کوٹ ڈیجی کے آثار قدیمہ قومی شاہراہ کے کنارے خیرپور شہر سے جنوب کی طرف پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ایک چٹان پر واقع شرقاً غرباً چھ سو فٹ لمبی اور شمالاً جنوباً چار سو فٹ چوڑی ڈھیری ہے جو ارد گرد کی زمین سے چالیس فٹ اونچی ہے۔

ڪوٽڏيجي
کوٹ ڈیجی (اردو میں)
کوٹ دیجی گاؤں کا منظر
کوٹ ڈیجی is located in پاکستان
کوٹ ڈیجی
اندرون پاکستان
مقامضلع خیر پور، سندھ، پاکستان
قسمSettlement
تاریخ
ادوارHarappan 1 to Harappan 2
ثقافتیںوادیٔ سندھ کی تہذیب
اہم معلومات
کھدائی کی تاریخ1955، 1957

اس مدفون شہر کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قلعہ کے اندر ہے، جس میں حکمران طبقات رہتے ہوں گے۔ دوسرا حصہ قلعہ کے باہر ہے جس میں دستکار لوگ رہتے ہوں گے۔ جو اپنے وقت میں غلاموں کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اجتماعی طور پر ایک سماجی طبقے کمی ( مکین )کا درجہ رکھتے تھے اور حکمران طبقہ اجتماعی طور پر ان پر مالکانہ حقوق رکھتا تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ غلام ملکان فرداً فرداً بھی سارے سارے دولت مند ہوں۔ ان میں سے افراد غریب بھی ہو سکتے تھے۔ لیکن آزاد شہری ضرور تھے۔ ان غریب آزاد شہریوں کو غلاموں پر اتنی ہی مالکانہ حثیت حاصل تھی جتنی امرائ کو اور یہ غریب آزاد شہری اگر ان کے استحصال میں شریک نہیں تھے تو بھی ان کو محکوم رکھنے کے لیے اپنی طاقت حکمرانوں کے پلڑے میں ڈالتے تھے اور یہ مقصد نسلی قبائلی اور گروہی بنیادوں پر حاصل کیا جاتا تھا۔ لہذا قدیم پاکستان کے کمی مکمل طور پر غلام تھے اور ان کے ارد گرد ذات پات کی دیواریں چن دی گئی تھیں۔ جن میں وہ سسک سسک کر جیتے تھے۔

کوٹ ڈیجی کی کھدائی میں آبادی کی کل سولہ سطحیں ملی ہیں۔ سب سے اوپر کی تین سطحیں وادی سندھ کی نمائندہ ہیں۔۔ جب کہ سطح 4 سے لے کر سولہ تک جو سب سے نیچے ہیں۔ قبل از سندھ تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ اس قدیم دور میں ایک قلعہ بھی ملا ہے۔ جس میں طویل عرصے تک ایک منظم عمدگی سے ترتیب دیا ہوا شہر آباد رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے نہایت دولت مند اور ترقی یافتہ لوگ یہاں رہتے تھے۔ ان کے مکانات منظم تھے۔ جن کی بنیادیں پتھر کی اور دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں۔ برتن چاک پر بنتے تھے۔ ان کے حجری اوزار نہایت ترقی یافتہ تھے۔ جن میں نیزوں کی انیاں، برچھے، چھوٹے استرے اور کھرچنے وغیرہ شامل ہیں۔ ایک بیل کی سفالی مورتی بھی ملی ہے۔ اس قلعے کے لوگ طویل عرصے قلعہ پر قابض رہے ہیں۔ یعنی لگ بھگ سات سو سال۔ کیوں کہ اس جگہ عمارتی ملبے کی تیرہ سطحیں ملی ہیں۔ جن میں سے کم از کم گیارہ یا بارہ مرتبہ آبادی رہی ہے۔ شہر کا وہ حصہ جو قلعے سے باہر ہے اس میں پانچ مرتبہ آبادی رہی ہے اور آبادی کم گنجان بھی رہی ہے۔ اس قلعے کی دیوار میں حفاظتی برج بھی ہیں۔ اس کی بنیاد میں پتھر اور اوپر کی چنائی میں کچی اینٹیں استعمال ہوئی ہیں۔

