کویت، عربی: الكويت، سرکاری طور پر کویت کی ریاست (عربی: دولة الكويت)، مشرق وسطیٰ کا ایک عرب ملک ہے۔ دار الحکومت کویت شہر ہے۔ یہ مشرقی عرب کے شمالی کنارے میں خلیج فارس کے سرے پر واقع ہے، جس کی سرحد شمال میں عراق اور جنوب میں سعودی عرب سے ملتی ہے۔ کویت کی ایران کے ساتھ سمندری سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ کویت کی ساحلی لمبائی تقریباً 500 کلومیٹر (311 میل) ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دار الحکومت اور سب سے بڑے شہر کویت سٹی میں رہتی ہے۔ سنہ 2022ء تک، کویت کی آبادی پینتالیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں سے پندرہ لاکھ کویتی شہری ہیں جبکہ باقی تیس لاکھ غیر ملکی کارکن ہیں جو سو سے  زائد ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کویت کا رقبہ 17,820 مربع کلومیٹر ہے۔

کویت
کویت
کویت
پرچم
کویت
کویت
نشان

 

ترانہ:  کویت کا قومی ترانہ  ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 29°10′00″N 47°36′00″E / 29.166667°N 47.6°E / 29.166667; 47.6  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت کویت شہر  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی آئینی بادشاہت  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب مشال الاحمد الجابر الصباح (16 دسمبر 2023–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 26 فروری 1991  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
کرنسی کویتی دینار  ویکی ڈیٹا پر (P38) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+03:00  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم kw.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 KW  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +965  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

’کویت ‘ اس جزیرہ نما ملک کا تاریخی نام ہے۔ جو عربی لفظ’ کوت‘ سے آیا ہے۔ اور’ کوت‘ عربی زبان میں اس عمارت کو کہتے ہیں جہاں اسلحہ جمع کیا جاتا ہے۔’کوت‘ اس قلعہ کو بھی کہتے ہیں جو پانی کے کنارے تعمیر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں ’کویت ‘ کا نام پہلی بار سکندراعظم کے زمانے میں استعمال میں آیا۔ اس نے جزیرة فیلکا کو بسایا اور اس کا نام ایکاروس رکھ دیا۔ سترہویں صدی اور اس سے پہلے یہ خطہ ’قرین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جس کے معنی ٹیلا، تودہ اور اونچی زمین کے آتے ہیں۔ جدید ’کویت ‘ کی تاریخ سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارہویں صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ بنو خالدکا قبیلہ سرزمین نجد سے تعلق رکھتا تھا۔ انھوں نے اس شہر کی داغ بیل ڈالی اورشہر کے اطراف قلعہ کی تعمیر کروائی۔ قلعہ کی دیواریں پہلی بار سنہ 1767ء میں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ آل صباح کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ نجد سے نکل کر اس خاندان نے یہاں پر سکونت اختیار کی۔ اس عہد میں یہ شہر پھلا پھولا اور دنیا والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ آل صباح کے خاندان نے اس کی تعمیر و ترقی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ لوگوں نے ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سنہ 1752ء میں صباح بن جابر کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کو اپنا حاکم تسلیم کیا۔ ایک تجارتی شہر پر ہر کسی کی نظر ہوتی ہے۔ قدیم زمانے ہی سے کویت ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا تھا اور اس کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت اور لین دین کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اس لیے اس پر دشمنوں کے حملے کا اندیشہ ہمیشہ رہا ہے۔ جدید کویت کی تعمیر کے بعد اس پر عثمانی ترکوں کی نظر تھی۔ انیسویں صدی میں عثمانیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 23 جنوری 1899 میں شیخ مبارک نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کا مقصد عثمانیوں کے چنگل سے کویت کو نکالنا تھا۔ اس معاہدہ کی وجہ سے برطانیہ، کویت کے خارجی پالیسی پر مکمل طور پر حاوی ہو گیا۔ اس کے بعد سنہ 1913ء میں اینگلو عثمان سمجھوتے پر دستخط کے بعد حکومتِ برطانیہ اور عثمانی حکومت نے امیرِ کویت ’شیخ مبارک الصباح‘ کوخود مختار کویت سٹی کے حکمراں کے طور پر نامزد کیا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کے فورا ًبعد اس معاہدہ کو توڑتے ہوئے برطانیہ نے اعلان کیا کہ’کویت‘ سلطنت برطانیہ کے ماتحت ایک آزاد بادشاہی نظام والا ملک ہے“۔ ’شیخ مبارک الصباح‘کے دور میں کویت میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی۔ سن 1911 ء میں ’مدرسہ مبارکیہ‘ کے نام سے کویت کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ نسبت شیخ مبارک ہی کی طرف تھی۔ انھیں کی ایماء پر سنہ 1914ء میں’مستشفیٰ امریکی‘ کے نام سے ’کویت سٹی‘ میں ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ کویت کی پہلی عمارت تھی جس میں سمینٹ اور لوہے کا استعمال ہوا۔ سنہ 1915ء میں جب شیخ مبارک رحلت فرما گئے تو ان کے بڑے بیٹے شیخ ’جابر المبارک الصباح‘ ان کے جانشین بن گئے۔ ان کی مدّت حکومت صرف دو سال تھی۔ ان کے بعد ان کے برادر شیخ ’سالم المبارک الصباح ‘ نے تاج و تخت سنبھالا۔ کویت کی تاریخ میں سب سے بڑا معرکہ’معرکة الجھرائ‘ انھیں کے زمانے میں پیش آیا۔ سعودی حکومت کے ساتھ حدود کا مسئلہ اس کا اہم سبب تھا۔ سنہ 1921ء میں شیخ احمد جابر الصباح حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ آپ بڑے دلیر، حاضر دماغ اور دور اندیش لیڈر تھے۔ مشکل گھڑیوں میں بڑی آسانی سے اپنی قوم کو بچ نکلنے کا راستہ دکھا دینا ان کی خا صیت تھی۔ سنہ 1937ء میں شیخ احمد جابر الصباح کے عہد ہی میں کویت میں پہلی بار ’پٹرول ‘ دریافت ہوا اور 30 جون1946ء کو پہلی بار ’پٹرول‘ برآمد کیا گیا۔ سنہ 1948ء کوشیخ احمد جابر الصباح ہی کے دورِ حکومت میں ’احمدی‘ شہر کی بنیاد ڈالی گئی جو انھیں کے نام کی طرف نسبت رکھتا ہے۔سنہ 1950ء میں شیخ احمد جابر الصباح وفات پاگئے اور عبد اللہ السالم الصباح کویت کے امیر قرار دیے گئے۔ یہ وہ پہلے امیر تھے جنھوں نے کویت میں سیاسی زندگی کو نظم سے جوڑا اور یہاں پر سیاست کو ایک نیا رُخ دیا۔ انھوں نے اس کے لیے ایک دستور بھی وضع کیا جس کی وجہ سے انھیں ’ابو الدستور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے عہد میں وسیع پیمانے پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا جس کی بنا پر قلعہ کی دیواریں منہدم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور سنہ 1957ء میں قلعہ کے پانچ مرکزی دروازوں کو باقی رکھتے ہوئے باقی ساری دیواریں گرادی گئیں۔

صبحِ آزادی ترمیم

شیخ احمد جابر الصباح کے بعد شیخ عبد اللہ السالم الصباح کویت کے امیر بن گئے۔ یہ کویت کے گیارہویں امیر تھے۔ انھیں کی کاوشوں اور کوششوں سے کویت نے آزادی کا پرچم لہرایا۔ کسی بھی ملک کی آزادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے داخلی اور خارجی امور کو نمٹانے میں خود کفیل رہے اور ان میں کسی غیر کی دخل اندازی نہ ہو۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امیر موصوف نے 1959 ءمیں ملک کے داخلی امور اور معاملات سے غلامی کی پرچھائی کو ختم کرنے کے سلسلے میں بہت سے اہم فیصلے صادر فرمائے۔ یہ آزادی کی جانب بڑھتا ہوا پہلا قدم تھا۔ اسی سال دسمبر میں ملک کے عدالتی نظام کو مضبوط و مستحکم کرنے کے سلسلے میں بھی ایک مکتوب فرمان جاری کیا گیا جس کی وجہ سے اہلِ کویت اندرونِ ملک حالات سے نمٹنے اور درپیش مسائل کوخو د حل کرنے کے قابل بن گئے۔ اس وقت تک کویت کا عدالتی نظام بھی دستِ غیر میں تھا۔ شیخ عبد اللہ السالم الصباح حکومت برطانیہ پر دباؤ بناتے رہے کہ وہ /23 جنوری 1899 ءکے معاہدہ کو معطل کر دے۔ ان کی یہ کوشش رنگ لائی اور برطانیہ اس معاہدہ کو معطل کرنے پر مجبور ہو گیا۔ آخر کار /19 جون 1961 ءکو”کویت+ برطانیہ” معاہدہ منسوخ کر دیا گیا اور کویت میں آزادی کی صبح نمودار ہوئی۔ حصولِ آزادی کے بعد 11نومبر 1962 ءمیں وضع شدہ نئے دستور کا اجراءہوا۔ شیخ عبد اللہ السالم الصباح کو آزاد کویت کے پہلے امیر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔1965 ءمیں شیخ انتقال فرما گئے۔ اور شیخ صباح السالم الصباح نے ان کی جگہ لی۔

یوم ِ آزادی ترمیم

1961 ءکی آزادی کی یاد میں ہر سال 25 فروری کو کویت اپنا یوم آزادی مناتا ہے۔ جشنِ آزادی پورے جوش و خروش سے منایاجاتا ہے۔ اور پورے کویت میں ہر سو اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس سال یعنی 2011 ءکو یہ اپنی آزادی کی پچاسویں سال گرہ (Golden Jubilee) منا رہا ہے۔ لبریشن ڈے : 2 / اگست 1990 ءکو اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم سے عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر دیا۔ پورے دو دنوں کی فوجی کارروائی کے بعد 4 / اگست 1990 ءکو عراقی فوج کویت پرمکمل طور پر قابض ہو گئی۔ ظلم وزیادتی اور جبر و تشددکا یہ دور پورے سات مہینوں تک کویت اور اہل کویت پرچھایا رہا۔ بالآخر 26 / فروری 1991 ءمیں کویت دستِ ظالم سے آزاد ہو گیا۔ اسی کی یاد میں ہر سال 25 / فروری ’الیوم الوطنی‘ ( National Day)کے دوسرے روز26 / فروری کو یوم التحریر (Liberation Day) منایا جاتا ہے۔

جغرافیائی حالت ترمیم

کویت کا شمار دنیا کے نہایت چھوٹے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ خلیج عرب کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کی سطحِ زمین مغرب سے مشرق کی جانب ڈھلوان میں ہے۔ اور مغرب کی جانب زمین کی اونچائی سطح سمندر سے 300 میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ کویت کے بڑے حصے کو ریتیلی صحرائے عرب نے گھیر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے سطح زمین نرم اور ریتلی ہے۔ جگہ جگہ کم اونچائی والے ریت کے ٹیلے بھی نظر آتے ہیں۔ اس جزیرة نما ملک کے آس پاس تقریباً نو جزیرے پائے جاتے ہیں۔ جن کے نام اس طرح ہیں : جزیرہ بوبیان ( یہ کویت کا سب سے بڑا اور خلیج عرب کا دوسرا بڑا جزیرہ ہے )، جزیرہ فیلکا ( یہ کویت کا واحدجزیرہ ہے جسے بسایا گیا ہے )، جزیرہ وربہ، جزیرہ کبر، جزیرہ عوھہ، جزیرہ ام المرادم، جزیرہ مسکان، جزیرہ قاروہ، جزیرہ ام النمل۔

طرزِ حکومت ترمیم

کویت میں حکومت کی نوعیت آئینی شہنشاہیت کی ہے۔ 1962 ءکے آئین کے مطابق کویت میں موروثی حکومت ہوگی، جو شیخ مبارک السالم الصباح کی نسل میں وراثتًا چلے گی۔ اس آئین کی رو سے شیخ کی ذریت کا ایک فرد امیر ہوگا اورحکومتی معاملات میں ان کا تعاون ولیعہد کرے گا۔ جس کو خود امیر نامزد کریں گے اور کویت پارلمنٹ ”مجلس الامّة“ کے ارکان کثرتِ آراءسے اس کاانتخاب کریں گے۔ اگر کثرتِ آراءاس کے لیے موافقت نہ کرے تو امیر، شیخ مبارک کی نسل میں سے تین افراد کا نام پیش کریں گے اور ”مجلس الامة “ کو ان میں سے کسی ایک کو ولیعہد چن لینا ہوگا۔ امیر کویت میں ’امیر ‘ریاست کے سربراہ ہوتے ہیں۔ 1962 ءکے آئین کی رو سے ’ امیر ‘ کویت کا سپریم اتھارٹی ہیں۔ امورِ اقتدار میں وزیر اعظم ان کا تعاون کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کا تقرر اور ان کی برطرفی کاحق رکھنے کے ساتھ پارلیمان کی تنسیخ اور آئین کے بعض حصوں میں ترمیم کرنے یا انھیں معطّل کرنے کا بھی انھیں پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ 26 / جنوری 2006 ءسے عزت مآب شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح (تاریخ پیدائش :17 جنوری 1929 ء) کویت کے امیر ہیں۔ یہ آزاد کویت کے پندرہویں امی رہیں۔ اور شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح ولی عہد ہیں۔

وزیرِ اعظم ترمیم

کویت کے نظامِ حکومت میں وزیر اعظم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ وہ امیر کے بعد سب سے زیادہ با اختیار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم سے ہی دوسرے وزراءکی بقا وابستہ ہے۔ ان کی برطرفی سے پورا وزراءکابینہ ہی بر طرف ہوجاتا ہے۔ وزراءکی نامزدگی وہی کرتے ہیں۔ مختلف سطحوں پر وزارا ت کے درمیان میں ہم آہنگی پیدا کرنا، ان کے کاموں میں تعاون کرنااور وزراءکونسل کی صدارت کرنا وزیر اعظم کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ حکومت کے ترجمان وزیر اعظم ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت عزت مآب شيخ صباح الخالد الحمد الصباح(تاریخ پیدائش :15/مارس1953 ء) کویت کے وزیر اعظم ہیں۔19 / نومبر 2019ءکو موجودہ امیرنے انھیں وزیر اعظم کی حیثیت سے نامزد کیا تھا۔

نظمِ حکومت ترمیم

قوتِ انتظامیہ (Executive Authority) : حکومت کا یہ سب سے زیادہ با اختیار ادارہ ہے جو امیر اور وزراءکابینہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ کابینہ 16وزیروں کا ہوتا ہے۔ کیونکہ آئین کے مطابق وزراءکی تعدادمنتخب شدہ کُل ارکان پارلیمان کے 1/3سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ قوتِ قانون سازی(Legislative Authority) : اس ادارہ کی نمائندگی کویت کی پارلیمان ” مجلس الامة“ کرتی ہے جو65 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے پچاس کو عوامی انتخاب کے ذریعہ چار سال کے لیے رکنیت دی جاتی ہے۔ باقی پندرہ وزیر ہوتے ہیں جنہیں وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ اس کی نمائندگی حکومتی ادارہ کے ارکان بھی اپنے منصب اور عہدے کے اعتبار سے کرتے ہیں۔ تمام ریاستی معاملات میں امیرکا فیصلہ ہی اہم ہوتا ہے۔ تاہم ’مجلس الامة‘کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ عدلیہ(Judiciary):کویت میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد ادارہ ہے۔ عدلیہ کی اتھارٹی سپریم جوڈیشیل کونسل اور تمام گریڈ کی عدالتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی (Foreign Policy): کویت کی خارجہ پالیسی اعتدال پسندی اور غیر جانبداری پر مبنی ہے۔ خلیج تعاون کونسل(Gulf Cooperation Council “GCC”) کا یہ ایک اہم رکن ہے۔ عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی رکنیت بھی اس کو حاصل ہے۔ اسرائیل کے ماسوا دنیا کے تمام بڑے اور اہم ملکوں کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ داخلی پالیسی Internal policy) کویت کے اندرونِ ملک پالیسی قومی اور انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔ کویت میں کسی سیاسی پارٹی یا مذہبی فرقہ کا آئینی وجود نہیں ہے۔ بعض مقامی اتحادوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ جیسے قومی و قبائلی تنظیموں کا اتحاد اور اسلام پسند تنظیموں کا اتحاد وغیرہ

