کویت میں خواتین (انگریزی: Women in Kuwait) کسی دور میں بے حد پیچھے تھیں۔ انھیں ملک میں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ کسی بھی کسی ملازمت پر فائز ہو سکتی تھیں۔ تاہم جدید طور پر صورت حال کافی بدل چکی ہے۔ اب کویتی خواتین نہ صرف انتخابات میں ووٹ ڈال سکتی ہیں، بلکہ وہ خود بر سر مقابلہ ہو سکتی ہیں۔ وہ وزارتی عہدوں پر فائز ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح سے ملازمتوں اور بلند عہدوں پر بھی جدید طور پر کویتی خواتین فائز ہو سکتی ہیں۔

خقوق نسواں کے حصول کی کوششیں

ترمیم

النود الشارق کویت میں خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں- غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے المیے خلاف abolish153″" نامی تحریک بڑے زوروشور سے ان کی زير صدارت چلائی گئی-النود الشارق اس تحریک کی بانی رکن میں سے ہیں-خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ صرف پیش پیش رہیں بلکہ ہر طرح کی مزاحمت کا مقابلہ بھی بلا خوف و خطرکیا- ان کی آواز کی گونج اعلیٰ اقتدار کے محلوں تک جا پہنچی اور فرسودہ رواج کے خاتمے سے بہت سی خواتین کو نئی زندگی ميسر آئى- ان کی جرأت مندی کو سراہتے ہوئے انھیں “کویتی فرنچ نیشنل آرڈر آف میرٹ” کے ایوارڈ سے نوازا گیا-النود الشارق يہ ایوارڈ اپنے نام کرنے والی پہلی کویتی خاتون ہیں-[1]

کھیل

ترمیم

جدید طور پر کویت میں خواتین بڑھ چڑھ کر کھیل کود میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں جسمانی تن درستی اور چستی کے لیے زبر دست بے داری پائی جاتی ہے۔

آئس ہاکی

ترمیم

کویت کی 56 خواتین کو قومی آئس ہاکی ٹیم کو نئی جرسی دی گئی ہے۔ ان کی عمریں 15 سے 30 کے درمیان میں ہیں اور ان میں سے بعض تو مائیں ہیں اور وہ ٹریننگ کے دوران میں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں۔ یہ کھیل بہ طور خاص تیار کردہ اسٹیڈیم میں کھیلا جاتا ہے۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم