت کے ساتھ واپس بھیجا اور ان کے پاس جدید ہتھیاروں کے بہت سے تحفے، عالیشان کاٹھی اور قافیے لے کر ان کی حفاظت کے لیے اپنے سپاہیوں کے ساتھ بصرہ کی بندرگاہ کی طرف مارچ کیا اور وہاں سے طہتہ اور پھر سورت کی طرف روانہ ہوئے۔ واضح رہے کہ شاہجہان عثمانی سلطان کو، جو مسلمانوں کا خلیفہ ہے، ان کی اور اس کی روحانی اور دنیاوی قیادت کی تعریف میں تسبیح اور سربلندی کے بہت سے القابات سے خطاب کیا کرتا تھا، جن میں: "قیصروں کا فخر،" "حملہ آوروں اور مجاہدین کا رہنما،" اور " دو محافظین

طرز تعمیرات میں نمایاں خدمات ترمیم

 
شاہ جہاں کی شاہی مہریں
 
تاج محل ، شاہ جہاں اور اس کی بیوی ممتاز محل کی تدفین کی جگہ

شاہ جہاں نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کردہ ڈھانچوں کی ایک عظیم وراثت چھوڑی۔ وہ مغل فن تعمیر کے سب سے بڑے سرپرستوں میں سے ایک تھے۔[90]  کے دور حکومت نے مغل فن تعمیر کے سنہری دور کا آغاز کیا۔[91]  کی سب سے مشہور عمارت تاج محل تھی ، جسے انھوں نے اپنی بیوی ملکہ ممتاز محل سے محبت میں تعمیر کیا تھا۔ ممتاز محل کے ساتھ ان کے تعلقات کو ہندوستانی آرٹ، ادب اور سنیما میں بہت زیادہ ڈھال لیا گیا ہے۔ شاہ جہاں ذاتی طور پر شاہی خزانے اور کوہ نور جیسے کئی قیمتی پتھروں کے مالک تھے۔

اس کا ڈھانچہ بڑی احتیاط سے تیار کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے معماروں کو بلایا گیا تھا۔ عمارت کو مکمل ہونے میں بیس سال لگے اور اسے اینٹوں سے بنے سفید سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اورنگزیب نے انھیں ممتاز محل کے بغل میں دفن کیا۔ ان کی دیگر تعمیرات میں لال قلعہ جسے دہلی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، آگرہ کے قلعے کے بڑے حصے، جامع مسجد، وزیر خان مسجد، موتی مسجد، شالیمار باغ، لاہور قلعہ کے حصے، پشاور میں مہابت خان مسجد، حستسال میں منی قطب مینار  ہیں۔[92]جہانگیر کا مقبرہ - ان کے والد کا مقبرہ ، جس کی تعمیر کی نگرانی ان کی سوتیلی ماں نور جہاں اور شاہ جہاں مسجد نے کی تھی۔ اس کے پاس تخت تخت طاؤس بھی تھا جو اس کی حکمرانی کا جشن منانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ شاہ جہاں نے اپنے فن تعمیر کے شاہکاروں پر قرآن کی گہری آیات بھی رکھی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں شاہجہاں مسجد، ٹھٹہ (کراچی سے 100 کلومیٹر / 60 میل) شاہ جہاں کے دور حکومت میں 1647ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے جس میں نیلے رنگ کی چمک والی ٹائلیں ہیں جو شاید سندھ کے کسی اور قصبے ہالا سے درآمد کی گئی ہیں۔ مسجد میں مجموعی طور پر 93 گنبد ہیں اور یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں اتنے گنبد ہیں۔ یہ صوتیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ گنبد کے ایک سرے کے اندر بولنے والے شخص کو دوسرے سرے پر اس وقت سنا جا سکتا ہے جب تقریر 100 ڈیسیبل سے زیادہ ہو۔ یہ 1993ء سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔[93]

لال قلعہ دہلی ترمیم

دہلی کا لال قلعہ اورجامع مسجد بہترین طرز و تعمیر کا نمونہ ہے۔ لال قلعہ شاہجہان کی طرف سے 1047 ہجری میں دریائے جمنا کے کنارے اپنی رہائش کے لیے سنہ 1637 عیسوی کی مناسبت سے تعمیر کی گئی ایک عالیشان عمارت ہے اور اس کی دیوار سرخ پتھروں سے بنائی گئی تھی اور اس میں اس کے فوجیوں، اس کی رہائش گاہ، اس کی عوامی کونسل اور خواتین کے لیے متعدد حصے شامل تھے۔ وہ اس میں آباد ہوا اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک مسجد ہے جو تعمیر کی دنیا میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے اور اسے پرل مسجد ( اردو میں : موتی مسجد ) کہا جاتا ہے اور یہ خالص سفید سنگ مرمر سے بنی ہے۔

جامع مسجد دہلی ترمیم

جہاں تک دہلی کی مسجد کا تعلق ہے تو یہ ہندوستان میں سلطان کی تعمیر کردہ سب سے پرتعیش مسجد ہے، جس کی تمام بنیادیں زمین کو اٹھانے پر ہیں اور اس کے ایک بڑے حصے میں کھلی ہوئی بھی ہے اور اس کے درمیان میں وضو کا ایک بڑا حوض ہے اور اس کا مغربی حصہ چھت والا ہے، بڑے بڑے ستونوں پر مبنی ہے، اس کی زمین اس کی روشن ترین اور سفید ترین دیوار پر ہے، اس کی زمین اس کی خوبصورت ترین اور سفید ترین دیوار سے ہے۔ شاہجہاں نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم سنہ 1060 ہجری بمطابق 1650 عیسوی میں دیا، اس کی تعمیر میں چھ سال کا عرصہ لگا اور فریقین اور علاقوں کے شہزادوں نے اس کی تعمیر کے لیے سنگ مرمر کے پتھر بھیجنے میں مقابلہ کیا۔ مسجد کے تین دروازے ہیں: بڑا مشرقی دروازہ قلعہ کی طرف، شمالی دروازہ اور اس کے سامنے جنوبی دروازہ اور اس پر چڑھنے کے لیے کئی سیڑھیاں ہیں۔

تاج محل ترمیم

 
شاہجہاں اور اس کی پیاری بیوی ممتاز محل

تاج محلشاہ جہاں کی تعمیراتی سہولیات کا زیور ہے جسے شاہجہان نے قائم کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ دنیا میں اسلامی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ اسے ابتدائی طور پر زین آباد کے قصبے میں دفن کیا گیا، پھر چھ ماہ بعد ان کی باقیات کو آگرہ کے مضافات میں دریائے جمنا کے کنارے اکبر آباد منتقل کر دیا گیا، یہ یادگار ان کی قبر پر تعمیر کی گئی، پھر ان کی وفات کے بعد ان کے ساتھ ہی دفن کیا گیا۔ مقبرہ ایک سفید سنگ مرمر کی عمارت پر مشتمل ہے جو ایک اونچی بالکونی پر مبنی ہے، جس کے درمیان میں ایک بہت بڑا گنبد ہے اور چار چھوٹے گنبدوں سے گھرا ہوا ہے۔ بالکونی کے کونوں پر سفید سنگ مرمر سے ڈھکے چار مینار ہیں، جن میں سے ہر ایک چالیس میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ مقبرہ کا رقبہ تقریباً سترہ ہیکٹر رقبہ اور اس کا رقبہ تقریباً سترہ ہیکٹر ہے۔ آٹھ پاؤں.. دن کی روشنی کام کیے ہوئے سنگ مرمر کے دوہرے پردے میں گھس جاتی ہے اور اس کی کرنیں سلطان اور اس کی بیوی کے گنبد کے نیچے مکمل طور پر دو مقبروں پر پڑتی ہیں۔ جہاں تک قیمتی پتھروں سے جڑی اندرونی سجاوٹ کا تعلق ہے، وہ اپنے چمکدار رنگوں، دلکش ڈرائنگ اور قرآنی آیات اور ابواب کے نوشتہ جات سے ممتاز ہیں۔ سلطانہ کے مقبرے پر نستعلیق رسم الخط میں لکھا تھا: " مرقد منور ارجمندبانو بیگم مخاطب به ممتاز محل متوفی سنه ۱۰۴۰ ق " اور اس کا عربائزیشن: "[یہ] ارجمند بانو بیگم کا روشن مزار ہے، جسے ممتاز محل کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی وفات سنہ 1040 قبل مسیح میں ہوئی۔ اس تاریخی نشان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا الابسٹر مختلف مقامات سے لایا گیا تھا، جن میں سب سے اہم جے پور کا مکران تھا، جہاں کے شہزادوں اور حکمرانوں نے اسے سلطان کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔ سلطان نے تعمیراتی عمل پر دو سو بیس کروڑ روپے یا تین سو بیس ملین روپے کے برابر خرچ کیا اور اسے بنانے میں بائیس سال لگے اور اس میں بائیس ہزار مزدوروں نے کام کیا۔ مزار کے باہر ایک کشادہ باغ مغلیہ طرز کے مطابق سجایا گیا ہے اور اسے صنوبر کے لمبے درختوں سے مزین کیا گیا ہے اور اس کی زمین سرسبز و شاداب ہے جس میں سے پرسکون پانی بہتا ہے۔

سکے ترمیم

1629ء میں شاہجہاں نے نئے سکے بنوائے۔ یہ سکے چاندی، سونا، کانسہ اور تانبے کے بنائے گئے تھے۔


اولاد ترمیم


اولاد شاہ جہاں
نام تصویر مدت حیات تفصیلات
پرہیز بانو بیگم 21 اگست 1611ء1675ء شاہ جہاں کی قندھاری بیگم سے پہلی اولاد۔
پرہیز بانو بیگم اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد تھیں۔
پرہیز بانو بیگم نے شادی نہیں کی ۔
حورالنساء بیگم 30 مارچ 1613ء5 جون 1616ء ممتاز محل سے پہلی لڑکی۔
5 جون 1616ء کو 3 سال کی عمر میں چیچک سے انتقال ہو گیا۔[95]
جہاں آرا بیگم   23 مارچ 1614ء16 ستمبر 1681ء شاہ جہاں اور ممتاز محل کی چہیتی بیٹی۔
جہاں آرا بیگم اپنی والدہ ممتاز محل کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کی پہلی پادشاہ بیگم بنی تھیں۔
جہاں آراء بیگم نے شادی نہیں کی۔
16 ستمبر 1681ء کو انتقال ہوا۔
دارا شکوہ   20 مارچ 1615ء30 اگست 1659ء شاہ جہاں اور ممتاز محل کا پہلا بڑا بیٹا جو بعد ازاں مغلیہ سلطنت کا ولی عہد بھی بنا۔
1659ء میں اپنے چھوٹے بھائی اورنگزیب عالمگیر سے شکست کے بعد 30 اگست 1659ء کو دہلی میں قتل کر دیا گیا۔
دارا شکوہ کو شاہ جہاں کا چہیتا بیٹا کہا جاتا ہے۔
شاہ شجاع   23 جون 1616ء7 فروری 1661ء اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ جنگ تخت نشینی میں شاہ شجاع زندہ رہا۔
شاہ شجاع نے شادی کی اور تین لڑکے اور چار لڑکیاں پیچھے چھوڑے۔
7 فروری 1662ء کو انتقال کیا۔
روشن آراء بیگم   3 ستمبر 1617ء11 ستمبر 1671ء روشن آراء بیگم ممتاز محل کے بطن سے 3 ستمبر 1617ء کو پیدا ہوئی۔
روشن آراء بیگم جنگ تخت نشینی میں اورنگزیب عالمگیر کی حمایتی تھی۔
11 ستمبر 1671ء کو وفات پائی۔روشن آراء بیگم نے شادی نہیں کی۔
جہاں افروز 25 جون 1618ءمارچ 1619ء جہاں افروز شاہ جہاں کی تیسری بیوی اکبرآبادی محل سے پیدا ہوا تھا۔
جہاں افراز ایک سال 9 مہینے کی عمر میں آگرہ میں فوت ہوا۔
اکبرآبادی محل سے پیدا ہونے والا یہ پہلا اور آخری بچہ تھا۔ .[96]
اورنگزیب عالمگیر   3 نومبر 1618ء3 مارچ 1707ء اورنگزیب عالمگیر ممتاز محل سے تیسرا بیٹا تھا۔
شاہ جہاں کی معزولی کے وقت تخت نشینی کے لیے جنگ میں اورنگزیب عالمگیر سب بھائیوں پر سبقت لے گیا
اور 31 جولائی 1658ء کو بحیثیت مغل شہنشاہ کے تخت نشین ہوا۔
3 مارچ 1707ء کو طویل دورِ حکومت کے بعد انتقال کیا۔
ایزد بخش

18 دسمبر 1619ءفروری/ مارچ 1621ء بچپن میں فوت ہوا۔
ثریا بانو بیگم 10 جون 1621ء28 اپریل 1628ء 7 سال کی عمر میں 28 اپریل 1628ء کو چیچک سے انتقال ہوا۔
نامعلوم الاسم فرزند 1622 پیدائش کے بعد انتقال ہوا۔
مراد بخش   8 اکتوبر 1624ء14 دسمبر 1661ء شاہ شجاع کو جنگ تخت نشینی کے بعد اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر قلعہ گوالیار میں قتل کر دیا گیا۔
شاہ شجاع نے دو بیویوں سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں پیچھے چھوڑیں۔
لطف اللہ 4 نومبر 1626ء13 مئی 1628ء ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوا۔
دولت افزاء 8 مئی 1628ء13 مئی 1629ء بچپن میں فوت ہوا.
حسن آراء بیگم 23 اپریل 1629ء1630ء بچپن میں فوت ہوئی۔
گوہر آرا بیگم 17 جون 1631ء1706ء گوہر آرا بیگم کی پیدائش کے بعد ممتاز محل کا انتقال ہوا۔
گوہر آرا بیگم نے شادی نہیں کی۔ 1706ء میں انتقال ہوا۔
پرہان آراء بیگم 1666ء کے بعد انتقال ہوا۔ نا معلوم
نظرآراء بیگم نا معلوم نا معلوم

اقتباس ترمیم

  • "فرانسس برنیئر 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک یہاں رہا۔ یہ شاہ جہاں کا آخری زمانہ تھا۔

فرانس کا رہنے والا برنیئر طبی ماہر تھا۔ یہ مختلف امرا اور شاہی خاندان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گیا اور یوں اسے مغل دربار، شاہی خاندان، مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اورنگ زیب کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔

اس نے اورنگ زیب عالم گیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارا شکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے دارا شکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا۔ اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسس برنیئر نے اپنے وطن واپس جاکر ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس سے شایع ہوا۔ فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں لکھاکہ ہندوستان میں مڈل کلاس طبقہ سرے سے موجود نہیں، ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امرا محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی۔ جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزرا، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔

لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے، مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چناں چہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے، ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں، لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے، چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے، مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے۔ لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے۔

فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاری گر ہیں لیکن کاری گری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے، لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوش حال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔

یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔"[97][98]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/shah-jahan — بنام: Shah Jahan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. https://pantheon.world/profile/person/Shah_Jahan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500245103 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 فروری 2024 — خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — شائع شدہ از: 29 جون 2023
  4. ربط : https://d-nb.info/gnd/119006693  — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اپریل 2015 — اجازت نامہ: CC0
  5. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 23 مئی 2020
  6. Illustrated dictionary of the Muslim world۔ Tarrytown, NY: Marshall Cavendish Reference۔ 2011۔ صفحہ: 136۔ ISBN 978-0-7614-7929-1 
  7. Richards 1993, Shah Jahan, pp. 121–122.
  8. ملا صالح کمبوہ: عمل صالح (شاہجہاں نامہ)، ص 17۔
  9. Eraly 2000, p. 299
  10. بنارسی: صفحہ 54۔
  11. Findly 1993, p. 125
  12. بنارسی: صفحہ 53۔
  13. "Shah Jahan"۔ Encyclopædia Britannica 
  14. Findly 1993, p. 125
  15. بنارسی:  صفحہ 294/295۔
  16. Banarsi Prasad Saksena (1932)۔ History Of Shahjahan Of Dihli 1932۔ Indian Press Limited 
  17. Qazvini, Asad Beg; Mughal-era historian
  18. Prasad 1930, p. 189 "During his grandfather's last illness, he [Khurram] refused to leave the bedside surrounded by his enemies. Neither the advice of his father nor the entreaties of his mother could prevail on him to prefer the safety of his life to his last duty to the father."
  19. بنارسی: صفحہ 54/55۔
  20. بنارسی:  صفحہ 55/56۔
  21. بنارسی:  صفحہ 57/58۔
  22. Nicoll 2009, p. 56
  23. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 61۔ ISBN 9780195127188 
  24. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 84۔ ISBN 9780195127188 
  25. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 81۔ ISBN 9780195127188 
  26. بنارسی:  صفحہ 61/62۔
  27. Banks Findley, Ellison (11 Feb 1993). Nur Jahan: Empress of Mughal India. Oxford, UK: Nur Jahan : Empress of Mughal India,  p. 39
  28. Qazvini, Asad Beg; Mughal-era historian
  29. Anant Kumar (January–June 2014)۔ "Monument of Love or Symbol of Maternal Death: The Story Behind the Taj Mahal"۔ Case Reports in Women's Health۔ 1: 4–7۔ doi:10.1016/j.crwh.2014.07.001 ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2015 
  30. The Mertiyo Rathors of Merta, Rajasthan۔ II۔ صفحہ: 45 
  31. بنارسی:  صفحہ 59۔
  32. بنارسی:  صفحہ 64۔
  33. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 154۔ ISBN 9780195127188 
  34. Prasad 1930, p. 239 "Constant skirmishes were thinning the Rajput ranks ... [Amar Singh] offered to recognize Mughal supremacy ... Jahangir gladly and unreservedly accepted the terms."
  35. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 175۔ ISBN 9780195127188 
  36. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 192۔ ISBN 9780195127188 
  37. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 201۔ ISBN 9780195127188 
  38. John Middleton (2015)۔ World Monarchies and Dynasties (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 451۔ ISBN 978-1-317-45158-7 
  39. John Middleton (2015)۔ World Monarchies and Dynasties (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 451۔ ISBN 978-1-317-45158-7 
  40. John Middleton (2015)۔ World Monarchies and Dynasties (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 451۔ ISBN 978-1-317-45158-7 
  41. Jahangir Emperor (1999)۔ The Jahangirnama۔ Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution and Oxford University Press۔ صفحہ: 271۔ ISBN 9780195127188 
  42. Satish Chandra (2007)۔ History of Medieval India: 800–1700۔ Orient BlackSwan۔ ISBN 978-8125032267۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2020 
  43. Nicoll 2009, p. 157
  44. H. M. Elliot (1867–1877)۔ The History of India, as Told by Its Own Historians۔ VI۔ London 
  45. Findly 1993, pp. 275–282, 284
  46. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 11، صفحہ 617۔
  47. Taylor, G.P.(1907). Some Dates Relating to the Mughal Emperors of India in Journal and Proceedings of the Asiatic Society of Bengal, New Series, Vol.3, Calcutta: The Asiatic Society of Bengal, p.59
  48. Taylor, G.P.(1907). Some Dates Relating to the Mughal Emperors of India in Journal and Proceedings of the Asiatic Society of Bengal, New Series, Vol.3, Calcutta: The Asiatic Society of Bengal, p.59
  49. بنارسی: صفحہ  368 تا    371۔
  50. Vidya Dhar Mahajan (1971) [First published in 1961]۔ Mughal Rule in India (10th ایڈیشن)۔ Delhi: S. Chand۔ صفحہ: 148–149۔ OCLC 182638309 
  51. Cormac Ó Gráda (March 2007)۔ "Making Famine History"۔ Journal of Economic Literature۔ 45 (1): 5–38۔ JSTOR 27646746۔ doi:10.1257/jel.45.1.5۔ hdl:10197/492 ۔ Well-known famines associated with back-to-back harvest failures include ... the Deccan famine of 1630–32 
  52. Vidya Dhar Mahajan (1971) [First published in 1961]۔ Mughal Rule in India (10th ایڈیشن)۔ Delhi: S. Chand۔ صفحہ: 148–149۔ OCLC 182638309 
  53. Sen 2013, pp. 170–171
  54. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 11، صفحہ 617/618۔
  55. William J. Duiker، Jackson J. Spielvogel (2006)۔ World History: From 1500۔ Cengage Learning۔ صفحہ: 431, 475۔ ISBN 978-0-495-05054-4 
  56. بنارسی: صفحہ 372/373۔
  57. بنارسی: صفحہ 373۔
  58. بنارسی: صفحہ 374۔
  59. بنارسی: صفحہ 374۔
  60. بنارسی: صفحہ 375/376۔
  61. بنارسی: صفحہ 376۔
  62. بنارسی: صفحہ 376/377۔
  63. بنارسی: صفحہ 377۔
  64. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 530۔
  65. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 534 تا 537۔
  66. الساداتي (1959)، ص. 194-195. 
  67. الشيال (2001)، ص. 144. 
  68. طقوش (2007)، ص. 283. 
  69. طقوش (2007)، ص. 279-280. 
  70. الساداتي (1959)، ص. 195-196. 
  71. الساداتي (1959)، ص. 197-199. 
  72. طقوش (2007)، ص. 287-285. 
  73. الساداتي (1959)، ص. 197-198. 
  74. طقوش (2007)، ص. 285-287. 
  75. الساداتي (1959)، ص. 196-197. 
  76. طقوش (2007)، ص. 284-285. 
  77. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 94 تا 97۔
  78. ملا صالح کمبوہ : عمل صالح، ص 550/551 ۔
  79. Valerie Gonzalez (2016)۔ Aesthetic Hybridity in Mughal Painting, 1526–1658 (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 116۔ ISBN 978-1317184874 
  80. Eraly 2000, p. 379
  81. India ASI۔ "Taj Mahal"۔ asi.nic.in۔ Archeological Survey of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2018 
  82. طقوش (2007)، ص. 293-296. 
  83. الزركلي (2002)، ج. 3، ص. 283. 
  84. الزازان (2019). 
  85. طقوش (2007)، ص. 293-296. 
  86. ^ ا ب لوبون (2009)، ص. 428-430. 
  87. القطري (2017)، ص. 186. 
  88. النمر (1981)، ص. 334-335. 
  89. الساداتي (1959)، ص. 211-212. 
  90. Jaswant Lal Mehta (1984) [First published 1981]۔ Advanced Study in the History of Medieval India (بزبان انگریزی)۔ II (2nd ایڈیشن)۔ Sterling Publishers Pvt. Ltd۔ صفحہ: 59۔ ISBN 978-8120710153۔ OCLC 1008395679 
  91. Asher 2003, p. 169
  92. "A Qutub Minar that not many knew even existed"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2018 
  93. Shah Jahan Mosque UNESCO World Heritage Centre Retrieved 10 February 2011
  94. A. H. Dani (2003)۔ "The Architecture of the Mughal Empire (North-Western Regions)" (PDF)۔ $1 میں Chahryar Irfan۔ History of Civilizations of Central Asia۔ V۔ UNESCO۔ صفحہ: 524۔ ISBN 978-9231038761  الوسيط |first2= يفتقد |last2= في Editors list (معاونت)
  95. Moosvi, Shireen (2008). People, Taxation, and Trade in Mughal India. Oxford: Oxford University Press. p. 115
  96. Abū al-Faz̤l ibn Mubārak (1927)۔ Ain i Akbari (بزبان انگریزی)۔ Qausain۔ صفحہ: 551 
  97. ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 مئی 2018، عدنان ہاشمی
  98. ریختہ- برنیئر کا سفرنامہ ہند
شاہ جہاں
پیدائش: 5 جنوری 1592ء وفات: 22 جنوری 1666ء
شاہی القاب
ماقبل  مغل شہنشاہ
19 جنوری 1628ء31 جولائی 1658ء
مابعد