ریاستی تقسیم ترمیم

ریاستی انتظامی امور کے پیش نظر کویت کو چھ صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں ”محافظة (Governorate)‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ اور ان کے نام ہیں : - 1محافظة العاصمة – 2محافظة الاحمدی 3 -محافظة الفروانیة – 4 محافظة الجھرا – 5 -محافظة حولی 6 -محافظة مبارک الکبیر ہر گورنریٹ کا ایک گورنر(محافظ) ہوتا ہے اور ہر گورنریٹ کی ایک کمیٹی ”مجلس المحافظة “ کے نام سے ہوتی ہے جو گورنر کے ساتھ مل کر صوبہ کے انتظامی کاموں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

معیشت ترمیم

کویت دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے۔ کویت کی حکومت کو ایک مضبوط معیشت حاصل ہے۔ زیرزمین سے بر آمد کیا جانے والا تیل ہی اس کی مضبوط معیشت کی بنیاد ہے۔ 1934 ءسے 1937 ءزیرِ زمین تیل کی ناکام تلاش کے بعد فروری، 1938 ءکو پہلی بار کویت کی ریتیلی اراضی ’برقان ‘ میں دریافت کیا گیا۔ یہ دنیا کادوسر ا بڑا قطعہ ہے جہاں زیرِ زمین تیل کا وافر مقدار موجود ہے۔2009 تک کویت کے تیل کی پیداوار ی صلاحیت یومیہ 2.494 ملین بیرل تھی۔ اس کا دعوی ہے کہ عالمی سطح پر اس کے پاس 7.6% یعنی 101.5 بلین بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں ملک ہے جس کے پاس تیل کے ذخائر کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ پٹرول کے علاوہ گیس اور بعض دیگر مصنوعات پر بھی کویت کی معیشت انحصار کرتی ہے۔ جھینگے Shrimp) ( در آمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کویت ہی ہے۔ کویت نے کئی ایک بیرونِ ملک کمپنیوں میں بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جیسے مرسڈیس بنز کمپنی، Q8آئل کمپنی اور برٹش پٹرولیم میں اس کی حصہ داری ہے۔ تیل کی دریافت سے پہلے کویتی دوسرے خلیجی ملک والوں کی طرح فنِ غواصی میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے ذریعہ سمندر کے پیٹ سے موتیاں چن لاتے جواس وقت ان کی معیشت کی بنیاد تھی۔ موتیوں کے بیوپاری ’طواشین‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کشتی کی صنعت کے لیے بھی کویت بہت مشہور تھا۔ بلکہ کویتی کشتیوں کی اس وقت بڑی مانگ رہتی تھی۔ اس کے لیے تختے اکثر ہندوستان سے برآمد کیے جاتے تھے۔ جو زیادہ تر ناریل یا ساگوان کے درختوں سے بنائے جاتے تھے۔