تیسری سطح کے نیچے اور چوتھی سطح کے اوپر یعنی وادی سندھ کی تہذیب کے آنے اور اس سے پہلے زمانے کے درمیان شدید آتش زنی کے آثار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قدیم اور جدید مادی ثقافت میں زبر دست فرق ہے۔ اس ڈاکٹر ایف اے خان نے اور ان کی طرح دیگر ماہرین نے بھی یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ نئے آّنے والے والوں نے قدیم شہر کو جلا کر تاخت و تاراج کیا۔ اس کے ثبوت میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پہلے لوگ باریک دیوار کے نفیس برتن بناتے تھے۔ جب کہ نئے لوگ موٹی دیوار کے برتن بناتے تھے۔ پرانے دور میں کم جگہ میں زیادہ برتن اور نہایت عمدہ معیار کے ملے ہیں۔ جس کا مطلب کہ وہ بہت زیادہ امیر لوگ تھے اور ان کی صنعت و حرفت بہت ترقی یافتہ تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم دور میں سب سے نچلی سطح سے 16 سے سطح 4 تک بار بار راکھ اور جلی ہوئی لکڑی کے کوئلے کی سطحیں ملتی ہیں۔ لیکن ظروف سازی کی تیکنک اس کا اسلوب اور معیار ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے۔ یعنی قدیم ضروف ہمیشہ باریک، نفیس اور ہلکے رہے ہیں۔ صرف دور قدیم کے اختتام پر ایسا ہوتا ہے کہ ضروف سازی میں بنیادی تبدیلی آتی ہے۔ یہ سارے شواہد اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کوٹ ڈیجی ثقافت زوال آمادہ سماج اور غلامانہ سماج کے دور کی غلام دار ثقافت تھی۔ اس میں اکثر غلاموں کی بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں۔ جو مالکان کے شہر کو تباہ و برباد کرتے تھے اور ہر بار غلاموں کو شکست ہوتی تھی۔ آخر چوتھی سطح کے زمانے میں پرانے غلام مالکان کو شکت ہوئی ہے۔ اور دیہاتوں سے آکر حملہ آور ہونے والے زرعی غلام ان کے شہروں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ان مکانوں کو ازسر نو تعمیر کرکے خود ان میں رہائش اختیار کرتے ہیں اور نیا سیاسی اقتدار قائم کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قدیم پاکستان طول و عرض میں ایک ریاست وجود میں آتی ہے۔ جسے وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے یا کیا جاتا ہے۔ یہ غلام دار ریاست ایک خونی انقلاب کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی کسان سلطنتیں ایک وسیع سلطنت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے مغربی مورخین وادی سندھ کی تہذیب کو اچانک جو بن پر آنا SUDDEN FLOWERING OF THE INDUS CIVILIZATION کہتے ہیں۔ اس کا اچانک وجود میں آنا کسی مادی اسباب کے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ سماجی انقلاب تھا۔ ٹکریوں میں بٹے ہوئے غلام دارانہ سماج کو خون ریز طبقاتی جدل کے بعد ایک عظیم تر معاشی سیاسی اور سماجی وحدت میں تبدیل کرتا ہے۔ اس انقلاب کی حرکی قوت کسان اور دستکار ( کمی ) تھے۔ جو پھر خود غلام، ملکان اور اونچی زات کے حکمرانوں میں تبدیل ہوئے۔ اس جنگ میں بہت سے صنعتی کارکن اور دستکار مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری طرز تعمیر بھی ایک دفعہ غائب ہوجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب نئے حکمرانوں سیاسی استحکام حاصل کر لیا تو پھر ان کی نفاست لوٹ آئی اور پرانا ورثہ قدرے نئے انداز میں اجاگر ہوا۔ ہرپہ، موہنجو ڈارو کے شہر لگ بھگ چھ سات سو سال زندہ رہے۔ اگر یہ یکے دیگر تھے تو پھر وادی سندھ کی غلام ریاست تیرہ چودہ سو سال زندہ رہی۔

کوٹ دیجی کی ثقافت کا زمانہ 3155 ق م ( نیچے کی سطح یعنی سطح نمبر 14 ) سے لے کر 2590 ق م کا زمانہ ہے۔ یہ قلعے کے اندرونی شہر کا زمانہ ہے۔ قلعے کے باہر جو شہر ہے اس کی سب سے قدیم آبادی 2885 ق م سے لے کر 2805 تک رہی ہے۔ مجموعی طور پر ثقافت لگ بھگ ساڑھے پانچ سو سال رہی۔ ڈکٹر توفیق محل کا اصرار ہے کہ کوٹ ڈیجی چقافت پوری عظیم وادی سندھ، شمالی بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے لے کر اور اور ساحل مکران کی طرف ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کی چند میل پٹی اس میں شامل تھی۔ اسی علاقے پر بعد میں وادی سندھ کی تہذیب پھلی پھولی۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور