کنن پوشپورہ سانحہ
کنن پوشپورہ سانحہ (انگریزی: Kunan Poshspora incident) ، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ اجتماعی عصمت دری کا ایک واقعہ ہے جو 23 فروری 1991 کو پیش آیا۔ کنن اور پوشپورہ ضلع کپواڑہ میں واقع دو گاؤں ہیں۔ عسکریت پسندوں (انگریزی: militants) کی جانب سے فائرنگ کے بعد انڈین آرمی کی جانب سے کنن اور پوشپورہ میں سرچ آپریشن شروع کیا۔[1] نزدیک کے لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ پہلے عسکریت پسندوں نے آرمی پر گولی چلائی، اسی کی وجہ سے یہ سرچ آپریشن ہوا۔[2] گاؤں میں رہنے والے کئی لوگوں نے یہ کہا کہ اس رات بھارتی فوج نے کئی خواتین کے ساتھ عصمت دری کی ہے۔ پہلی رپورٹ کو مجسٹریٹ کے آنے کے بعد لکھی گئی، اس میں ان خواتین کی تعداد 23 بتائی گئی لیکن نگہبان حقوق انسانی کا اصرار ہے کہ یہ تعداد 23 سے 100 تک ہو سکتی ہے۔[3][4] بھارتی فوج کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی۔ حکومت ہند کی تحقیقات نے ان الزامات کے ثبوت کو ناکافی سمجھتے ہوئے انھیں دہشت گردوں کا پروپیگنڈہ قرار دیا۔[5] حکومت ہند کی جانب سے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔[5] انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت ہند کی تحقیقات اور ان کے طریقہ کار پر سنگین شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ نگہبان حقوق انسانی نے علانیہ یہ کہا کہ حکومت ہند نے فوج کو انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات سے بری کرنے اور الزامات لگانے والوں کو بدنام کرنے کے لیے ایک مہم چلائی ہے۔[6][7]
| ||||
---|---|---|---|---|
مقام | ضلع کپواڑہ | |||
شہر | بھارت | |||
تاریخ | 23 فروری 1991 | |||
درستی - ترمیم |
واقعہ
ترمیمنیو یارک ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، کنن پوشپورہ میں رہنے والے لوگوں نے یہ کہا کہ عسکریت پسندوں نے فوج پر گولی چلائی جس کی وجہ سے فوج نے سرچ آپریشن چلایا۔[2] 23فروری 1991 کو سی۔آر۔پی۔ایف اور بی۔ایس۔ایف کے دستوں نے کنن اور پوشپورہ، دونوں گاؤں کو گھیر لیا، تاکہ وہ سرچ آپریشن کر سکے۔ گاؤں کے مردوں کو گاؤں سے باہر جمع کیا گیا اور ان سے عسکریت پسندوں کی سرگرمی کے متعلق سوال کیے گئے۔ سرچ آپریشن کے خاتمے کے بعد، کئی گاؤں والوں نے یہ دعوی کیا کہ اس رات فوج نے کئی خواتین کے ساتھ عصمت دری کی۔[2]
بعد ازاں مقامی جماعت حزب اسلامی کے رہنما مشتاق الاسلام نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویوکشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کی حمایت کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے اس دعوے کی تردید کی کہ سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔[1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
ایف آئی آر اور عدالتی کمیشن
ترمیم5 مارچ کو، گاؤں والوں نے اس واقعے کی شکایت مقامی مجسٹریٹ ایس ایم یاسین سے کی۔ 7 مارچ کو گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد، اس نے اپنی رپورٹ درج کروائی جس میں 23 خواتین کے بیانات شامل تھے جنھوں نے بھارتی فوج پر عصمت دری کا الزام لگایا تھا۔ بھارتی اور عالمی میڈیا نے جب اس مسئلے کو اجاگر کیا تو بھارتی حکومت اور فوجی حکام کی طرف سے سختی سے تردید کی گئی۔ 8 مارچ کو تریہگام پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ کنن اور پوش پورہ میں 23 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
17 مارچ کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مفتی بہاؤ الدین فاروقی نے ایک فیکٹ فائنڈنگ وفد کی قیادت کرتے ہوئے کنن پوشپورہ کا دورہ کیا۔ اپنی تفتیش کے دوران، اس نے 53 خواتین کا انٹرویو کیا جنھوں نے الزام لگایا کہ فوجیوں نے ریپ کیا، جسٹس مفتی بہاؤ الدین فاروقی کے مطابق گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ تفتیش کے لیے مقرر کیے گئے اے ایس پی دلباغ سنگھ چھٹی پر تھے جس کی وجہ سے اس کیس کی تحقیقات کا آغاز ہی نہیں ہو سکا۔ اس کے ساتھ ہی جسٹس مفتی بہاؤ الدین فاروقی نے بعد میں کہا کہ اس معاملے میں "عام تفتیشی طریقہ کار کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ صرف چند ماہ بعد، جولائی 1991 میں، دلباغ سنگھ کو بغیر تفتیش شروع کیے کسی دوسرے اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔[8]
ڈویژنل سطح پر تحقیق
ترمیم18 مارچ کو، وجاہت حبیب اللہ، ڈویژنل کمشنر نے گاؤں کے دورے کے بعد رپورٹ درج کی۔ حبیب اللہ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شکایت مبالغہ آمیز ضرور ہے مگر بے بنیاد نہیں۔ کنن پوش پورہ سے روانہ ہونے سے پہلے فوجیوں کو گاؤں کے سربراہ نمبردار کے ذریعے اچھے برتاؤ کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ۔ جبکہ نمبردار نے کمشنر حبیب اللہ کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اس خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ واقع کی صداقت انتہائی مشکوک ہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ کیس اعلی پولیس آفسر سے مزید تحقیقات کرائی جائیں۔
پریس کونسل آف انڈیا
ترمیمحکومتی تحقیقات پر شدید نکتہ چینی ہوئی تو پریس کونسل آف انڈیا جو پرنٹ میڈیا کا ایک قانونی اور نیم عدالتی ادارہ ہے، نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی۔ تحقیقاتی کمیٹی نے جون میں کنن پوش پورہ کا دورہ کیا تھا۔ متعدد متاثرین کا انٹرویو کرنے پر، ٹیم نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کے بیانات میں تضاد ہے جس کی وجہ سے وہ عصمت دری کے الزامات کو بے بنیاد سمجھتی ہے۔ [9]صرف چار دن بعد ایک ماہر اطفال جو جموں و کشمیر پیپلز بیسک رائٹس کمیٹی کے نام سے شہریوں کے گروپ کا رکن تھا اور اس نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس واقعے کے وقت حاملہ ہونے والی خواتین میں سے ایک نے ایک بچے کو جنم دیا تھا جس کا بازو ٹوٹا ہوا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے ہسپتال کے حکام سے انٹرویوکے بعد یہ قیاس کیا کہ بچے کو لگی چوٹیں ڈاکٹروں کے بچے کو پیدائش کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔[10]
میڈیکل رپورٹ میں تاخیر
ترمیم15 اور 21 مارچ کو 32 خواتین کے طبی معائنے کیے گئے، جن میں ان کے سینے اور پیٹ پر خراشوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی اور تین غیر شادی شدہ خواتین کے ہائیمن پھٹے ہوئے تھے۔ جس پر ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "اس طرح کے معاملے میں تاخیر سے ہونے والے طبی معائنے سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ہے" اور یہ کہ کشمیر کے دیہاتیوں میں اس طرح کے خراشیں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ہائمن قدرتی عوامل، چوٹ یا شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے۔[2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
بدسلوکی کے مبینہ الزامات کے بالکل برعکس، ان تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ الزامات خود "مبالغہ آمیز یا خود ساختہ ہیں"۔ ٹیم نے یہ بھی لکھا کہ یہ سب کچھ "کشمیر اور بیرون ملک عسکریت پسند گروپوں اور ان کے ہمدردوں اور سرپرستوں کے ذریعہ نفسیاتی جنگ کی پائیدار حل کے لیے انتہائی چالاکی سے تیار کردہ حکمت عملی ہے جس کا مقصد فوج کو بدنام کرنا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام معاملے میں متعدد جگہ پر تضادات ہیں جس واقعہ کی صداقت کو مشکوک کرتے ہیں۔
پریس کونسل کی رپورٹ کے اجرا کے بعد، سرکاری حکام نے اجتماعی عصمت دری کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ستمبر میں، کیس کو قرار دیا گیا اور ایک ماہ بعد بند کر دیا گیا۔[3]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
ہیومن رائٹس واچ کی تنقید
ترمیمہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پریس کونسل کے اس الزام کو مسترد کرنے پر تنقید کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ طبی معائنے کے نتائج عصمت دری کے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، لیکن پھر بھی انھوں نے کنن پوش پورہ میں فوج کی سرگرمی پر سوالات اٹھائے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کمیٹی نے ایسے ہر ثبوت کو مسترد کر دیا جو حکومتی بیانیے کی تردید کرتا تھا۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ میں کمیٹی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سچائی سے پردہ اٹھانے کی بجائے تنقید کا مقابلہ کرنے میں زیادہ فکر مند ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی انسانی حقوق پر اپنی 1992 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ کنن پوشپور ہ میں فوج کی طرف سے اجتماعی زیادتی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔[4]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
ریاستی انسانی حقوق کمیشن کا مطالبہ
ترمیم2004 میں، مبینہ متاثرین میں سے ایک نے جموں و کشمیر کے ریاستی انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا اور کیس کی دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ 2007 میں، مزید خواتین نے کیس دوبارہ کھولنے کے لیے رابطہ کیا۔دونوں دیہات کے متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے 70 سالہ شخص غلام احمد ڈار کی سربراہی میں کنن پوش پورہ رابطہ کمیٹی (KCC) بنائی۔
اکتوبر 2011 میں، جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن نے جموں و کشمیر حکومت سے مبینہ اجتماعی عصمت دری کیس کی دوبارہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کو کہا۔[5]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں 2013 میں دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ 30 سے زیادہ خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے اور مقدمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اسے امید ہے کہ جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی ایس ایچ آر سی کی سفارشات کا جائزہ لے گی اور ان پر تیزی سے عمل درآمد کرے گی۔[6]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtnpk.com (Error: unknown archive URL)
دسمبر 2017 میں، جموں و کشمیر حکومت نے ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ اپیلوں کی جلد سماعت کی جائے۔
سماجی اثر
ترمیمانڈین ایکسپریس نے 21 جولائی 2013 کو اطلاع دی کہ متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کو محلے کے دوسرے دیہاتیوں کے ذریعہ سماجی طور پر بے دخل کیا جا رہا ہے۔[11] متاثرہ دو گاؤں میں واحد سرکاری اسکول آٹھویں جماعت تک پڑھاتا ہے۔ قریبی تریہگام اور کپواڑہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ کو اس واقعے کی وجہ سے طعنہ دیا گیا اور ان میں سے اکثر آٹھویں جماعت کے بعد تعلیم چھوڑنے لگے ہیں۔ [11]ایک ہی گاؤں میں واقعہ میں ملوث نہ ہونے والے خاندان متاثرین کے خاندانوں سے سماجی طور پر الگ ہو گئے ہیں۔ گاؤں والوں نے دعویٰ کیا کہ اپنے بچوں کے لیے رشتہ تلاش کرنا مشکل تھا۔[11]
سانحہ سے متعلق کتب
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Jha, Prashant. "Unravelling a 'mass rape'". The Hindu (انگریزی میں). Archived from the original on 2017-02-27. Retrieved 2017-05-13.
- ^ ا ب پ
- ↑ Abdication of Responsibility: The Commonwealth and Human Rights۔ Human Rights Watch۔ 1991۔ ص 13–20۔ ISBN:978-1-56432-047-6
- ↑ International Human Rights Organisation (1992)۔ Indo-US shadow over Punjab۔ International Human Rights Organisation"۔.۔reports that Indian armymen belonging to the 4th Rajputana Rifles of the 68 Mountain Division entered a settlement at Kunan Poshpora in Kupwara district on the night of فروری 23–24, 1991 and gangraped a minimum of 23 and a maximum of 100 women of all ages and in all conditions."
- ^ ا ب "Mass Rape Survivors Still Wait for Justice in Kashmir"۔ Trustlaw – Thomson Reuters Foundation۔ Reuters۔ 7 مارچ 2012۔ 2012-06-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ "Human Rights Watch World Report 1992"۔ World Report 1992۔ Human Rights Watch۔ 1 جنوری 1992۔ 2012-06-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ "Human Rights Watch World Report 1992 – India"۔ UNHCR Refworld۔ 1 جنوری 1992۔ 2011-05-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-12-18
- ↑ "کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر"۔ 2023-02-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-02-24
- ↑ "کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر"۔ 2023-02-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-02-24
- ↑ "کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر"۔ 2023-02-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-02-24
- ^ ا ب پ Bashaarat Masood؛ Rifat Mohidin (21 جولائی 2013)۔ "The Silence of a Night"۔ The Indian Express۔ ص 10, 11۔ 2013-07-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ Essar Batool; Ifrah Butt; Samreena Mushtaq; Munaza Rashid; Natasha Rather. Do You Remember Kunan Poshpura (انگریزی میں). Zubaan Books. ISBN:9789384757663.