کویت کرنسی ترمیم

کویتی دینار 1960ء سے اسٹیٹ آف کویت کی سرکاری کر نسی ہے۔ سنٹرل بینک آف کویت اس کو جاری کرتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف کرنسیاں وقفے وقفے سے بدلتی رہی ہیں۔ ان میں قابل ذکر رزرو بینک آف انڈیا کا جاری کردہ ہندوستانی روپیہ ہے جو 1960ء سے پہلے یہاں جاری تھی۔ کویتی دینار آج کی دنیامیں زرِ مبادلہ کی سب سے مہنگی شرح رکھتا ہے۔ ایک کویتی دینار تقریباً 3.46 امیرکن ڈالر کے برابر ہوتا ہے اورایک کویتی دینارہزار فلس کا ہوتا ہے اور سنٹرل بینک آف کویت نے اس کے نقدی اوراق چھ حصوں (ربع دینار، نصف دینار، ایک دینار، پانچ دینار، دس دینار اور بیس دینار) میں جاری کیا ہے۔

آبادی ترمیم

منسٹری برائے منصوبہ بندی کے اعداد و شمار کے مطابق 2008 کے اواخرتک کویت کی کل آبادی 3,441,813 تھی۔ ان میں سے 1,087,552 کویتی تھے اور باقی غیر ملکی اور تارکین وطن تھے جن کی تعداد تقریباً 2,354,261 تھی۔ غیر ملکی آبادی کو عربی اور غیر عربی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ عرب کمیونٹی میں سب سے زیادہ مصری ہیں دوسرے اور تیسرے درجے میں بالترتیب سوری اوراردنی آتے ہیں۔ غیر ب عربوں میں ہندوستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

زبان ترمیم

دستور کی رو سے یہاں کی سرکاری زبان صرف عربی ہے۔ البتہ سرکاری دستاویزات، عام ہدایات اور اس طرح کی چیزوں میں انگریزی زبان کو بھی دوسری زبان کے طور پر استعمال کر نے کا روا ج پایا جاتا ہے۔

مذہب ترمیم

اسلام، یہاں کا دستوری مذہب ہے جویہاں کی اکثریت کا دین ہے۔ یہاں کی آبادی کا تقریباً85% اسلام کو ماننے والے ہیں۔ آئین کی رو سے دوسرے مذاہب کوبھی یہاں پر آزادی حاصل ہے۔

تہذیب و ثقافت ترمیم

کویتیوں کی اپنی خاص تہذیب ہے۔ طرزِ زندگی میں اور عادات و اطوار میں عربی اور اسلامی ثقافت کی چھاپ نمایاں ہے۔ کلچرل گلوبلائزیشن کے باوجود ان میں آج بھی قدیم شخصی و سماجی روایتیں زندہ ہیں۔ دولت کی فراوانی کے باوجود اکثریت کی طبیعت میں وہی پرانی سادگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مٹی کے چھوٹے چھوٹے مکان عالیشان فلک بوس عمارتوں کے روپ پاچکے ہیں۔ مگر مٹی کی طبیعت آج بھی ان میں زندہ ہے۔ چھٹیوں میں شہر سے دور ریگستانی علاقوں میں خیمے لگا کر اپنی پرانی تہذیب سے لگاؤ کی نمائش کرتے ہیں۔ ’دیوانیہ ‘ کویت کی قدیم روایتی ثقافت کا ایک نمونہ ہے جس کا آج بھی اتناہی اہتمام ہوتا ہے جتنا تیل کی دریافت سے پہلے ہوتا تھا۔ قدیم زمانے میں کویتیوں کا گھر ایک ہال والا ہوتا تھا مگر صاحب حیثیت کویتی اپنے گھروں کی ایک جانب ایک اور ہال یا ایک الگ کمرہ بھی بناتے تھے اور اسی کا نام ’ دیوانیہ‘ ہوتا تھا۔ اسی جگہ مہمانوں کو استقبالیہ دیا جاتا تھا۔ نیز دوست و احباب اور پڑوسیوں کے ساتھ مل بیٹھنے، خاندانی اور علاقائی مسائل کو سلجھانے اور گپ شپ کی محفل منعقد کرنے کے لیے بھی ’دیوانیہ ‘ کا استعمال عام تھا۔ فارغ اوقات میں قصہ گوئی اور تبادلہ خیالات کی مجلسیں بھی یہیں پر قائم ہوتی تھیں۔ ان میں قالین بچھی ہوتی تھی اور راحت کی غرض سے گاؤ تکیے بھی لگے رہتے۔ خوشبودار اور الائچی دار قہوہ اس دیوانیہ کے امتیازات میں شامل تھا۔ صاحبِ دیوانیہ خود اس قہوہ کا انتظام کرتاتھا۔ پیتل کے کھونٹی دار اور ڈھکن والے خاص قسم کے برتن میں اُسے ڈالا جاتا اور مٹی کے چھوٹے چھوٹے پیالوں میں ڈال کر پیش کیا جاتا تھا۔ اب کویتیوں کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی زندگی میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں مگر ”دیوانیہ “ آج بھی ان کی ثقافت کا حصہ بنا ہوا ہے۔ بلکہ ان کی تعداد میں بھی کافی ا ©ضافہ ہو چکا ہے۔ زمانے کے اعتبار سے ساز و سامان میں بھی فرق آچکا ہے۔ مٹی کی پیالیوں کی جگہ کانچ کے چھوٹے کپ آچکے ہیں۔ ان میں بہت سارے توٹیلیویژن، کمپیوٹر اوران جیسے دیگر جدید ابلاغی و مواصلاتی آلات وسائل سے آراستہ کردیے گئے ہیں۔ ہر گھر میں یا کم و بیش ہر گلی میں آپ کو ’دیوانیہ‘ نظر آئے گا۔ ان میں سے کچھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت پا چکے ہیں۔

لباس ترمیم

کویتیوں کے لباس سے بھی ان کی ثقافتی پہچان ہوتی ہے۔ قدیم قبائلی لباس جسے یہ لوگ ’دشداشہ ‘ اور ’غترہ‘ کہتے ہیں آج بھی یہاں کے زیادہ تر مردوں کا لباس ہے۔ بڑے بوڑھے اور معمر لوگ اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ عورتیں عموماً سیاہ برقع پہنتی ہیں جو بدن کے زیادہ تر حصوں کو بند رکھتا ہے، تاہم اندرون برقع عورتوں کا عمومی لباس درعا، زبون اور ثوب ہے، ۔ مغربی تہذیب کے اثر سے اگر چہ نئی نسل میں لباس میں تبدیلی کی عام لہر چلی ہے مگر اس کے باوجود قومی لباس اور اسلامی اقدار کی پاسداری آج بھی ان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

غذا ترمیم

قدیم زمانے سے سمندری غذائیں کویتیوں کے غذائی نظام کی بنیاد رہی ہے ں۔ اس کے ساتھ بکری اور اونٹ کا گوشت بھی انھیں بہت مرغوب ہے جس سے مختلف قسم کی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں۔ بعد کے زمانے میں یورپ اور ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات سے بعض مسالا دار غذائیں بھی ان کی ڈشوں میں شامل ہوگئیں۔ مجبوس، جریش، ہریس، تشریبہ، قبوط وغیرہ یہاں کی مرغوب و معروف ڈشیں ہیں۔

فہرست متعلقہ مضامین کویت ترمیم

بیرونی روابط ترمیم

  • امیر کویتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ da.gov.kw (Error: unknown archive URL)
  • دیوان دولت کویت
  • "کویت"۔ کتاب عالمی حقائق۔ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی 
  • کرلی (ڈی موز پر مبنی) پر کویت
  • ویکیمیڈیا نقشہ نامہ کویت
  •   کویت سفری راہنما منجانب ویکی سفر
  • کویت اردو نیوزآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kuwaiturdu.com (Error: unknown archive URL) کویت میں ممتاز اردو نیوز پیپر
  1.     "صفحہ کویت في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2024ء 
  2. http://chartsbin.com/view/edr